پی کے 705 کا آخری مسافر بھی رخصت ہوا
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع |
قاہرہ طیارے حادثے میں زندہ بچ جانے والے6مسافروں میں سے آخری مسافر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے سابق جنرل مینیجر پبلک افیئرز صلاح الدین صدیقی 93برس کی عمر میں گزشتہ دنوں 16 اگست 2024 کو انتقال کر گئے۔ صلاح الدین صدیقی جنرل مینیجر پبلک افیئرز کے عہدے سے1980ءمیں پی آئی اے سے ریٹائر ہوئے تھے۔20مئی 1985ءکو پی آئی اے کی قاہرہ سے افتتاحی پرواز پی کے705لینڈنگ سے کچھ پہلے قاہرہ ایئر پورٹ سے20کلو میٹر دور گر کر تباہ ہو گئی تھی۔ اس افتتاحی پرواز کو کراچی سے دہران سعودی عرب، قاہرہ اور پھر وہاں سے لندن جانا تھا۔ پرواز میں مسافروں اور عملے سمیت128مسافر سوار تھے۔ حادثے میں122مسافر اور عملے کے ارکان جاں بحق ہوگئے تھے۔ ان میں پی آئی اے کی معروف ایئر ہوسٹس مومی گل درانی بھی شامل تھیں۔ اس افسوس ناک حادثے میں 22صحافی بھی جاں بحق ہوئے تھے۔ ان میں ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے ایڈمنسٹریٹر اے کے قریشی اور نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئر مین میجر جنرل حیاالدین بھی شامل تھے۔ اس حادثے میں6خوش قسمت مسافر زندہ بچ گئے تھے۔ ان کی پوری زندگی افسردگی میں گزری وہ مکمل طور پر نارمل زندگی کی طرف نہ آسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی کوئی کتاب نہیں لکھی۔ انتقال کر جانے والے پی آئی اے کے سابق جنرل مینیجر صلاح الدین صدیقی اس حادثے میں بچ جانے والے آخری حیات مسافر تھے۔ صلاح الدین صدیقی طویل عرصے سے لندن میں مقیم تھے۔ خاندانی ذرائع کے مطابق صلاح الدین صدیقی کے پسماندگان میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ بچ جانے والوں میں جلال الدین کریمی، عارف رضا، ظہور الحق، صلاح الدین صدیقی، شوکت ملکائی اور امان اللہ خان شامل تھے۔ جاں بحق ہونے والوں میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین جنرل حیاءالدین، اے پی پی کے اے کے قریشی، روزنامہ جنگ کے ناصر محمود، روزنامہ حریت کے جعفر منصور، روزنامہ امروز کے حمید ہاشمی، روزنامہ مشرق کے ابو صالح اصلاحی، بزنس ریکارڈر کے ایم پی خالد، ڈان کے صغیر الدین احمد، مارننگ نیوز کے سبط فاروق آفریدی، لیڈر کے علیم اللہ فلائر کے ممتاز طارق، نوائے وقت کے عرفان چغتائی اور پی پی اے کے شاہ ممتاز سمیت ملک کے 22صحافی شامل تھے۔ اس حادثے میں بد نصیب طیارے کے عملے کے جو افراد موت کی لکیر پار کر گئے اس میں طیارے کا پائلٹ اے اے خان، نیویگیشن آفیسر خالد لودھی، ایئر ہوسٹس پینتھکی اور مومی گل درانی، فلائیٹ اسٹیورڈ،اے جی علوی اور فلائر پرسر مسعود خان شامل تھے۔ زندہ بچ جانے والے مسافروں میں سے کئی کے ساتھ میڈیا سے وابستہ اداروں نے رابطے کئے۔جو اس حادثے میں موت کی وادی میں لوگ اتر گئے تھے ان میں سے بھی کئی کے لواحقین ساتھ بات کی گئی۔
"میں اس واقعے پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ آپ مجھ سے اس واقعے پر بات مت کیجئے، کیونکہ میں اسے یاد نہیں کرنا چاہتا۔ ان باتوں کو یاد ہی نہیں کرنا چاہتا۔ ان سب باتوں کو میں بھول جانا چاہتا ہوں۔" یہ ان 6مسافروں میں سے ایک کا کہنا تھا۔
اس پرواز میں سوار6بندر بھی زندہ بچ گئے تھے۔ جلال الدین کریمی وہ واحد مسافر تھے جو حادثے کے بعد جائے حادثہ پر چل پھر رہے تھے۔ حادثے کے بعد طیارے کے ملبے میں آگ لگی ہوئی تھی اور جلال الدین کریمی زخمی حالت میں بچ جانے والے مسافروں کی تلاش کر رہے تھے چند گھنٹوں بعد جب ہنگامی امداد پہنچی تو انہوں نے زرد رنگ کا رومال ہلا کر مدد کے لیے اشارہ دیا تھا۔
شوکت میکلائی نے اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ صحرا میں ریسکیو ورکرز سے پہلے وہاں پہنچنے والے مقامی بدّو عرب مرے ہوئے لوگوں کی اشیا چوری کرنے پہنچ گئے تھے۔ 26 مئی کی ایک خبر کے مطابق طیارے کے ملبے میں ایک ٹرانسسٹر ریڈیو ملا جس میں قیمتی زیورات تھے جن کی مالیت ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر بتائی گئی۔ اس کے مالک یا مالکہ کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا۔
حادثہ میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد کی میتوں کو قاہرہ میں امام شافعی کے مقبرے کےدفنایا گیا تھا البتہ چند میتوں کے ورثہ شناخت کرنے کے بعد اپنے اپنے ممالک لے گئے تھے۔ قاہرہ میں دفنائے گئے تمام مسلمان نہیں تھے۔ تاہم اجتماعی تدفین مسلمانوں کے طریقے سے کی گئی۔
دو مسافر عبدالوارث اور شفیق اللہ برطانوی شہری تھے، مسٹر ہوورڈ، مسز ہوورڈ اور مس الزیبتھ کی شہریت نامعلوم بتائی گئی۔ مسٹر ہوفمین، مسٹر ٹیری اور مسز ٹیری کی شہریت میں غیر ملکی درج تھا جبکہ ڈیوڈ لو امریکی شہری تھے، سات چینی اور باقی پاکستانی تھے۔
صلاح الدین صدیقی نے بتایا تھا کہ اس افتتاحی پرواز میں مسافروں میں کچھ تو ٹکٹ لے کر سوار ہوئے تھے لیکن زیادہ تر ٹریول ایجنٹس تھے جن کے نام پی آئی اے کے مختلف شعبوں کے مینیجروں نے تجویز کیے تھے۔ ایک پی آئی کے کمرشل ڈائریکٹر تھے، باقی صحافی تھے جن کا انتخاب اخبارات کی انتظامیہ یا مالکان نے کیا تھا۔
کراچی کے ایک فوٹوگرافر اور مصنف و محقق ایس ایم شاہد نے بتایا کہ اس وقت کے کراچی کے ایک بڑے اخبار روزنامہ انجام سے وابستہ صحافی طفیل احمد جمالی کو بھی ریٹائرڈ میجر جنرل حیاءالدین کی جانب سے دعوت ملی ہوئی تھی لیکن جب وہ سوار ہونے کے لیے ایئرپورٹ پہنچے تو پتہ چلا کے اُن کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہو چکی تھی۔ جنرل حیاءالدین اور کئی لوگوں نے کوشش کی کہ وہ کسی بھی طرح سوار ہو جائیں لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا اور بالآخر وہ مایوس ہو کر گھر چلے گئے۔ وہ بہت ناراض تھے۔اگلی صبح اخبار میں دیکھا کہ حادثہ ہو گیا۔ وہ پہلے تو روئے پھر بہت خوش ہوئے۔‘
بدقسمت بوئننگ 720 کی پرواز 705 میں قاہرہ سے ہوتے ہوئے لندن جانے والوں میں ایک اور نام بھی شامل ہو چکا تھا۔ یہ تھے زوار حسن جو اُس وقت مارننگ نیوز میں سینیئر اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر تھے۔ اُس کے ایڈیٹر تھے محسن علی۔
زوار حسن نے بتایا کہ ان کے ’ایڈیٹر محسن علی نے اس پرواز سے چند دن پہلے مجھے بلایا اور کہا کہ پی آئی اے کی قاہرہ کے لیے افتتاحی پرواز روانہ ہو رہی ہے، اس میں ٹریول ایجنٹس اور صحافیوں کو دعوت دی گئی ہے۔ تم سینیئر بھی ہو اور تجربہ بھی رکھتے ہو اس لیے تم اس پرواز میں چلے جاؤ۔ زوار حسن نے بتایا تھا کہ ایڈیٹر کی جانب سے نامزدگی کی اطلاع میں نے نیوز روم میں اپنے ساتھیوں کو دی۔ وہاں میرے ایک سینیئر سبطِ فاروق فریدی بھی موجود تھے ۔قاہرہ کا سُن کر سبطِ بھائی خوش ہوئے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں کچھ تحقیق کر رہا تھا اور مجھے اس کے لیے مصر جانا تھا۔ کاش میں اس پرواز میں قاہرہ جاتا اور اپنا کام بھی کر لیتا۔ میں کچھ دیر بعد ایڈیٹر کے پاس گیا اور کہا کہ آپ میری جگہ سبطِ بھائی کو بھیج دیجیے۔ میں سینیئر صحافی کے حق میں دستبردار ہو گیا اور سبط بھائی موت کے سفر پر روانہ ہو گئے۔
مصری حکام کا کہنا تھاکہ بوئنگ حادثے کے وقت قاہرہ ایئرپورٹ کے کنٹرول ٹاور سے رابطے میں تھا۔ طیارے کے کیپٹن نے اس وقت خرابی کی اطلاع دی تھی جب طیارہ لینڈنگ کے قریب پہنچ چکا تھا۔کنٹرول ٹاور نے فوری طور پر ایئرپورٹ عملے کو رن وے پر کھڑے ہونے کے لیے روانہ کر دیا تھا۔ اُسی وقت چند سیکنڈز کے بعد ہی یہ حادثہ پیش آیا اور صحرا اچانک شعلوں کی لپیٹ میں آگیا۔ ہم واقعی یہ دیکھنے سے قاصر تھے کہ کیا ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ آگ کے شعلے کم ہوئے اور فضا پر خاموش طاری ہو گئی۔
آخری لمحات کے بارے میں شوکت میکلائی نے اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ عملے نے اپنے ہیٹس پہن رکھے تھے اور وہ اپنے کیبن کا سامان جمع کر چکے تھے۔ جب طیارہ رن وے 34 کی جانب لینڈنگ کے لیے اتر رہا تھا وہ قاہرہ ایئرپورٹ کے آس پاس ایک دائرے میں چکر لگا رہا تھا اور اس وقت وہ گر کر تباہ ہوا۔بس اُسی لمحے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ جب میں نے دوبارہ آنکھیں کھولیں تو مجھے یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ بجائے اس کے کہ مدد کے لیے پکاروں، میں چیختے ہوئے اپنا نام لے کر شوکت! شوکت! پکار رہا تھا۔ ایک اور مسافر، ایک نوجوان جس کے سر سے خون بہہ رہا تھا، وہ میری جان بچانے کے لیے پہنچا۔وہ بری طرح زخمی تھا لیکن اس نے مجھے ملبے سے نکال لیا۔ ہمارے چاروں طرف لاشیں اور سامان پڑا تھا۔ میں نے ان میں اپنی بیوی کی بے جان لاش دیکھی۔میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا لیکن میں ساکت رہا۔ ابھی بھی صدمے کی حالت میں، میری زندگی کی ایک فلم میرے ذہن میں گزری۔ میرے بچپن سے اب تک کی زندگی، میں نے جو کچھ دیکھا تھا اور کیا تھا اور وہ چیزیں، جو میں نے بعد میں کرنا تھیں، وہ سب ذہن میں ایک لمحے کے لیے آئیں۔یہ سوچ کر کہ میری زندگی جلد ہی ختم ہو جائے گی میں نے خدا کے بارے میں سوچا اور کہا کہ اگر اس نے مجھے زندگی گزارنے کا ایک اور موقع فراہم کیا تو میں آنے والے دن کا انتظار کیے بغیر ہر کام اسی وقت کروں گا اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کم خوش قسمت لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کروں گا۔
ہلاک ہونے والوں میں چار ایئر ہوسٹسیں بھی تھیں جنھیں اس پرواز کی اہمیت کے لحاظ سے خاص طور پر مہمانوں کی خدمت کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ ان میں ایک ایئر ہوسٹس مومی گل درانی تھیں جو ایک دہائی سے اپنی پُرکشش شخصیت اور حُسن کی وجہ سے پی آئی اے کی شناخت بن گئی تھیں۔مومی گل درانی نہ صرف پاکستان کی قومی ایئرلائن کی ایک شناخت تھیں بلکہ ایوی ایشن وائس کی ویب سائٹ کے مطابق وہ پیشہ ورانہ خدمات کی وجہ سے دنیا کی دس بہترین ایئر ہوسٹیسز میں بھی شمار ہوتی تھیں۔مومنہ گل درانی جنھیں ان کے دوست پیار سے مومی گل بھی کہتے تھے، پاکستان کے معروف موسیقار، سہیل رانا کی بیگم قندیل گل کی بہن تھیں۔اس پرواز کے عملے میں وہ شامل نہیں تھیں۔ انھیں عموماً خاص خاص پروازوں میں شامل کیا جاتا تھا۔ لیکن طیارے کے عملے کی ایک ایئر ہوسٹس کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اور ان کی جگہ مومنہ کو جانا پڑا۔
پاکستان کی تاریخ میں طیارے کے حادثے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا لیکن یہ پہلی افتتاحی پرواز تھی جس کے ذریعے چین کو مشرقِ وُسطیٰ سے ملایا جا رہا تھا۔ طیارے میں کئی چینی مسافر بھی سوار تھے۔ پی آئی اے کی اس افتتاحی پرواز کا چین کو مشرق وُسطیٰ سے ملانے کی پالیسی یا ایسے کسی اعلان کے بارے میں پی آئی اے کے حکام کو کوئی علم نہیں تھا
موت سے ہمکنارہونے والے مسافروں میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے 22 صحافی، ٹریول ایجنٹس، اور معتبر کاروباری شخصیات اور چند ایک سرکاری افسران شامل تھے۔ اس کے علاوہ برطانوی، لبنانی جرمن اور چینی شہری بھی سفر کر رہے تھے۔ان میں سب سے اہم چینی مسافر پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے لڑاکا طیارے کے چیف ڈیزائنر بھی شامل تھے۔
بوئنگ 720 کو پرواز کرتے ہوئے ابھی تین برس بھی پورے نہیں ہوئے تھے۔ اس لحاظ اسے ایک نیا طیارہ کہا جا سکتا تھا۔ قاہرہ ایئرپورٹ پر طوفان کی بھی تصدیق نہیں ملتی ، اسی لیے ماہرین کی نظر میں اس حادثے کے دو امکانات زیادہ واضح نظر آتے ہیں:
پی آئی اے کے بوئنگ 720 کے حادثے کی تحقیقات کے لیے مصری حکومت نے ایک اعلیٰ اختیارتی کمیٹی مقرر کی تھی۔ اس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اس پرواز کا فلائیٹ ریکارڈر محفوظ حالت میں مل گیا تھا۔ بعد میں پی آئی اے کے مینیجنگ ڈائریکٹر ایئر وائس مارشل نور خان نے اس بارے پاکستانی صحافیوں کو آگاہ کیا تھا۔ نور خان نے کا کہنا تھا کہ طیارہ کے ڈھانچہ سے ملنے والے فلائیٹ ریکارڈر بالکل کار آمد تھے اور اس کے نتائج کی انھوں نے ماہرین کے ساتھ آزمائش کی تھی۔ نور خان 26 مئی کو ایک آزمائشی پرواز میں قاہرہ گئے تھے۔جب تمام مسافر اتر گئے تو ایک تجزیاتی پرواز کی گئی جس میں طیارے کو اسی طریقے سے اتارا گیا جس طرح پی آئی اے کا بدقسمت بوئنگ اتارا جانا تھا۔ ایئر وائس مارشل اس پرواز کے لیے طیارے میں سوار تھے تاہم انھوں نے ابتدائی تحقیقی سطح پر مزید بتانے سے گریز کیا تھا۔تاہم انہوں نے اعلان کیا تھا کہ فلائیٹ ریکارڈر کو واشنگٹن مزید تحقیق کے لیے بھیجا گیا تھا کیونکہ کچھ معلومات سمجھی نہیں جاسکی تھیں۔ یہ کہنے کے بعد انھوں بتایا کہ ‘پائلٹ نے اترنے کے لیے معمول کے طریق کار اختیار کیا جب طیارہ پندرہ سو فٹ کی بلندی پر تھا اور پھر نہ معلوم کیوں نیچے آیا۔