بلھے شاہ کی دھرتی کا سپوت
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع |
بلھے شاہ کا تعلق صوفی ازم اور علم و ادب سے ہے۔ اُس دھرتی کا ہر باسی انہی کے نقشِ قدم پر چلے ایسا ممکن نہیں ہے۔ مگریہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی بلھے شاہ کو شخصیت کو مشعلِ راہ بنا سکتا ہے۔محمد اسلم لودھی کی زندگی کا سفر قصور سے شروع ہو کر واں رادھا رام سے ہوتا ہوا لاہور میں آخری پڑاؤ پر منتج ہوا۔ علم وادب میں اسلم لودھی بلھے شاہ کے نقش قدم پر چلتے نظر آتے ہیں۔ لائن اِن کی اپنی ، بلھے شاہ کی اپنی ہے۔ چھوٹے خاندان چشم و چراغ بڑا آدمی کیسے بنا؟۔
یہ بڑا حیران کن ہے۔ اسلم لودھی کو میں بڑے آدمی کے روپ میں دیکھتا ہوں تو میں دہائیوں قبل ماضی میں چلا جاتا ہوں۔کھیل یا کسی بھی مقابلے میں کامیابی کا ایک کرائیٹریا ہے۔ جو مقابلے میں آگے نکل گیا۔ جیت گیا، وہ کامیاب ٹھہرا۔ کامیاب آدمی شخص یا انسان کی بات کی جائے تو معیارات یکساں نہیں ہوتے۔ اس بارے اپنی اپنی سوچ ہے۔ دولت مند ہو جانے کو کچھ لوگ کامیابی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اربوں کی جائیداد رکھنے والا اپنے سے زیادہ جائیداد کے مالک کو دیکھ کر خود کو ناکام سمجھنے لگ جاتا ہے۔ آپ نے جو ہدف مقرر کیا ہے وہ حاصل کر لیا تو کامیابی ہوگئی۔ اسی طرح بڑے آدمی کا تصور بھی اپنا اپنا ہے۔ میرا ایک کلاس فیلو سرکاری ملازم تھا۔ اس نے بڑا آدمی بننے کی کہانی پڑھی۔جس میں ایک شخص اپنے بیمار بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ باتوں باتوں میں اس نے ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ بیٹے کو بڑا آدمی بنانا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا تم خود بڑا آدمی کیوں نہیں بنتے۔ یہ بات اس شخص کے دل کو لگی۔ اس نے محنت کی سمت تبدیل کی اور دولت مند بن گیا۔ اگر امیر اور مالدار بننا بڑا آدمی تھا تو وہ بڑا آدمی بن گیا۔ میرے اس دوست نے یہ کہانی پڑھنے کے بعدنوکری چھوڑ دی۔اس نے پھیرے بازی شروع کر دی۔ دبئی جاتا خریداری کرتا پاکستان میں دُگنا قیمت پر فروخت۔ جاپان کا ویزا لگا۔ اس کے بعد راستے نظر آنے لگے۔ امریکہ میں سیٹل ہو گیا۔ ارب پتی بن گیا۔ اگر مال و دولت کو پیمانہ بنایا جائے تو میرے اس کلاس فیلو کے بقول وہ بڑا آدمی بن گیا۔
آج لودھی صاحب واقعی بڑے آدمی بن چکے ہیں اور جینوئن بڑے آدمی ہیں۔ان کی ایک سے بڑھ کر ایک تصنیف ہے۔ چوتھی سوانح عمری نوید سحر کی صورت میں آپ کے ہاتھ میں اور زیر مطالعہ ہے۔
کتابوں کی تعداد غیر مطبوعہ سمیت ماشاءاللہ چونسٹھ ہے، ہر کتاب معیار کی معراج پر ہے۔ سب ریفرنس بک کی حیثیت رکھتی ہیں۔ تحقیق کا ہر تقاضہ کما حقہ¾ پورا کیا گیا ہے۔جو پڑھ لیا یادوں میں بس گیا۔
"شہادتوں کا سفر" میں نے تین مرتبہ پڑھی۔ اس کا یہ اقتباس دل پر نقش ہو کر رہ گیا۔
محمد محفوظ شہید کے ورثا اور گاﺅں والوں نے ان کو قبرستان سے الگ دفنا کر مقبرہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت تک ان کو شہید ہوئے 6 ماہ 13 دن ہو چکے تھے۔ گرمیوں کا موسم تھا قبرکی کھدائی شروع ہوتے ہی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی، بادل چھا گئے۔ نعش نکالی گئی تو تابوت سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے جو گھر سے برتن منگوا کر محفوظ کر دئیے گئے۔ نئی قبر کھودی گئی تو وہ بھی پرانی قبر کی طرح معطر ہو گئی۔ شہید کے ایک بھائی نے دیدار نہیں کیا تھا۔ اس نے علماءسے دیدار کی درخواست کی۔ دوسروں کو کچھ نہ بتانے کی شرط پر اجازت دے دی گئی۔ بعد میں والدہ کے کہنے پر بتایا کہ شہید کی داڑھی تین انچ بڑھی ہوئی تھی جو شہادت اور تدفین کے وقت موجود نہ تھی۔ میت پر ڈالی گئی پھول کی پتیاں تروتازہ تھیں چہرے پر بشاشت اور طمانیت تھی۔
سنا ہے ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں ، جس کے پیچھے عورت کا ہاتھ نہ ہو وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کامیاب آدمی پر ہم بحث کر چکے ہیں۔اب ہم بات کریں گے اسلم لودھی صاحب کی ۔ وہ بڑے آدمی ہیں اور کامیاب بھی۔ وہ آج شہرت کی جس معراج پر ہیں وہ ہر کسی کی قسمت میں نہیں ہوتی۔ انہوں نے جو بھی ہدف مقرر کیا حاصل کرتے چلے گئے۔کرنل امجد صاحب کے بقول اسلم لودھی پاکستان کی اردو مصنفین کی فہرست میں ایک روشن ستارہ ہیں۔ ان کی تحریر پڑھ کر ہمیشہ ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ اپنے مخصوص طرز تحریر کے باعث وہ علمی حلقوں میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
یہ تو آپ نے اسلم لودھی ان کی شخصیت اور کارکردگی و کارناموں کے بارے جان لیا۔ آخر میں تھوڑی اپنی بپتا تھی: دو روز قبل 18اکتوبر کی رات سوا آٹھ بجے معمول کے مطابق آفس سے گھر آ رہا تھا۔ جی ون مارکیٹ جوہر ٹاؤن میں سڑک پر تھوڑا رش تھا۔ ایک نوجوان گاڑی کی چھت پر دھپے مارنے لگا۔اس سے پوچھاکیا بات ہے۔ اس نے بیک مرر کی طرف اشارہ کیا جو آگے کی طرف ہوا تھا۔ میں نے لفٹ سائیڈ فرنٹ کا شیشہ کھول لیا۔ اسے کہا اسے سیدھا کر دو۔ گاڑی اس وقت رینگ رہی تھی۔اسی دوران رائٹ سائیڈ کی بیک سے چھت پر زور سے دھپے لگنے لگے۔ اس طرف توجہ کی۔ اس نوجوان نے برابرآ کر کہا دیکھ کے پاﺅں نیچے آنے لگا تھا۔ اس دوران اگلی سیٹ پر موبائل پر لگا وی لاگ بند ہو گیا۔ عموماً ایڈ آجائے تو ایسا ہو جاتا ہے۔ میں نے دونوں شیشے اوپر کئے گاڑی آگے بڑھائی۔ رش ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ موبائل کی طرف دیکھا ، نظر نہ آیا۔ سوچا سیٹ سے آگے گر گیا ہوگا۔ ساتھ ہی شک گزرا ہاتھ نہ ہو گیا ہو۔ ایسا ہی ہو چکا تھا۔ سیٹ پر ڈیوائس اور پاور بینک پڑا تھا۔ اس کے ساتھ ایک نہیں دو نہیں تین موبائل تھے۔ ایک کا تو ابھی پی ٹی اے بھی نہیں ہوا تھا۔ یوٹیوب چینل کے لیے پروفیشنل کیمرہ اور پوری ٹیم ہے۔ دو موبائل بھی ویڈیوز خصوصی طور پر انٹرویوز آن لائن ریکارڈنگ کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ تیسرا موبائل گھر سے پروٹیکٹر لگوانے کے لیے لے گیا تھا۔ تھانہ جوہر ٹاؤن میں رپورٹ درج کروا دی ۔سمیں بند اور نئی لینا کرِداردہے۔ میں ان صحافیوں سے ہوںجن کی پی آر نہ ہونے کے برابر ہے۔ سٹوری سنانے کا مقصد یہ ہے کہ شایدکسی کے توسط سے ایک موبائل مل جائے۔ ویسے میں ایسی وارداتوں سے آگاہ تھا ،موبائل ایسے نہیں رکھتا تھا۔ جب ہونا ہو تو نقصان ہو ہی جاتا ہے۔اس واردات میں کئی اتفاقات ایک ساتھ ہوگئے۔نوسر بازوں کی شاطرانہ ذہنیت اور دیدہ دلیری ،کیا کہنے۔