مجید نظامی: مین آف سینچری

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

آخری دنوں میں بھی کمزوری اور نقاہت کے باوجود مجید نظامی صاحب آفس آتے رہے اور نوائے وقت دفتر آنے سے قبل نظریہ پاکستان ٹرسٹ جانا توایک معمول تھا وہ بھی انہوں نے کبھی نہیں چھوڑا۔نظامی صاحب کے دوستوں اور ہم ایڈیٹوریل بورڈ کے ارکان نے متعدد بار درخواست کی کہ نظریہ¿ پاکستان کی مصروفیات کو کم کر دیں۔ آپ کی صحت اس کی اجازت نہیں دیتی۔

بعض دوست تو نظامی صاحب کی گرتی صحت کا سبب اس ٹرسٹ کی گھنٹوں پر محیط میٹنگوں کو قرار دیتے تھے۔نظامی صاحب شاید مروتاً وعدہ تو کر لیتے

لیکن نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے معمولات جاری رکھتے۔ نظامی صاحب نوائے وقت ایڈیٹوریل بورڈ کے چیئرمین تھے،ان کی رحلت کے دنوں سلیم بخاری، سعید آسی، راقم فضل حسین اعوان، غلام نبی بھٹ اور امتیاز تارڑ ممبر تھے۔ ایڈیٹوریل میٹنگ روز کا معمول تھی۔میں 2007 ءسے ایڈیٹوریل بورڈ کا حصہ تھا۔ دن میں کم از کم ایک مرتبہ تو نظامی صاحب سے ملاقات ہوا کرتی تھی۔ کسی کام یا وضاحت کے لئے وہ جب چاہتے طلب کر لیتے۔ ایڈیٹوریل میٹنگ عموماً دس پندرہ منٹ کی ہوتی جس میں اداریہ اور اداراتی نوٹس کے موضوعات طے کئے جاتے۔ عموماً نظامی صاحب، سلیم بخاری کی بریفنگ پر اپنے مختصر کمنٹس کے ساتھ اداریہ، شذرات اوکے کر دیتے۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ میٹنگ کے آغاز پر ہی نظامی صاحب کہہ دیتے کہ فلاں خبر کو ادارئیے کا موضوع بنا لیں۔

Majid Nizami
سابقہ ایڈیٹر دی نیشن سلیم بخاری کی عدم موجودگی میں ڈپٹی ایڈیٹر سعید آسی بریفنگ دیتے ۔ نظامی صاحب کے ساتھ ادارتی میٹنگ ان کے دفتر میں ہوتی تاہم کبھی ایسا بھی ہوتاکہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ جاتے ہوئے دفتر کے سامنے گاڑی رکواکر بریفنگ دیتے اور لے لیتے۔ جلدی میں ہوتے تو گاڑی چلوا لیتے راستے میں گفتگو جاری رہتی اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ سے گاڑی میں واپس بھجوا دیتے۔ چھٹی کے روز سنگل ممبرکے ساتھ گھر میں میٹنگ ہوا کرتی تھی۔
 وقت کی پابندی نظامی صاحب کا شعار رہی۔ کسی تقریب میں کبھی تاخیر سے نہیں پہنچے۔ معاشرے میں تقریب دیئے گئے وقت سے لیٹ شروع کرنا ایک وبا اور بیماری ہے، نظامی صاحب دیئے گئے وقت پر پہنچنے والے پہلے مہمان ہوا کرتے تھے۔ جو میزبان کے لئے شرمندگی کا باعث بھی بن جاتا۔
ہم اُس دور کے ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبران کو مجید نظامی صاحب سے بہت زیادہ قربت کا دعویٰ تو نہیں تاہم ان لوگوں میں ہم ضرور ہیں جن کو نظامی صاحب کی قربت کا اعزاز ضرور حاصل ہے۔ ہم لوگوں نے مجید نظامی صاحب کو ظاہراً باطناً یکساں پایا۔ پاکستان سے ان کی محبت لازوال تھی۔ بانیانِ پاکستان کا دل و جان سے احترام کرتے۔ کشمیر کی آزادی کے لئے ایٹم بم چلا دینے تک کے عزم کا بارہا اعادہ کیا۔ یہ تک بھی کہا کہ ”مجھے بم کے ساتھ باندھ کر بھارت پر گرا دیا جائے“ انتہا درجے کے غریب پرور تھے۔ ایک کالم نگار نے کہا وہ برائے نام معاوضہ لیتے ہیں۔ نظامی صاحب نے مجھے چیف اکاﺅنٹنٹ کے پاس بھیجا کہ پتہ کروں کہ ان صاحب کا معاوضہ کتنا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ ان کو کالم کا معقول معاوضہ تو دیا جاتا ہی ہے اس کے علاوہ ان کے بیٹے کی بیماری کے لئے دس ہزار ماہانہ کے اخراجات 1985 ءبھی شروع کئے گئے تھے جو ہنوز جاری ہیں۔ غریب خواتین اورطلباءطالبات کی امداد کی کئی درخواستیں نظامی صاحب کے پاس آتیں۔ ان کو وہ اکاﺅنٹس کے لئے مارک کرتے جو غلطی سے کبھی ہمارے پاس بھی آ جاتیں جن پر عموماً لکھا ہوتا، تصدیق کے بعد اتنے کا چیک انہیں بھجوا دیا جائے۔ کشمیر اور محصور پاکستانیوں کے لئے مستقل نوائے وقت فنڈ قائم ہے۔
نیوز پیج پر چھپنے والے کالموں کو وہ خود کلیئر کیا کرتے تھے۔ ایڈیٹوریل شعبہ سے جو بھی کالم کلیئرنس کے لئے بھجوایاجاتا اگلے چند منٹ میں واپس آ جاتا۔ ہم سمجھتے کہ شاید سرسری دیکھ کے واپس کر دیا لیکن اس پر بعض اوقات معمولی سی غلطی کی نشاندہی بھی ہوتی تھی۔ نظامی صاحب جیسی ریڈنگ سپیڈ کسی اور کی نہیں دیکھی۔ اپنی شخصیت کی طرح ان کی تحریر بھی نستعلیق تھی۔بذلہ سنجی ان کی طبیعت کا خاصہ تھی۔وہ جتنے خوش گفتار اتنے ہی خوش لباس اور اعتدا ل کے ساتھ خوش خوراک بھی تھے۔راہ چلتے گاڑی رکواتے‘ چائے یا کافی پیتے‘ نان چنے بھی خرید لیتے‘ اس سے اندازہ کرتے کہ ان اشیاءکی قیمتیں عام آدمی کی دسترس میں ہیں۔ مہنگی ہونے پر اگلے روز خبر لگواتے یا ادارتی نوٹ اور سرراہے میں خبر لی جاتی۔
ان کے دل میں کبھی کسی کے بارے میں بغض اور کدورت دیکھنے تک نہیں ملتی۔ اجمل نیازی صاحب نے ایک بار جذباتی ہو کر نظامی صاحب کو زیادہ ہی تلخ اور ترش خط لکھ دیا اور اس کے ساتھ ہی روٹھ کر بیٹھ گئے۔ کچھ عرصہ بعد دوستوں کے اصرار کرنے پر کالم نگاری پر آمادہ ہوئے تو نظامی صاحب نے خوش آمدید کہا۔ توفیق بٹ صاحب کا موڈ بگڑا تو وہ بھی نظامی صاحب کے نام سخت خط لکھ کر نوائے وقت کو الوداع کہہ گئے۔ نظامی صاحب نے ان کو فون کرکے کہا کہ وہ لکھنا چاہیں تو نوائے وقت کے دروازے کھلے ہیں۔ اختر شمار صاحب مرضی سے نوائے وقت سے گئے اور پھر واپس بھی آ گئے ان کی طرف نظامی صاحب نے طنزیہ نہیں بلکہ الفت کی نظر سے دیکھا۔ مجھے نہیں یاد کہ ذاتی حوالے سے میری کسی درخواست نے نظامی صاحب کی طرف سے پذیرائی حاصل نہ کی ہو۔
وہ بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیتے۔نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں سالانہ سمر کیمپ لگایا جاتا۔ماہ نامہ پھول کی اہتمام کیساتھ اشاعت ہوتی۔ ایڈیٹر ”پھول“ محمدشعیب مرزا کی بھرپور حوصلہ افزائی فرماتے۔نظامی صاحب اپنے پاس آنے والے کئی آرٹیکل ”پھول“ کیلئے بھجوایا کرتے تھے۔
نظامی صاحب کی وفات ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ وہ یقیناً لیجنڈ اور جینئس تھے۔ ان کے پائے کا بیدار مغز صحافی، دانشور اور دیدہ ور صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ آج میں جس حیثیت میں بھی ہوں وہ مجید نظامی صاحب کی نظر عنایت کے باعث ہی ہوں۔ انہوں نے عام صحافی سے مجھے کالم نگار بنا دیا۔وقت نیوز پر ہفتہ وار تجزیئے کے لئے بھی نظامی صاحب نے ہدایت کی تھی۔ ان کی 26 جولائی کو نویں برسی ہے۔ اس موقع پر ایک بار پھرلاکھوں دل اورآنکھیں مجید نظامی کی وفات کے سوگ میں اشکبار ہیں۔ اسلام اور پاکستان کی عظیم تر خدمات کے پیش نظر نظامی صاحب کوصحافت کا مین آف سینچری قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔