ہمارے لیے مر گئی : اور بی آئی یو سکینڈل

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

”وہ ہماری بیٹی تھی مگر اب ہمارے لیے مر گئی ہے“۔ یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جس کی بیٹی نے پاکستان بھارت کی سیما قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے عبور کی۔ انجو22جولائی کو واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان آئی۔ اس کی دِیر کے نوجوان نصراللہ سے فیس بک پر دوستی ہوئی تھی۔ گوآ بہارانڈیا کی انجو دیر پہنچی۔ اس کی طرف سے شروع میں کہا گیا کہ وہ ایک دو روز میں واپس چلی جائے گی۔ پھر خبر آئی اس نے اسلام قبول کر کے نصر اللہ سے نکاح کر لیا ہے۔ انجو کا نام فاطمہ رکھا گیا ۔ اس کے باپ گایا پرساد تھامس

کا کہنا ہے ۔میں بھارتی حکومت سے انجو کو پاکستان سے واپس لانے کی اپیل نہیں کروں گا۔ میں تو کہوں گا اسے ادھر ہی مرنے دیں۔ اس کی بیٹی کی عمر 13سال اور بیٹے کی عمر 5سال ہے۔ اس نے اپنے بچوں اور شوہر کا مستقبل برباد کر دیا۔ اس نے یہی کرنا تھا تو پہلے شوہر سے طلاق لیتی۔“ اس لڑکی کے پہلے شوہر اروند کمار کو اب بھی امید ہے کہ وہ واپس اس کے پاس آ جائے گی۔اروند کمار مذہباً مسیحی ہے۔کل کی انجو نے عیسائیت چھوڑ کر مسلمان ہوئی۔ 

انڈیا سے آئی انجو کا نیا نام اب فاطمہ، اپنے دوست نصراللہ سے نکاح | Urdu  News – اردو نیوز
آج کی فاطمہ اپنے بچوں کو وہیں چھوڑ آئی جبکہ اس کی طرح ایک لڑکی پاکستان سے بھی بھارت گئی۔ اس کا نام سیما ہے۔ اس کے چار بچے ہیں۔ سیما کا خاوندغلام حیدر سعودی عرب میں مقیم ہے۔سیما کی بھارت میں فیس بک کے ذریعے سچن سنگھ سے دوستی ہوئی۔ پب جی گیم کھیلتے ہوئے ان کے مابین فاصلے سمٹتے چلے گئے۔ سعودی عرب سے آنے والے پیسے کی بہتات تھی۔ اس خودمختار لڑکی نے اپنا گھر بھی بیچا۔یہ کراچی سے دبئی گئی۔ وہاں سے نیپال جا پہنچی۔ سچن سنگھ بھی وہیں آ گیا۔ جہاں دونوں نے 13مارچ کو شادی کر لی۔ نیپال سے شادی اور مسلمان سے ہندو ہو نے کے بعد سیماکراچی واپس آئی۔ تینوں بیٹیوں اور بیٹے کا پاسپورٹ بنوایا۔ پھردبئی گئی وہاں سے نیپال ، آگے بس میں دہلی اور پھر13مئی کو نووائیڈا سچن کے پاس پہنچ گئی۔ اس کے بچوں کی عمریں 2سے8سال کے درمیان ہیں۔ سیما نے حیدر کے ساتھ بھی مرضی کی شادی کی تھی۔ سیما کا آبائی تعلق سندھ کے ضلع خیر پور کے گاؤں رندہا جانو سے ہے۔ وہ گاؤں کی ماڈرن لڑکی تھی۔ جسے اداکاری کا شوق تھا۔وہ گاؤں میں جس لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی وہ نہ ہو سکی تو گاؤں چھوڑ گئی۔ اس کی جیکب آباد کے غلام حیدر سے ملاقات ہوئی۔ یہ اس کی دوسری محبت تھی۔ یہ اپنے والدین کے لیے اسی روز مر گئی تھی جب گاؤں میں موبائل فون استعمال کرنے والی اس واحد لڑکی نے گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھا۔ اب سسرال والے بھی اس پر انا للہ پڑھ رہے ہیں۔ ان کا تعلق گاؤں لال جکھرانی جیکب سے ہے۔

سیما حیدر 'غیر قانونی مہاجر' قرار، بڑی مشکل میں پھنس گئیں | Daily Mumtaz
ہمارے اپنے گاؤں کی ایف اے کی طالبہ نے موبائل کے ذریعے پروان چڑھنے والی دوستی کی بنا پر والدین کو چھوڑ کر اپنی دنیا بسا لی۔ اس کے والدین نے لڑکی کے اغوا کا کیس درج کرایا۔ یہ کیس لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس سرفرازڈوگر کی عدالت میں لگا۔لڑکی وہاں لائی گئی اس نے بیان دیا کہ وہ بالغ ہے اور مرضی کی شادی کر چکی ہے۔ جج صاحب نے والدین سے دس منٹ کی ملاقات کا کہا تو لڑکی نے بپھرتے ہوئے جواب دیا ،آپ کیوں کہہ رہے ہیں۔ میں نے نہیں ملنا مجھے ان سے خطرہ ہے۔ والدین بیٹی کی لغزش معاف کرنے پر تیار ہیں مگر لڑکی ملنے اور ماننے پر آمادہ نہیں۔ جج صاحب کی طرف سے قانون کے مطابق لڑکی کو اس کی مرضی کے خاوند کے ساتھ جانے کا فیصلہ سنانا پڑا۔
اس روز میں جسٹس سرفراز ڈوگر کی عدالت کے نیچے چیف جسٹس امیر بھٹی کی عدالت میں عمران ریاض خان بازیابی کیس کی سماعت کی کوریج کیلئے موجود تھا۔اس کیس سے پہلے چند دوسرے کیسز تھے۔ ان میں ایک لڑکے کے وکلاءکہہ رہے تھے لڑکے کو ان لوگوں سے خطرہ ہے،جن کی بیٹی سے اس نے کورٹ میرج کی ہے۔ چیف جسٹس نے برہمی سے یہ کہتے ہوئے درخواست مسترد کر دی۔ ” والدین بچیوں کی پرورش اس لیے نہیں کرتے کہ کوئی ان کو ورغلا کرلے جائے اورشادی کر لے۔ جاؤ لڑکی کے والدین سے بات کرو۔
 ہمارے گاؤں کی وہ مذکورہ لڑکی تو والدین کے لیے نہیں مری مگر وہ اس کے غم میں مر رہے ہیں۔ شاید اسی لئے کسی دور میں لوگ بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتے تھے۔ کچھ تو اب بھی بیٹیوں کے پیدا نہ ہونے کی دعا کرتے ہیں۔
ادھر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں جو کچھ ہواجو تفصیلات سامنے آرہے ہیںوہ کوئی تعجب خیز نہیں یہ معاشرے کا آئینہ ہے۔مگر اس میں مبالغہ آرائی کی بھی حد کردی گئی ہے۔ڈی پی او کے مطابق پولیس منشیات کے خلاف آپریشن کررہی تھی۔

بہاولپور یونیورسٹی اسکینڈل کی تحقیقات کیلیے کمیٹی قائم، وی سی کے وارنٹ کی  ہدایت - ایکسپریس اردو

یونیورسٹی میں منشیات میں ملوث طلبا کی تعداد 113بتائی گئی ہے۔چیف سیکیورٹی افسر میجر اعجاز شاہ کی ناکے پر گاڑی روک کر تلاشی لی گئی۔ ان سے پانچ گرام آئس برآمد ہوئی۔یہ ۵گرام انہوں نے خود پینی تھی یا سمگل کرنی تھی؟۔ان سے کچھ ادویات ملیں،ایک لڑکی ساتھ بیٹھی تھی۔سب ایف آئی آر میں درج ہے۔اس کے بعد ان کے موبائل سے ساڑھے پانچ ہزار قابل اعتراض ویڈیوز موجود ہونے کی خبریں سامنے آئیں۔قبل ازیں پروفیسر ابو بکر کوحراست میں لیا گیاتھا۔ ان کے موبائل میں سات ہزار دو سو ویڈیوز کی موجودگی کا ذکر تھا۔جس طرح کی باتیں ہورہی ہیں اس سے درسگاہوں کے تقدس کی پامالی میں کوئی کسر نہیں رہ گئی۔سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا ناممکن ہوچکا ہے۔کچھ "دانشور"ہر طالبہ کا کردار مشکوک بنانے پر تلے ہیں۔ان کو ہر طالب علم نشئی منشیا ت فروش نظر آتا ہے۔چپڑاسی سے گارڈ ز سمیت وی سے تک ہر ملازم کو جنسی بھیڑیا قرار دینے کی مہم چل رہی ہے۔یونیورسٹی میں خرافات اور خرابات سے انکار ممکن نہیں۔منشیات بھی چلتی ہونگی۔کچھ طالبات کو استعمال کیا جانا کچھ کا بلیک میل ہوکر یا مرضی سے استعمال ہونا بعید از قیاس نہیں۔مگر اس میں کتنے لوگ ملوث ہونگے؟؟؟
 یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کی تعداد پینسھ ہزار ہے۔ ان میں سے ایک سو تیرہ منشیات میں ملوث ہیں۔یہ تعداد ایک فیصد بھی نہیں بنتی۔یہی نسبت یا اس سے کچھ زیادہ دیگر جرائم کی ہوسکتی ہے۔ایسے معاملات دو فیصد لوگ ملوث ہوں توبھی تعداد تیرہ سو بنتی ہے۔لڑکیوں کو بلیک میل کرنے والے کتنے ہوںگے؟ سارے کے سارے تو نہیں ہو سکتے۔جتنے بھی ہیں وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ان کو عبرت بناکر ہی ایسے واقعات کے اعادہ کو روکا جاسکتا ہے۔اس ساتھ انتظامیہ بھی جاگے۔یونیورسٹی اور وابستگان کو گالی نہ بننے دے۔ 

اسلام آباد: منشیات کے استعمال پر 5 طلبہ کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا
 اس معاملے کو اچھالنے کے پیچھے چہروں کو بھی بے نقاب کرنا لازم ہے۔یہ اس لئے بھی ناگزیر ہے کہ ۹۹ فیصد بلکہ اس بھی زیادہ اپنے کام سے کام اور تعلیم پر توجہ مرکوزرکھنے والی بچیاں احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔مافیازنے ایسا تاثر قائم کردیا کہ درسگاہ سے وابستہ لوگ منہ چھپانے پر مجبورہیں۔ وزرا ءکے بھی سکینڈل میں نام آرہے ہیں۔یہ معاملہ اعلی سطح کی تحقیقات کا متقاضی ہے۔