فرعون، نمرود، ہلاکو خان اپنے اپنے دور میں طاقت کے منابع اورمحورو مرکز تھے۔ ظلم روا رکھنے میں بھی لاثانی تھے۔ ان سب کا اور ان جیسوں کا انجام بھی ایک سے بڑھ کر عبرت ناک ہوا۔ ہلاکو کے رحم کا ایک قصہ مشہور ہوا۔ خاتون نے فریاد کی کہ اس کا نوزائیدہ تالاب میں گر گیا ہے ۔
ہلاکو نے نیزے میں پرو کر اس کے حوالے کر دیا ۔رحم بھی کرتا تو ایسا! کھوپڑیوں کے مینار بھی ہلاکو خان ہی بنایا کرتا تھا۔ مرا تو ایسے کہ لشکر کے درمیان تھا ۔ لیکن اسے کوئی بھی بچا نہ سکا۔مظلوموں کی صف میں ک
ہلاکو، نمرود، فرعون ، یزید ظلم جبر اور بے رحمی کے استعارے بن گئے۔ یہ آج بھی اپنے کرداروں کی عکاسی کی صورت میں کہیں نہ کہیں نظر آ جاتے ہیں۔ اقتدار میں ہوں تو خود کو خدا رعایا کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔ اپنے انجام سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ جب قدرت کا کوڑا برستا ہے توآنکھوں سے پٹی اترتی ہے۔اقتدار سے نکال باہر کیا جانا تو معمول ہے۔جلا وطن اور پسِ زنداں بھی کردیا جاتا ہے۔وہاں خدا یاد آتا اوراقتدار کے دور کا ہر منظر آنکھوں کے سامنے لہراتاہے ۔بدلے سے تائب اوراصلاح کا عہد کیا جاتا ہے مگر اقتدار ملتا ہے تو تائب ہونا اور اصلاح کا عہد تلخ یاد ماضی کی طرح بھلا دیا جاتا ہے۔تاریخ سے سبق نہ سیکھنا ہی تاریخ ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام پاکباز شخص کے ساتھ سفرکر رہے تھے۔ ایک خوبرونابینا شخص کو دیکھا تو رنجیدہ ہوئے۔ عرض کیا یہ اس حال میں کیوں ؟ اس میں کیا حکمت؟ اس شخص کی بینائی واپس آگئی تو اس نے کمزوروں کو پکڑ کر دریا میں پھینکنا شروع کر دیا۔ ہمارے ہاں ایسے ہی لوگ اقتدار میں آتے ہیں تو ظلم کی اخیر کر دیتے ہیں۔اقتدارکو اللہ کی امانت اور سیاست کو عبادت ضرور کہا جاتا ہے۔ ہمیں یہ سننے کی حد تک ہی ملتا ہے۔ عملاً عموماً اس کے برعکس ہی دیکھا گیا ہے۔
آج عمران خان زیر عتاب ہیں۔کل ان کے پشیروؤں کو ایسے ہی حالات کا سامنا تھا۔ قائداعظم کے مختصر دور کے سوا ہر دور انتقام سے لتھڑا دِکھتا ہے۔ اب تو حدیں عبور ہو گئی ہیں۔ نواز شریف کو سزا ہوئی۔ ضابطے کی کارروائی پوری کی گئی۔ بھٹو کو پھانسی لگا دیا گیا۔ ان کو صفائی کا پورا موقع دیا گیا۔ مقدمہ میں بھٹو صاحب کی پھانسی نہیں بنتی تھی۔ بنتی تو نو رکنی کورٹ کا متفقہ فیصلہ ہوتا۔ فائنل فیصلہ 7ججوں نے دیا۔ تین سزائے موت کے مخالف تھے۔ بھٹو صاحب کو صفائی کا موقع دیا گیا۔ یہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے تھا یا جو بھی تھا جج تقسیم ہوگئے۔ نسیم حسن شاہ زندگی سے جاتے ہوئے بتا گئے۔”بھٹو کو پھانسی کا فیصلہ دباؤ پر دیا“۔
عمران خان سے اتنا انتقام کم نہیں کہ ان کی حکومت ہی جاتی رہی۔ نواز شریف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اُن کو اقتدار سے الگ کرنے کے پیچھے جنرل باجوہ صاحب تھے۔ پاناماکیس اتنا مضبوط تھا کہ سزا ہونی تھی۔ جنرل باجوہ صاحب نے یہ پراسس آسان بنانے میں معاونت کی۔ عمران خان کو استعمال کیا گیا۔ پھر باجوہ صاحب نے سائیڈ بدل لی۔ نواز شریف سے کیا مسئلہ تھا؟۔ عمران خان کیوں دل سے اترے کہ ان کو کرسی سے اتارنا پڑا۔ ان کی جگہ ”تجربہ کار“ آگئے۔ جنہوں نے ملک کو تجربہ گاہ بنا دیا۔کل وہ ایک سال چار ماہ بعد اقتدار سے الگ ہوگئے ہیں۔
یہ لوگ کچھ بھی کہیں۔ عمرا ن خان کا ماضی کے مقابلے میں مہنگائی کا دور تھا۔ یہ تجربہ کارلائے گئے تو مہنگائی دُگنا ہو گئی۔ ایک ایک چیز پر بحث لا حاصل ہے۔ سب کچھ سامنے ہے۔یہ لوگ اور ان کے کچھ حامی سوا سال کے دور کو سنہرا بھی کہتے ہونگے۔ اس دور کو تاریک رات سے تشبیہ دینے والے بھی موجود ہیں۔سنہری رات تھی تو بھی کٹ گئی۔تاریک شب تھی تو بھی بیت گئی۔ نئے آنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے ماہ و سال ایسے ہوں کہ شہباز شریف کا سوا سال سب کو سنہرا دِکھنے لگے۔
توشہ کیس میں عمران خان کو تین سال سزا جرمانہ اور نااہل قرار دے دیا گیا۔ عمران خان بھی اس کے بعد نواز شریف اور زرداری کی طرح ”چوروں“کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ اگر یہی مقصد تھا تو سرِ دست حاصل ہو گیا۔ میاں نواز شریف کی سزا ختم ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پراسس شروع ہے۔ ہمارے ملک میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ ”سائڈ“ کسی بھی مرحلے پر بدلی جا سکتی ہے۔ اِ دھر سائڈ بدلے گی اُدھر پانامہ کی طرح توشہ خانہ القادر سائفر،قتل،اقدام قتل، غداری و دہشتگردی ایسے مقدمات کے گالے اڑتے نظر آئیں گے کیونکہ یہ پاکستان ہے اور کسی بھی وقت کچھ بھی بعید نہیں۔
انتخابات محض بادی النظر میں التوا میں جاتے ہوئے اس لیے نظر آ رہے ہیں کہ عمران خان کو عوامی پذیرائی حاصل ہے۔یہ ایک طرح کا خوف ہے جس میں حویلیاںاور پشاور کے بلدیاتی ضمنی الیکشن نے مزید اضافہ کر دیا ہے۔ حالانکہ عام انتخابات میں کئی عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ ان کا تجزیہ کیا جائے تو ضروری نہیں مقبولیت کی بلندیوں پر نظر آنے والی پارٹی کلین سوپ کر جائے۔ بہر حال پشاور اور حویلیاں کے ضمنی الیکشن سے یہ ضرور ثابت ہو گیا ہے کہ جب تمام راستے بند کر دیئے جائیں، احتجاج کا حق بھی نہ ہو تو عوام اس طرح خاموش احتجاج ریکارڈ کراسکتے ہیں۔