سعودی اسرائیل تعلقات: نئی جہتیں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

گزشتہ ہفتے سعودی عرب کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے امکانات پر مبنی خبر عالمی وقومی میڈیا کی زینت بنی۔ ایک قومی اخبار کی ہیڈ لائن تھی۔”سعودی عرب سمیت متعدد مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے:ایلی کوہن“۔ خبر میں ایلی کوہن کا نام میرے لیے توجہ کا مرکز بن گیا۔ خبر کی تفصیل میں ایلی کوہن کو اسرائیلی وزیر خارجہ بتایا گیا۔ مجھے یہ نام نصف صدی سے بھی کچھ قبل کے دور میں لے گیا۔ وہ بھی ایلی کوہن تھا، اس کا تعلق بھی اسرائیل سے تھا۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے جس سے اُس ایلی کوہن بارے جاننے میں آسانی رہے گی۔

سعودیہ کے بعد کئی مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں گے، ایلی کوہن
”یہ دمشق کے شہدا چوک کی 18مئی1965ءکی 19 مئی میں داخل ہوتی ہوئی رات ہے۔ چوک کا کونا کونا روشنیوں سے نہایا ہوا ہے۔ ہزاروں لوگوں کا ہجوم ہے۔ دنیا کے جس صحافی نے بھی یہ منظر دیکھنے کی خواہش کی‘ اسے اجازت دیدی گئی، چوک کے درمیان کی تھوڑی سی جگہ خالی ہے۔ ہجوم کی آنکھیں اسی جگہ پر مرکوز ہےں۔ منظر کشی کےلئے کیمرے فٹ کئے جا چکے ہیں۔ ارد گرد عمارتوں پر مسلح کمانڈوز نے پوزیشنیں سنبھال رکھی ہیں۔ شام کی فضائیہ کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔ ہجوم میں مال دار خواتین نے ہیرے جواہرات کے زیورات اور فر کے کوٹ پہن رکھے ہیں۔ رات ڈھلی ایک بجا، دو پھر تین۔ آخر کار وہ لمحہ آ گیا جس کا دل کی بے قابو ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ انتظار کیا جارہا تھا۔ 3بجکر 35 منٹ پر اسرائیلی جاسوس ایلی کوہن کو چوک کے وسط میں بنائے گئے گھاٹ پر لا کر پھندا کسا گیا، آناً فاناً جلاد نے اس کا قصہ تمام کر ڈالا۔ایلی کوہن نے ایک بزنس مین کی حیثیت سے شام کے تجارتی حلقوں، حساس اداروں اور ایوان صدر تک رسائی حاصل کی ہوئی تھی۔ اسکے صدر کی کابینہ اور جرنیلوں کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات تھے۔ صدر امین الحافظ کے وہ اتنا قریب تھا کہ صدر نے اسے وزیر دفاع بنانے کی پیشکش کی جسے وہ ٹال گیا۔صدر اس کی حب الوطنی، اہلیت اور قابلیت سے اس قدر متاثر تھے کہ اسے اپنا جان نشین بنانے پر بھی غور کیا۔ایلی کوہن کی جاسوسی کے باعث اسرائیل نے محض 6دن میں شام کو شکست سے دو چار کر دیاتھا۔ جب پکڑا گیا تو صدر امین الحافظ نے دنیا کا ہر دباؤ اور اسرائیل کے اس ایک جاسوس کے بدلے شام اور فلسطین کے جاسوسوں سمیت تمام قیدی رہا کرنے کی پیشکش مسترد کر دی“۔

شام کے سیاسی ایوانوں میں جگہ بنانے والا اسرائیلی جاسوس - BBC News اردو
اب آجاتے ہیں وزیر خارجہ ایلی کوہن کے اس بیان کی طرف، انہوں نے انٹرویو کے دوران کہا۔" سعودی عرب کے بعد اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والے چھ یا سات ممالک کا تعلق ایشیاءاور افریقہ سے ہوگا۔ سعودی عرب کے ساتھ امن کا مطلب مسلم دنیا اور یہودیوں کے مابین امن ہے"۔ کچھ مسلم ممالک میں اسرائیل کے بارے میں شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ایلی کوہن نے چند روز قبل انکشاف کیا تھا کہ ان کی لیبیا کے وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی ہے جس پر نجلا منقوش کو عہدے کے ساتھ ملک بھی چھوڑنا پڑ گیا تھا۔نجلا منقوش نے شاید اس حکومت سے اجازت نہیں لی تھی جو امریکہ کے زیر اثر ہے۔ایلی کوہن کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بیان پر نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا تھا کہ پاکستان اپنے مفادات کو دیکھ کر فیصلہ کرے گا ۔

از پوشش حداکثری بی‌نظیر تا شال حداقلی نجلا منقوش
آج اسرائیل بارے بہت کچھ پہلی بار ہورہا ہے۔ وزیر خارجہ ایلی کوہن نے 23ستمبر کو سعودیہ کے یوم ِ الوطنی پر مبارک باد دی۔ 26ستمبر کو وزیر سیاحت بائم سعودی عرب میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام انعقاد پذیر سیاحتی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ یہ کسی بھی اسرائیلی وزیر کا سعودی عرب کا پہلا باقاعدہ اعلان کر کے دورہ تھا۔ سعودی عرب کو عالمِ اسلام میں معتمد و معتبر ملک کی حیثیت حاصل ہے۔سعودیہ اہل اسلام کے لیے عقیدتوں کا مرکز و محور ہے۔ اکثر مسلم ممالک اسی طرف دیکھتے ہیں جدھر خادم حرمین شریفین دیکھیں۔ اسرائیل بارے سعودی عرب کی پالیسی میں تبدیلی بڑے غور و خوض کے بعد آئی ہو گی۔جنگیں لڑ کر دیکھ لیا اب شاید امن کے ذریعے فلسطین کے حق میں معاملات استوار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں تو ساتھ ہی سعودیہ کا فلسطین کے ساتھ قربتوں میں مزید اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ جس روز اسرائیلی وزیر سیاحت کے سعودی عرب جانے کی خبرنشر اور شائع ہوئی اسی روز سعودی سفیر کی تعیناتی اور فلسطین کے دورے کی بھی خبر موجود تھی۔ یہ بھی شاید عجب لگے کہ فلسطینی سفیر نے فلسطین کا دورہ کیا، ایسا ہی ہواہے۔ فلسطین میں نائف بن بندرالسدیدی سعودی عرب کے غیر مقیم سفیر مقرر کئے گئے ہیں۔ان کا آفس اردن میں ہوگا۔وہ یروشلم میں غیر مقیم قون
صل جنرل بھی ہونگے ۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے بعد ہی سعودی سفیر کی تعیناتی ہوئی ہے۔ السدیدی کی طرف سے الگ فلسطینی ریاست کے قائم کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔19ستمبر کو اقوام متحدہ میںسترممالک اور تنظیموں کا اجلاس سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی سربراہی میں ہوا جس میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی بات کی گئی۔ 
اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین ہونے والے مذاکرات کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے جمال خشوگی کے معاملے پرشروع میں جوبائیڈن کے مخاصمانہ بیان پر شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد امریکہ سعودیہ تعلقات کشیدگی نظر آئی ۔جوبائیڈن کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی پڑی۔اب تعلقات میںگرم جوشی پائی جا رہی ہے۔ اس کا کریڈٹ ولی عہد کو جاتا ہے۔محمد بن سلمان کی مناسب اور معتدل خارجہ پالیسی کے باعث ہی ایران کے ساتھ تعلقات استوار ہوئے۔


 اکیس ستمبر کوشہزادہ محمد بن سلمان نے فوکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا"۔ خلیجی ممالک (متحدہ عرب امارات، مراکش اور بحرین نے اسرائیل کوحالیہ ماہ و سال میں تسلیم کیا)کی طرح سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کوشاں ہے۔ ہم ہر روز قریب آرہے ہیں۔ ہمارے لئے فلسطین کا مسئلہ اہم ہے۔ فلسطینیوں کی زندگیوں کو آسان بنانا ہے۔"گویا سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ معاملات کومسئلہ فلسطین کے حل کی خاطر بہتر بنا رہا ہے۔ یہ ان حلقوں کیلئے حوصلہ افزا پیشرفت ہے جو مسئلہ فلسطین کا ایسا حل چاہتے ہیں جس میں خونریزی کااحتمال نہ ہو۔چند روز قبل ستمبر کے آخرمیں امریکی قومی سلامتی کے ترجمان نے کہا تھا کہ فریقین نے بنیادی فریم ورک ڈیل طے کر لی ہے جس پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ 
فلسطینیوں کو الگ ریاست چاہیے۔1967ءکے مقبوضات کی واپسی ان کا مطالبہ رہا ہے۔ معاملات اگرمذاکرات سے طے ہوتے ہیں تو بڑی کامیابی ہے۔ فلسطینی مطمئن ہوتے ہیں تو پاکستان کیلئے سعودی عرب کے ہمقدم ہونے میں کوئی عارنہیں ہوگی۔ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ یہ مسئلہ فلسطینیوں کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے اور اب سعودی عرب کی کاوش سے امکان نظر آنے لگا ہے۔