نواب احمد خا ن کے قتل کے مقدمے سے قبل بھی ذوالفقار کو ایک شرمناک مقدمے میں پھنسانے کی کوشش کی گئی تھی ؟یہ مقدمہ کیا تھا اور کس نے گھڑا تھا ؟ ملاحظہ کیجیے پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ واقعہ

2018 ,نومبر 14



لاہور (ویب ڈیسک)یہ 3ستمبر 1977کی دم توڑتی رات تھی۔ علیٰ لصبح 4بجے کا وقت تھا جب فوجی کمانڈو، بھٹو کی رہائش گاہ 70کلفٹن میں مرکزی دروازے توڑ کر داخل ہوئے۔کچھ ہی دیر بعدایک منتخب وزیراعظم فوجیوں میں گھرا خاموشی سے سیڑھیاں اتررہا تھا۔ ایسے حالات میں بلندی سے نیچے اُترنا احساس کی کیسی منزل ہوگا۔

معروف قانون دان و کالم نگار سید نثار صفدر اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ مارشل لاء لگ چکا تھا۔ سول حکومت معطل اور بھٹو قیدی۔ جنرل ضیاء الحق نے سوچا اب بھٹو کا کیا کریں۔پہلا الزام لگایا کہ اپنی زمین پر سرکاری ٹریکٹر چلائے۔ لیکن بات بنی نہیں۔ ایف آئی اے نے ڈیرہ غازی خان میں جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نذیر کے قتل میں بھٹو کو ملوث کر نے کی تجویز دی۔لیکن قانون کے ماہرین نے مشورہ دیا کہ اس کیس میں خالی جگہیں بہت زیادہ ہیں، جنہیں پاٹنا مشکل ہو جائے گا۔آخر کار نواب احمد خان کے قتل کے وقوعے پر کی گئی ایف آئی آر کے موثر ہوئے پر اتفاق رائے پیدا ہو گیا۔ایف آئی آرپہلے سے موجود تھی۔ جس کی بحالی ممکن تھی۔ مدعی احمد رضا خان قصوری بھٹو کے خلاف کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھا۔ گو کہ مدعی 1970 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے تھے لیکن پلٹ کر پیپلز پارٹی کے خلاف تحریک استقلال کا مرکزی سیکرٹریٹ چلا نے لگ گئے تھے۔ آپ 1973ئکے اس آئین کے سخت مخالف تھے۔جسے پیپلز پارٹی اپنا کارنامہ قرار دیتی تھی اور اُسی آئین کو فردواحد کا آمرانہ آئین کہتے تھے۔ احمد رضا قصوری قومی اسمبلی کے واحد رکن تھے جو اپنے آپ کو بھٹو کی

متوازی قیادت ثابت کرنے کے لئے اس وقت ڈھاکہ گئے ۔ جب مجیب الرحمٰن کے 6نکات کی خلیج پاٹنا نا ممکن تھا۔ مگر ہواکے دوش پر سوار احمد رضا خان اپنی ذات کے پھیلاؤ پر مسرور ڈھاکہ کے ہوٹل کی طولانی کھڑ کیوں میں سے کچھ اور ہی منظر دیکھ رہے تھے۔ سیاست کی شطرنج میں شاہ کو مات دینے کیلئے پیادے سامنے لائے گئے۔پیپلز پارٹی کے مصطفےٰ کھر اور مصطفےٰ جتوئی نے مارشل لاء اتھاریٹیز کو یقین دلایا کہ وہ بھٹو کے بغیر پارٹی چلا لیں گے۔ جماعت اسلامی کے میاں طفیل اور جمیعت علماےء اسلام کے مفتی محمود، فوج کے حما یتی بن گئے کیونکہ وہ دیانتداری سے ضیاء الحق کواسلامی نشاۃ الثانیہ کا علمدار گردانتے تھے۔(محب وطن بروٹس یعنی ائیر مارشل اصغر خان )کو نوابزادہ نصراللہ نے حُب الوطنی کا سبق پڑھاتے ہوئے بھٹو کو جولیئس سیزر ثابت کردیا اور جولیئس سیزر کا انجام تو آپ جانتے ہی ہیں۔اِن سب کا اپنا اپنا زاویہ نظر تھا لیکن قدامت پسندی کے اشتراک کی وجہ سے یہ تمام بھٹو کو اپنی راہ کا روڑا سمجھتے تھے۔ یہ مختلف الخیال سیاستدان، مقتدر فوج کے ساتھ وفا کا تعلق مستحکم کرنا چاہتے تھے۔لیکن فوج ان نئے حاشیہ برداروں کی یقین دہانیوں پر اعتماد نہیں کرتی تھی۔ ایک طرف اگرنام نہاد سیاستدانوں کو مارشل لاؤں کا تجربہ ہو چکا تھا تو جرنیلوں کو بھی بار بارکے مارشل لاؤں سے سیاست کے ہتھکنڈوں کی سمجھ آ گئی تھی۔

مارشل لاء کی سیاست میں پیپلز پارٹی کے مرکزی عہدیدار یٰسین وٹوکا بھی مشکوک کردار تھا۔وٹّو صاحب نے بپھرتے ہوئے جیالوں کی ایک میٹنگ میں انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا “میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ 4 اپریل کو بھٹو آپ کے درمیان ہو گا”۔ ورکرخوش ہوگئے نعرے لگنے لگے۔سادہ لوح ورکروں نے سوچا جب پارٹی کا اتنا ذمہ دار رہنما کہہ رہا ہے تو فوج کے ساتھ ضرور کوئی ڈیل ہوئی ہوگی ۔ٹھیک 4 اپریل کو بھٹو کوپھانسی دے دی گئی۔ اور4اپریل کو قیدی بھٹو ورکروں کے درمیان آگیا۔ بعد میں پیپلز پارٹی کے قیدی ورکر جیلوں میں ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کہ یٰسین وٹّونے 4اپریل سے پہلے 4اپریل کا حوالہ کیسے دے دیا۔ان کوکیسے معلوم ہوا کہ بھٹو کو 4اپریل کو پھانسی ہو جائے گی جبکہ بھٹو سے آخری ملاقات کرنے والی دو خواتین کو بھی پھانسی کی تاریخ اور وقت کا پتہ نہیں تھا۔بہر حال جنرل ضیاء پیپلز پارٹی میں نقب لگانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔پی پی پی کے بعض سر کردہ رہنما، عوامی جدوجہد سے بچنے کیلئے خود فون کر کے اپنے آپ کو گرفتار کرا لیتے تھے۔ اور ایسے مراعات یافتہ لوگ جیلوں میں شاندار دعوتیں اڑاتے رہے تھے۔فوج کیلئے یہ بات خوش آئند تھی کہ سیاستدانوں میں سے ریڈی میڈ رضا کار قطار اندر قطار حکم کے منتظر کھڑے تھے۔ ہر بار مارشل لاء کیلئے خدائی خدمت گار فوری طور پر مہیا ہو جاتے رہے۔ ایسے زمانہ سازلوگ ہوا کا رخ دیکھ کر چلتے ہیں۔

ایسے ہی درباری کامیاب لوگ کہلاتے ہیں۔مگر ڈوبتے بحری جہاز سے چھلانگیں لگا کر بھاگ نکلنے والے چوہے ہی شاید سیانے کہلانے کے مستحق ہوں گے۔یہ درست ہے کہ پیپلز پارٹی میں ایسے لوگ بھی کم نہیں تھے جنہیں نہ خریدا جا سکا اور نہ خوفزدہ کیا جا سکا۔ ایسے خواب پرست لوگ ہی تھے جو اپنے گھر کے برتن بیچ کر پارٹی کے جھنڈے بنوا لیتے تھے۔یہ معزز کارکن بھی اپنا تارِ حیات بھٹو کی آخری سانس سے جوڑے گمنامی کی زندگی گزارتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ خوف اور لالچ سے مارشل لاء تو کامیاب ہو جاتا ہے لیکن منافقت اور موقع پرستی قومی کردار کا حصہ بن جاتی ہے۔ مفاد کے کھو جانے کا خوف، عدم تحفظ کا خوف، غیریقینی حالات کا خوف حتیٰ کہ خوف کا خوف ۔۔۔۔۔ سچائی کیلئے سینہ سپر ہونے سے روکتا ہے۔آزادی کیلئے جدوجہد سے روکتا ہے۔ سب سے بڑا خوف، موت کا خوف ہوتا ہے۔اچانک موت اتنی ڈراؤنی نہیں ہوتی۔ البتہ عوامی ہجوم میں زندگی گزارنے والابھٹو دو سال تک تنہا ایک کوٹھری میں موت کو آہستہ آہستہ اپنی طرف بڑھتے دیکھتا رہا۔ آہستہ آہستہ موت قریب آتی گئی ۔ایسے حالات میں بڑے بڑے ناموں والے اندھی طاقت کے سامنے سر بسجود ہو جاتے ہیں مگر نڈر بھٹو نے عوام کی غیرت کا علم آخر تک بلند رکھا۔ جب کئی سیاسی مفاد پرست چھپ چھپ کرمارشل لاء کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلا رہے تھے۔

انہی ایام میں ایک تنہا نہتا محب وطن سیاستدان جیل کی سلاخوں کے پیچھے فوجی آمرکو چیلنج کر رہا تھا۔اس بہادر شخص کے اس رویے سے جنرل ضیاء نے ایک فیصلہ کیا۔ اس نے سوچا قبر ایک ہے اور اشخاص دو۔ ان میں سے صرف ایک شخص کو ضرور دفن ہونا پڑے گا۔ بھٹوکی موت، جنرل ضیاء کیلئے زندگی تھی۔ ضیاء نے اپنی زندگی کیلئے، بھٹو کی موت کا اہتمام کیا۔اس سلسلے میں عدلیہ کو اپنے کنٹرول میں رکھنا ضروری تھا۔سب سے بنیادی فیصلہ چیف جسٹس کا انتخاب تھا۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کیلئے مولوی مشتاق حسین کی موزونیت شک و شبہ سے بالا تر ثابت ہوئی۔ جسٹس مشتاق حسین بھٹو سے سخت نفرت کرتے تھے۔کیونکہ بھٹو نے ایک بار جسٹس مولوی مشتاق حسین کو پیچھے دھکیل کر سردار اقبال کو چیف جسٹس بنوا دیا۔ جب جسٹس سردار اقبال ریٹائر ہو گئے تو پھر دوسری بارجسٹس اسلم ریاض کو چیف جسٹس بنا کر جسٹس مشتاق حسین کو محروم رکھا۔ یہ دُہرا زخم جسٹس مشتاق کبھی بھول نہ سکا۔جنرل ضیاء نے اسی لئے جالندھر کے رہنے والے اس جج کو بھٹو سے جان چھڑانے کیلئے منتخب کیا۔ بھٹو نے یہ اعتراض بھی کیا تھا کہ ایسا شخص بیک وقت چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر کے دو اہم اور متصادم عہدو ں پر کیسے براحمان رہ سکتا ہے۔ مگر اس عتراض کو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ حکومت نے درخواست دی کہ بھٹو کا کیس سیشن کورٹ کی بجائے ہائی کورٹ میں سناجائے۔مولوی مشتاق حسین نے بغیر صفائی اور استغاثہ کو سنے حکومت کی درخواست مظور کر لی اور فوراََ اس کی اجازت دے دی۔ تا کہ دونوں بھٹو دشمنی کی شراکت سے استفادہ کر سکیں۔

ساری عدالتی کاروائی کے دوران چیف جسٹس نے بھٹو کی توہین و تضحیک کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ اسے گھنٹوں کھڑا رکھا۔ بھٹو کے خاندان نے اس بنچ سے کیس کو تبدیل کرنے کی درخواست دی جو خارج کر دی گئی۔بھٹو اور 5 اور ملزمان کے خلاف مقدمہ11 اکتوبر 1977ء کو لاہور ہائی کورٹ میں سنا گیا۔ اس بنچ میں جسٹس مولوی مشتاق حسین کے ساتھ جسٹس ذکی الدین پال، جسٹس ایم ایس ایم قریشی، جسٹس آفتاب حسین اور جسٹس گلباز خان نے 18مارچ1978ء کوحسب توقع سزائے موت کا متفقہ فیصلہ سنایا۔اس کیس میں مسعود محمود ڈائر یکٹر جنرل ایف ایس ایف کا مرکزی کردار اور محوری گواہی تھی۔ اس نے اپنی جان بچانے کیلئے ایک تسلیمی بیان دیا۔ اس وجہ سے عدالت کو مسعود محمود کو مشکوک گواہ سمجھا جانا چاہیے تھا جو جرم میں شریک و معاون رہا اورجس نے ارتکاب جرم کے 3سال بعد تسلیم کیا کہ اس نے جرم کیا تھا جبکہ وہ اس سارے عرصے میں قید تنہائی اور تشدد اور خوف میں مبتلا رکھا گیا۔ اس پر دیگر کئی جرائم کے الزامات بھی تھے۔ مگر اس سب کچھ کے باوجود اسے محض اس لئے وعدہ معاف گواہ تسلیم کر لیا گیا تا کہ وہ بھٹو کو ملوث کر سکے۔ اگر گواہی کی یہ سند ہو اور جج صاحبان کا یہ معیار ہو تو فیصلہ عدالتی کارروائی سے پہلے ہی تیار ہو جائے گا۔ 

متعلقہ خبریں