چودھری ظہور الہیٰ کا قتل اور مجرم کو سزا
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع |
ماہِ ستمبر کے آخری ہفتے کی بات کریں تو پاکستان اور بھارت 65ءکی جنگ میں اپنا اپنا اسلحہ پھونکنے کے بعد سود و زیاں کا حساب کر رہے تھے۔ بعد میں جا کر جنوری 1966ءمیں معاہدہ تاشقند ہوا جو صدر ایوب خان کا اقتدار اور وزیر اعظم شاستری کی جان لے گیا۔ ستمبر کے آخری ہفتے چوہدری ظہور الٰہی کو دہشتگردی میں شہید کر دیا گیا تھا۔آج اس پر بات کرتے ہیں۔ معاہدہ تاشقند پھر سہی۔
چوہدری ظہور الٰہی 25 ستمبر 1981ء کو اپنی کار میں لاہورہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کو ان کے گھر چھوڑنے جارہے تھے۔مشتاق صاحب کی داڑھی نہیں تھی لیکن وہ مولوی کہلواتے تھے ۔ان کے ساتھ معروف ماہر قانون ایم اے رحمن ایڈووکیٹ بھی تھے جو بھٹو کے مقدمہ قتل میں پبلک پراسیکیوٹر رہے تھے۔ دن دو بجے جب انکی کار ماڈل ٹاؤن نرسری چوک پہنچی تو ایک نوجوان نے مبینہ طور پر دستی بم پھینکا۔ اسکے چار ساتھیوں نے اسٹین گنوں سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ جس سے چوہدری صاحب اور ان کے ڈرائیور نسیم موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ جسٹس مشتاق حسین کو معمولی زخم آئے جبکہ ایم اے رحمن محفوظ رہے۔
ایک موقع پر اس قتل کی ذمہ داری میر مرتضیٰ بھٹو نے قبول کرلی اور کہا تھاکہ یہ ان کی تنظیم الذوالفقار کا کارنامہ ہے۔
کچھ ہی دنوں بعد 20 نومبر 1981ء کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی میں لالہ اسد نامی نوجوان کو ہلاک کیا جس پر الزام تھا کہ وہ چوہدری ظہور الٰہی کے قاتلوں میں شامل تھا۔ اس کے بعد الذوالفقار کے کارکنوں کو بھی گرفتار کیا گیا جن میں رزاق جھرنا بھی تھا۔اسے 7مئی 1983ء کو موت کی سزا دے دی گئی۔اس کی گرفتاری بڑے ڈرامائی انداز میں ہوئی۔
ڈاکٹر غضنفر حفیظ احمد اُن دنوں کیمپ جیل میں میڈیکل افسر تھے۔وہ کہتے ہیں پتہ چلا کہ چودھری ظہور الٰہی کا قاتل جیل میں لایا گیا ہے۔ مَیں اس کے سیل میں گیا اور پوچھا کہ کیا یہ الزام درست ہے تو اس نے اثبات میں جواب دیا۔ وہ اُس وقت پُراعتماد اور پُرسکون نظر آ رہا تھا۔اس نے اپنا نام رزاق جھرنا بتایا۔کچھ عرصے بعد اس کی شناخت پریڈ ہوئی۔ شناخت پریڈ والے دن سول جج میاں خالد جو مولوی مشتاق کے پی ایس رہ چکے تھے اور اُن دنوں 302 کے کیس میں جیل میں تھے۔ وہ میرے دوست بنے ہوئے تھے۔انہوں نے بتایا کہ چودھری ظہور الٰہی قتل کیس کے ملزم کی شناخت پریڈ ہو رہی ہے اور قاتل نے دعویٰ کیا ہے کہ دیکھوں گا کون ماں کا لال میری شناخت کرتا ہے۔ مولوی مشتاق نے تو شناخت سے صاف انکار کر دیا ۔ایڈووکیٹ رحمنٰ نے تمام سہولیات کے باوجود ڈر کے مارے شناخت نہ کی۔ موقع کے دو ہی گواہ تھے۔ دونوں منحرف ہو گئے۔ فوجی عدالت نے جھرنا کو سزائے موت دی اور پھانسی دے دی گئی۔پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی رزاق جھرنا کی باقاعدگی سے برسی کی تقریب منعقد کرتی ہے۔
رزاق جھرنا کس طرح ٹریس اور گرفتار ہوا؟ یہ واقعہ بھی دلچسپ ہے: اس نے اپنے نو عمر دوست کو بریف کیس دیا کہ وہ اس کی بہن کے گھر کراچی پہنچا دے۔ اسے کچھ اندازہ تھا کہ رزاق جھرنا کی حرکات مشکوک ہیں لہذٰا اُس نے انکار کر دیا۔ رزاق کے دھمکی دینے پر وہ مان گیا اور ٹرین پر سوار ہو گیا۔ جب صبح کے وقت ساہیوال سٹیشن پہنچا تو اخبار میں خبر پڑھی کہ چودھری ظہور الٰہی قتل کر دیئے گئےہیں۔اس کو یقین ہو گیا کہ یہ کارروائی رزاق کی ہے۔ وہ ساہیوال سے لاہور واپس آ گیا۔ اس نے اب سوچا کہ بریف کیس کا کیا کِیا جائےتو اس نے ایک گندے نالے میں پھینک دیا جو نالے کے کیچڑ میں گر گیا۔اسے دیکھ کرکسی نے پولیس کو اطلاع کر دی۔پولیس والے بریف کیس کو اٹھا کر تھانے لے گئے۔اسے کھولنے پر ایک اس میں سے کلاشنکوف اور کچھ وزیٹنگ کارڈ برآمد ہوئے۔ جن سے تفتیش کے دوران وہ رزاق تک پہنچے اور اسے گرفتار کر لیا۔
بلٹ پروف گاڑی میں سوار ہونے کے باوجود چودھری ظہور الٰہی پر قاتلانہ حملہ کرنے میں ملزم کس طرح کامیاب ہوا؟ رزاق نے اپنے دوستوں کو بتایاکہ اس نے گاڑی پر برسٹ مارا لیکن اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ڈرائیور نے گھبرا کر شیشہ نیچے کر دیا اور جھانکا کہ کیا ہوا ہے۔ رزاق نے ایک گرنیڈ یہیں سے گاڑی کے اندر پھینک دیا۔
چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب سچ تو یہ ہے میں اس واقعے کا بھی ذکر کرتے ہیں:میرے والد صاحب پر حملہ کرنے والے شخص رزاق عرف جھرنا کو بعد میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے اعتراف کر لیا کہ اس کا تعلق دہشت گرد تنظیم ’الذوالفقار‘ سے ہے اور اس کی تربیت کابل میں ہوئی ہے۔ میری والدہ نے کہا کہ پتا تو کریں کہ پولیس نے واقعی اصلی قاتل کو گرفتار کیا ہے یا خانہ پری کے لیے کسی بے گناہ کو پکڑ لیا ہے۔ بی بی جی کے حکم پر چودھری پرویز الٰہی،وسیم سجاد کے بھائی آصف سجاد جان، راجہ منور اور ایم اے الرحمن ایڈووکیٹ کے ہمراہ خود تھانے پہنچے ، اس نوجوان سے ملے اور پوچھا کہ اگر تم قاتل نہیں ہو تو بتا دو، ہم تمہیں رہا کروا دیں گے۔ نوجوان بڑے اعتماد کے ساتھ بولا، میں نے اپنا کام کر دیا ہے مگر مجھے پھانسی نہیں ہوگی۔ میرے لوگ مجھے رہا کروا لیں گے۔ چوہدری شجاعت کہتے ہیں کہ میرے والد اس روز ڈرائیور کے ساتھ اگلی نشست پر بیٹھے تھے حالانکہ وہ ہمیشہ اپنی گاڑی مرسڈیز میں پچھلی نشست پر بیٹھا کرتے تھے۔ وہ اپنے قریبی دوست انٹر ہوم کے مالک امین صاحب کے گھر سے ماڈل ٹاؤن کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ جسٹس مولوی مشتاق حسین اور ایم اے رحمن ایڈووکیٹ ان کے ہمراہ تھے۔ وہ مولوی مشتاق حسین کو ڈراپ کرنے کے لیے ان کے گھر جا رہے تھے۔ احتراماً ان دونوں حضرات کو پچھلی نشست (ایگزیکٹو سیٹ)پر بٹھا کر خود آگے بیٹھ گئے۔
الذوالفقار کی نشانے پر بادی النظر میں دونوں شخصیات تھیں۔ مولوی مشتاق اور چوہدری ظہور الہی۔مولوی مشتاق اس بینچ کے سربراہ تھے جس نے بنیادی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی تھی۔یہ کیس مولوی مشتاق نے لوئر کورٹ میں نہیں چلنے دیا تھا۔ الذوالفقار چوہدری ظہور الہیٰ کے پیچھے شاید اس لیے بھی پڑی تھی کہ انہوں نے جنرل ضیاء الحق سے وہ قلم تحفے میں مانگا تھا جس سے جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حکم نامے پر دستخط کیے تھے۔