صحافت کے مردِ مجاہد

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

پیر محمد ضیاءالحق نقشبندی سی ایس ایس اکیڈیمی بھی چلاتے ہیں۔ اکیڈیمی کے ماتھے پر مجیب الرحمن شامی اور سہیل وڑائچ کی تصاویر جھومر بن کر دمک رہی ہیں۔ کم وسائل کے حامل لڑکے لڑکیوں کو فری تربیت دی جاتی ہے۔ فنڈز جمع کرنے کیلئے پیر صاحب کو بڑے کشٹ کرنا پڑتے ہیں۔ شامی صاحب اکیڈیمی کے پیٹرن انچیف اور سہیل وڑائچ صاحب ڈپٹی چیف ہیں۔ مواقع کی مناسبت سے اکیڈیمی میں تقریبات کا انعقادبھی ہوتا ہے۔ جس تقریب کی روداد آپ کے سامنے رکھنے جا رہے ہیں۔ اس سے مخاطب ہوتے ہوئے سجاد میر صاحب نے کہا کہ پیر صاحب ان کے پاس ہر ماہ آتے اور دوہزار روپے فنڈ کی مد میں لے جاتے۔ میں نے انہیں سال بھر کا ایک ہی بار فنڈ دینے کی بات کی تو یہ معذرت کر لیتے۔


پیر نقشبندی صاحب کی نئی کتاب سہیل وڑائچ شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب انہوں نے تیرہ سال میں مکمل کی اور اتفاق سے یہ حضرت پیرصاحب کی تیرہویں کتاب ہے۔انہوں نے سہیل وڑائچ کی سالگرہ کااہتمام کیا جس میں اپنے اور وڑائچ صاحب کے دوستوں کو دعوت دی۔ میں پیر صاحب کے پیرو کار کی حیثیت سے حاضر ہوا۔ نیاز مندی کا سلسلہ 15سال پر محیط ہے۔ اکیڈیمی میں جتنے لوگوں کی نشست کا اہتمام کیا گیا تھا اس سے کہیں زیادہ ان کی اور تقریب کے روحِ رواں سہیل وڑائچ کی محبت میں چلے آئے۔ 


پنڈال میں سب سے پہلے جا کر میں بیٹھا تھا۔ اکیڈیمی گیٹ سے داخل ہوتے ہی دائیں طرف دو رویہ کرسیاں لگی تھیں۔ سامنے دس ہونگی جو تقریب کے روحِ رواں اور خاص و بڑے مہمانوں کے لیے تھیں۔ میں دائیں رو کی پہلی کرسی پر براجمان ہو گیا۔کیونکہ ....؟ تھوڑی دیر میں مدعوئین کی آمد شروع ہو گئی، میرے ساتھ ایک بڑی کالمسٹ تنظیم کے چیئرمین آ بیٹھے۔ کرسیاں پُر ہو گئیں۔ مہمان آتے رہے نقش بندی صاحب ڈگنیٹیز کو بٹھانے کیلئے اپنے بے تکلف مریدوں کو کہتے رہے”توں اُٹھ“ میرے ساتھ کی تیسری چیئر پر محمد مہدی بیٹھے تھے۔ تقریب کے اختتامی لمحات کے دوران ایک نورانی چہرے ، دستار وجبہ زیب تن کئے امام مہدی جیسی شخصیت کی آمد ہوئی۔ ان کے لیے پیر صاحب نے میرے ساتھ بیٹھے صحافی کو کرسی خالی کرنے کو کہا،ان کا جواب تھا ”عقل نوں ہتھ مار“ میں فطرتاً ایسے مواقع پر خود ہی اُٹھ جاتا ہوں مگر میں اس جگہ پر بیٹھ کر تقریب کور کر رہا تھا۔ سٹینڈ پر کیمرہ لگا تھا۔ میں اس جگہ بیٹھا بھی اسی لیے تھاورنہ تو میں بیک بنچز کا آدمی ہوں۔ میری میڈیاٹیم اس دن چھٹی پر تھی۔ میں نے یہ تقریب کور کی اسی روز رات کو سہیل وڑائچ کی سیاسی گفتگو اپ لوڈ کر دی۔ 


میں چونکہ گمنام بلکہ گمشدہ صحافی ہوں۔ بہت سے چہروں اور ناموں سے نا آشنائی ہے۔ اس تقریب میں مجھے بہت سے(نامعلوم نہیں )نا آشناچہرے نظر آئے۔پیر صاحب نے مسئلہ حل کردیا۔تمام شرکاءکے نام بتا دیئے۔ سجاد میر، خالد محمود وی سی پنجاب یونیورسٹی، صوفیہ بیدار، اجمل شاہ دین، عمار چودھری ، حنیف قمر، ضمیر آفاقی، حسین احمد پراچہ، نجم ولی، نعیم مسعود، قیصر شریف، عُزیر احمد، شاہد قادر،حمیرا راشد، زوہیب طیب،محمد کامران ،ڈاکٹر سعید الٰہی ، محمد عثمان ، سلمان عابد ،حامد سعید،سید مشتاق احمد شاہ ،دلاور چدھڑ، قلب حسین، سید علی بخاری، قاضی تمام عبداللہ ، سعادت اعجا ز قریشی ، مفتی محمد رمضان سیالوی، فرخ شہباز وڑائچ ، ڈاکٹر نوید الٰہی،مفتی محمد فہیم ، سید شاہ حسن، ڈاکٹر میاں جاوید اسلم ، عدنان خالد ، اطہر حسن اعوان، سید تنویر حسین شاہ ، سہیل احمد شیخ ، اختر بھٹی،آغرندیم سحر ، صہیب احمد مرغوب ، روخشان میر ،صفدر علی خان ،اشرف سہیل ،ندیم نذر ، نعیم ثاقب ، ، علی انور ، ماجد نظامی ، عطاء الرحمن مرزا ، ڈاکٹر تنویر قاسم نے تقریب کو رونق بخشی۔


شامی صاحب کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔ وہ بیرون ملک تھے۔ تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ ظاہر ہے سالگرہ کی تقریب میں مہمان خاص کی پذیرائی کی باتیں ہی ہوتی ہیں۔ آج کل سیاسی حالات پر بات نہ کرنا ممکن نہیں لہٰذا سیاست پر بھی بات ہوئی مگر کسی کے خلاف کسی نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ سیاسی باتیں ہوئیں جو نفرت سے قطعی مبرا تھیں۔ سہیل وڑائچ صاحب آج کل مفاہمت برداشت اور تحمل کی تجاویز اور رائے دے رہے ہیں۔ انہوں نے صدارتی خطاب میں ایک بار پھر سیاست میں انتقام سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا۔” میری صحافتی زندگی اس بات کی گواہی ہے کہ میں نے کبھی کسی سیاسی جماعت کا لیبل اپنے اوپر نہیں لگنے دیا۔ مجھے بینظیر بھٹو ،میاں نوا زشریف اور تمام دیگر جماعتوں کے قائدین کا قرب ملا لیکن مجھے جیسے ہی خیال آتا ہے کہ میں ایک صحافی ہوںں تو پھر میں اس سیاسی جماعت کے لیڈر کی قربت سے دوری اختیار کر لیتا ہوں۔ نجم ولی کی دلپذیر تجویز تھی۔ انہوں نے کہا کہ آپ جب میاں نواز شریف کی رہائی، ان کے خلاف انتقام کی مخالفت کرتے تھے تو جن لوگوں کو یہ سب بہت اچھا لگتا تھا، آج آپ وہی بات عمران خان کے لیے کہتے ہیں تو اس کی شدید مخالفت کی جاری ہے۔ آپ اُس وقت درست تھے، آج بھی درست ہیں۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ 

نجم ولی خان -مکالمہ
سجاد میر صاحب کی طرف سے اپنے خطاب میں کہا گیا کہ میں چہرہ دیکھ کر شخصیت کو جانچ لیتا ہوں۔ ایک صاحب کی بات جو سب سے زیادہ میرے دل کو لگی۔” صحافت میں بیلنس رکھا جانا ضروری ہے۔ آج بہت سے صحافی بیلنس نہ رکھنے پر آؤٹ ہو گئے“۔ انہوں نے بالکل درست کہا ۔ آپ لکھ رہے ہیں، ٹی وی پر پروگرام کرتے ہیں، کسی وجہ سے انتظامیہ یا ریاست آپ سے خاص لائن سے بیک ہونے کو کہتی ہے تو آپ کے سامنے دو راستے ہیں” مردِ مجاہد“ بن جانا، ”حق کا علم“ بلند کرتے ہوئے ڈٹ جانا۔ اس سے کیا ہو گا۔ آپ گھر یا کہیں اوربیٹھے ہوں گے۔ دوسرا راستہ، میڈیا میں موجود رہیں۔ اپنی بات کافی حد تک کر سکتے ہیں۔بلکہ آپ ہر بات کر سکتے ہیں۔ تلخ سے تلخ اور سخت سے سخت بھی مگر الفاظ کے مناسب چناﺅکیساتھ۔ اجمل نیازی مرحوم میرے نوائے وقت میں ہوتے ہوئے مجید نظامی صاحب سے دو مرتبہ روٹھے اور کالم لکھنا بند کر دیا۔ پہلی بار کئی ماہ بعد دوستوں کے کہنے پر آمادہ ہوئے۔ دوسری مرتبہ انہوں نے کالم نگاری کو خیر باد کہا تو میں نے تیسرے روزفون کر کے ان سے پوچھا۔” نیازی صاحب آج کل آپ کے کالم کہاں چھپتے ہیں؟“۔ ان کا جواب تھا۔” میں لکھتا ہی نہیں تو کہاں اور کیسے چھپیں گے“۔

معروف کالم نگار اور شاعر اجمل نیازی کو سپرد خاک کردیا گیا
” آپ کے خیالات کا اظہار کیسے ہوتا ہے؟“ میرے اس سوال پر انہوں نے کہا کہ نہیں ہوتا۔ ”تو پھر نیازی صاحب آپ کالم لکھا کریں اور گھر کے دروازے پر چسپاں کر دیا کریں“۔ اس پرنیازی صاحب نے قہقہہ لگایا اور کہا”کل سے کالم بھیج دیاکروں گا“۔خبر آتی ہے، فلاں اینکر کو نکال دیا گیا۔ فلاں گرفتار ہوگیا۔ وہ لاپتہ ہوگیا، یہ اغوا ہو گیا۔ اس کی نوبت کیوں آتی ہے؟۔ نہیں آنی چاہیے۔ نہیں آئے گی بس ذرا جذبات پر قابو رکھیں۔ بلے بلے کروانے کی خواہش کو تھپکی دے لیں۔ موقع او ر حالات دیکھ کر مردِ مجاہد بنیں۔