نامور مسلمان پہلوان کا ایک بار جنگل سے گزرتے ہوئے ایک خوفناک درندے سے مقابلہ ہو گیا ۔۔۔ پھر کیا واقعہ پیش آیا ؟ جان کر آپ کو معلوم ہو گا ہمت ، حوصلہ اور بہادری کس چڑیا کا نام ہے

2018 ,نومبر 14



لاہور (ویب ڈیسک)حویلی کے گرد ایک بہت بڑی اور مضبوط فصیل کھڑی تھی۔ عزیز پہلوان ریاضت کی غرض سے رات کے پچھلے پہر اٹھ کر فصیل کی جانب چلا جاتا تھا۔وہ ایک چاندنی رات تھی۔ ہوا میں خنکی کا احساس نمایاں تھا۔ حویلی کے باغ میں فصیل کے ساتھ کیاریوں میں

کھلے پھول اور چھوٹے پودے چاندنی کی دودھیا روشنی میں نہا رہے تھے اور ہلکی ہوا سے جھول رہے تھے۔ عزیز بخش پہلوان حسب معمول ریاضت کے لیے اٹھا۔ لنگوٹ کسا اور فصیل کی جانب بنے اکھاڑے میں چلا گیا۔ عزیز بخش پہلوان نے ابھی اکھاڑے میں قدم رکھے ہی تھے کہ معاً نگاہ فصیل کی بلندی پر گئی اس کی آنکھیں ایک عجیب منظر دیکھ کر کھلی رہ گئیں۔ عزیز بخش ایک دلیر انسان تھا۔ وہ اس ہیبت ناک اور مکروہ شکل کے بھیڑیا نما دردنے کو فصیل پر بیٹھے دیکھ کر ذرا بھی نہ گھبرایا بلکہ بے خوفی سے آگے بڑھ کر اسے ششکارا۔

’’چل دفع! تو کہاں سے آگیا منحوس۔‘‘جواب میں ایک مکروہ قہقہہ گونجا۔پہلوان جی، منحوس کون ہے یہ وقت بتائے گا۔‘‘ عزیز بخش نے حیرانی کے عالم میں گھوم کر چاروں طرف دیکھا کہ یہ آواز کہاں سے آئی ہے۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ فصیل پر بیٹھا درندہ ان کی پھٹکار کا جواب دے رہا تھا۔

درندہ پہلوان کی حیرانی و استعجاب سے محفوظ ہوا پھر گرجدار آواز میں بولا۔’’پہلوان جی! ادھر دیکھئے میں فصیل پر بیٹھا ہوں۔‘‘عزیز بخش نے درندے کی جانب دیکھا۔

’’تمہیں اپنی پہلوانی پر بڑا مان ہے عزیز بخشے۔‘‘ درندہ نخوت سے بولا اور غراتے ہوئے کہا۔ ’’میں تمہیں ایسا سبق سکھاؤں گا کہ یاد رکھو گے۔ میری شکتی تیرا سارا مان توڑ دے گی۔ تجھے سب نے کہا اس حویلی میں نہ ڈیرہ لگانا نہ اکھاڑہ کھودنا پر تو باز نہ آیا۔ اب بھگتنا۔۔۔‘‘

عزیز بخش کو یقین ہوگیا کہ یہ درندہ نہیں کوئی بھوت ہے۔ کسی مافوق الفطرت طاقت سے ٹکرانا آسان نہیں تھا۔ کہی سنی باتوں پرکون یقین کرتا ہے

لیکن جب اپنے ساتھ ایسا حادثہ پیش آئے تب پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ عزیز بخش کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کوئی انسان چاہے طاقت میں جتنا بھی زیادہ ہوتا، وہ قطعی مرعوب نہ ہوتا مگر اب واسطہ ایک جناتی قوت سے تھا۔ اسکا رنگ زرد ہوگیا تھا۔ اس کے باوجود اس نے اپنی تمام توانائیاں اکٹھی کیں اور درندے سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’تو کون ہے بتا کیا چاہتا ہے؟‘‘میں کیا چاہتا ہوں۔‘‘ ایک مکارانہ ہنسی گونجی۔ ’’اچھا تو یہ بتا اپنے گامے کی زندگی چاہتا ہے یا اپنی؟‘‘عزیز بخش کو گامے کی زندگی اپنی جاں سے بھی عزیز تھی۔ یہ سنتے ہی وہ غصب ناک ہوگیا۔اے منحوس سن! اگر تو نے میرے گامے کو کچھ کہا تو تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘

’’ہونہہ زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ دردنہ تمسخرانہ لہجہ میں غرایا۔‘‘ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ!‘‘

’’میں تیری نسل ختم کر دوں گا۔‘‘ عزیز بخش غصہ میں بھرا اکھاڑے کو عبور کرکے فصیل کی طرف بڑھا۔

درندے نے ایک بار پھر مکروہ اور جان لیوا قہقہہ لگایا۔ ’’اچھا تو تجھے گامے کی زندگی عزیز ہے۔ ٹھیک ہے۔ فیصلہ ہوگیا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے درندے کا جسم کھلنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا قد اتنا بڑھا کہ فصیل اس کے نیچے چھپ گئی۔ دوسرے ہی لمحے وہ اپنی خباثتوں سمیت غائب ہوگیا۔

عزیز بخش کی ساری توانائی اور غصہ کافور ہوگیا۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے اپنی گھر میں جانے کی بجائے ملازم کی کوٹھڑی میں جا گھسا اور بستر پر گر کر سویا رہا۔ اگلی صبح ملازم نے دیکھا کہ عزیز بخش ایک دائمی مریض کی طرح بستر سے چپکا ہوا ہے۔ اس کے سرخ و سپید چہرے کی لالیاں ختم ہو چکی ہیں۔ خون نچڑ چکا ہے اور پہلوان جاں بلب ہے۔

وہ دوڑتا ہوا گھر میں گیا اور مالکہ (عزیز بخش کی بیگم) کو خبر دی۔

بیگم دوڑ کر آئی اور اپنے شاہ زور خاوند کی حالت دیکھ کر دھک رہ گئی۔ تھوڑی دیر بعد عزیز رشتہ دار اکٹھے ہوگئے۔ حکیموں، ڈاکٹروں کو بلایا گیا۔ تعویذ دھاگے کرنے والے آگئے مگر کسی کے پاس عزیز بخش کے مرض کا علاج نہ تھا۔ اسکا جسم رفتہ رفتہ نیلا پڑنے لگا تھا۔ حالانکہ بظاہر کوئی چوٹ تھی نہ کوئی زخم مگر سارا جسم زخم زخم لگ رہاتھا۔جب سب دوائیں اور دعائیں بے اثر نظر آئیں تو گھر والوں کے دل بیٹھ گئے۔ وسوسے جنم لینے لگے اور ایک جان لیوا لمحہ کسی بڑے حادثے کی تیاری کرنے لگا۔ عزیز بخش پہلوان نے سوگوارنظروں سے اپنی بیگم، عزیزوں، دوستوں کو دیکھا جو سب اس کے گرد جمع ہو چکے تھے۔ اس کی مضطرب نگاہیں کبھی اپنی بیگم پر ٹک جاتیں تو کبھی گامے پر۔ اس کی بے کل آنکھوں کا مدعا ہر کوئی جان رہا تھا۔ اس کی حیات کے آخری لمحے موت کی وادی کی حدود کو چھو رہے تھے۔ جب اس نے حسرت ناک نگاہوں نے اپنے سسر امیر بخش (نون پہلوان) کو دیکھا۔ وہ اپنے جواں سال داماد کی نظروں کی تاب نہ لاسکا۔ ادھر اسکا سرجھکا اور ادھر عزیز بخش نے زندگی سے بازی ہار کرگردن جھکا لی۔ سب کے کلیجے پھٹ گئے۔ آہ و بکا کا طوفان اٹھا اور آناً فاناً ریاست دتیہ میں عزیز بخش کی موت کی خبر سے سوگواری پھیل گئی۔

راجہ بھوانی سنگھ نے اپنے شاہ زور اور چہیتے پہلوان کی موت کی خبر سنی تو سر عام زار و قطار رو دیا۔ عزیز بخش کی موت کا صدمہ اس راجپوت حکمران کی انا کا بت پاش پا کر گیا تھا وہ اپنے خاندانی وقار کو

بھلا کر ایک غم خوار دوست بن کر اپنے عزیز پہلوان کی موت پر روتا رہا۔ عزیز بخش پہلوان کی موت کے غم میں دس دن تک ریاست کے سارے اکھاڑے بند رہے۔ محفل نشاط اور تقریبات ملتوی کر دی گئیں۔ حتیٰ کہ دربار تک منعقد نہ ہوا۔ راجہ نے شہر کے صدر دروازے کے قریب عزیز بخش کو سپرد خاک کیا اور وہاں ایک شاندار مزار بنوایا۔ اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ بھوانی سنگھ نے اپنے محل کے سب سے خوبصورت باغ میں ایک اکھاڑہ تعمیر کروایا جس میں بعد میں گاماں اور امام بخش ریاضت کرنے لگے تھے۔

راجہ بھوانی سنگھ کو اپنے برہمچاری پہلوان کی وفات کا صدمہ کسی کروٹ چین نہیں لینے دے رہا تھا۔ اسے کسی ذریعہ سے خبر ہوگئی کہ عزیز بخش پہلوان بھوت پریت کی نحوست کا شکار ہو کر اس دنیا سے سدھارا ہے۔ اور یہ سب کھلکا کی پراسرار حویلی کے کارن ہوا ہے۔ راجہ کو ایسی خبر پر وشواش نہیں تھا کہ عزیز بخش پہلوان ایک جناتی قوت سے ڈر گیا ہوگا اور خوف کی وجہ سے موت نے اسے آدبوچ لیا۔ وہ جانتا تھا کہ تاریخ درویش صفت پہلوانوں کے ایسے متعدد واقعات سے بھری پڑی ہے جب انہیں ریاجت کے دوران پراسرار اور ہوائی چیزوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب اس کے درباری نجومیوں اور پنڈتوں نے اپنے علوم کے ذریعے عزیز بخش پہلوان کی موت کا ذمہ دار ایک جناتی قوت کو ٹھہرایا تو اسے یقین کرنا ہی پڑا۔

راجہ کا غمزدہ دل ایک اور خدشہ کی بنا پر تشویش سے بھر گیا۔

اس کے من کی بے کلی ننھے غلام حسین (گاماں) کے سودائی پن کر دیکھ کر بڑھ گئی۔ گاماں اپنے باپ کی بے وقت موت سے بے خبر تھا۔ اسے تو موت کا ادراک ہی نہ تھا کہ یہ کیا ہوتی ہے اور کس طرح چاہنے والوں کو لمحوں میں ہمیشہ کے لیے جدا کر دیتی ہے۔ وہ تو موت کی اس بے حسی سے بھی آگاہ نہ تھا کہ داغ مفارقت دینے والوں کی یادیں جیون کو کیسے کیسے روگوں سے آشنا کر جاتی ہیں۔ گاماں اپنے باپ کو گلی کوچوں میں ڈھونڈتا پھرتا تھا اور کبھی اپنے عزیزوں کے ہاں جا کر اپنے باپ کے بارے میں دریافت کرتا۔

ایک روز گاماں راجہ بھوانی سنگھ کے پاس بھی جا پہنچا۔ راجہ پہلے ہی عزیز پہلوان کے سوگ میں نڈھال تھا۔ اس وقت وہ اپنے کمرہ خاص میں تنہا تھا۔ اسے خبر ہوئی گاماں ملنے آیا ہے۔ راجہ نے فوراً بلا لیا۔ راجہ کی آنکھیں گاماں کو دیکھ کر بھر آئیں۔’راجہ باپو، میرا عزیز کہاں ہے؟‘‘ ننھا گاماں بولا تو راجہ کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ راجہ نے بے اختیار ہو کر گاماں کو ساتھ لپٹا لیا۔

’’ہم ہیں تیرے عزیز!‘‘ راجہ نے دلگیر لہجہ میں کہا’’ہم تیرے عزیز جیسے تو نہیں بن سکتے پر تجھے پورا پورا پیار کریں گے تر اخیال رکھیں گے۔‘‘گاماں راجہ کے سینے سے الگ ہوا اور مچلتے ہوئے پوچھا۔ ’’مگر میرا عزیز ہے کہاں؟ وہ مجھے بتا کر

کیوں نہیں گیا۔‘‘راجہ گو مگو کی کیفیت میں پڑگیا۔ اس نے آنکھوں کے آنسو خشک کئے لیکن اس کا دل ہچکیاں بھرتا رہا۔ اس نے گامے کو مطمئن کرنے کے لیے کہا۔’’تیرا عزیز بہت دور گیا ہے بہت بڑے پہلوان بلکہ شکتی بانٹنے والے مہان گرو کے بلاوے پر چلا گیا ہے۔ وہ ہم سے کہہ گیا ہے کہ اب اسی وقت واپس لوٹے گا جب گاماں اپنے عزیز سے بڑا ہو جائے گا۔ عزیز نے ہمیں تمہارا خیال رکھنے کے لیے کہا ہے اور ہم اپنے عزیز کا کہا ٹالنے والے نہیں ہیں۔‘‘گاماں اپنے باپ عزیز بخش پہلوان کو پیار سے ’’میرا عزیز‘‘ کہتا تھا۔ راجہ کی زبانی سنا کہ اس کا عزیز کہیں دور چلا گیا ہے اسے بتائے بغیر، تو وہ بولا’’اچھا ٹھیک ہے میں سمجھ گیا میرا عزیز کیوں کہتا رہتا تھا کہ گامے جلدی سے بڑا ہو جا تو نے بڑے بڑے پہاڑ گرانے ہیں۔‘‘ گامے نے معصومیت سے راجہ سے پوچھا۔’’راجہ باپو جی! میں بڑا پہلوان بن گیا تو میرا عزیز واپس آجائے گا ناں۔‘‘

راجہ نے اسے دلاسہ دیا۔’’ہاں ہاں تیرا عزیز آجائے گا۔‘‘

راجہ بھوانی سنگھ گامے کے بارے میں اس قدر متفکر ہوا کہ فوری امیر بخش نون پہلوان(عزیز بخش پہلوان کے سسر) کو بلا بھیجا۔ راجہ نے سوچا کہ گامے کے ننھے ذہن پر باپ کی جدائی کا صدمہ ہی نہیں بلکہ کھلکا کی حویلی کی نحوست اثر انداز ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ کیونکہ کھلکا کی حویلی میں بھوت پریت کا بسیرا ایک حقیقت ہے تو ننھا گاماں ان کی نحوست اور شیطانیت سے کیسے بچ سکے گا۔

امیر بخش پہلوان راجہ کے پاس آیا

تو اسے سوچوں کے بھنور میں ڈوبے دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ راجہ نے نون پہلوان سے دلگیر لہجہ میں کہا۔’نون پہلوان جی! عزیز بخش کا وچھوڑا ہمیں وقت سے پہلے بوڑھا کر گیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں اسے بھوت پریت کے خوف نے مار دیا ہے پر ہمارا من نہیں مانتا۔ اگر ہم مان بھی لیں تویہ خوف دامن گیر ہو جاتا ہے کہیں گاماں بھی ان کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔ تم ایسا کرو حویلی چھوڑ دو اور گاماں کی فکر کرو۔‘‘نون پہلوان کی آنکھیں اپنے شاہ زور داماد کی بے وقت موت پر رو رو کر متورم ہو چکی تھیں اور اس کی طاقت کا پہاڑ صدمہ سے یوں زمین بوس ہوگیا تھا جیسے کبھی اس کا کھلا ہوا فولادی جسم طاقت کی جولانیوں سے آشنا نہ تھا۔ نون پہلوان نے راجہ کی بات دھیان سے سنی اور مؤدب ہو کر کہا۔

’’مہاراج! خدا آپ کا اقبال بلند کرے۔ آپ کی عزیز بخش سے محبت بے پایاں رہی ہے جبھی تو یتیم گامے پر دست شفقت فرمانا چاہتے ہیں۔ ہم آج ہی حویلی چھوڑ دیتے ہیں۔ عزیز بخش نے اپنے گامے کے لئے جو قربانی دی ہے اس کے بعد کوئی شیطانی طاقت گامے کو تنگ نہیں کر سکتی۔ خدا اس کی حفاظت کرے گا۔‘‘

راجہ نے اپنا کہا نبھایا اور گامے کو ایک باپ کا پیار دیا۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گامے کو اکھاڑے کی مٹی میں گوندھنے کے لیے خود بھی اکھاڑے میں اتر آتا اور گامے کے ساتھ کھیلا کرتا۔ گاماں راجہ کے ساتھ اپنے عزیز کی طرح کھیلتا کودتا۔ اس دوران کبھی اسے اپنے باپ کی کمی کا احساس ہونے لگتا تو راجہ فوراً اس کی دلجوئی کے لئے ایسا انداز اختیار کرتا کہ گاماں راجہ کے ساتھ پھر سے گھل مل جاتا۔

متعلقہ خبریں