سزائے موت کا مجرم ساتویں بار موت سے بچ گیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 05, 2016 | 09:05 صبح

 

دبئی(مانیٹرنگ)امریکا کی سپریم کورٹ نے جمعرات کے روزکالے کرتوت والے  قتل کے ایک مجرم کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد وقت مقررہ سے دو گھنٹے قبل موخر کردیا۔ یوں ملزم سزائے موت پرعمل درآمد میں ساتویں بار بچ گیا۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق امریکی ریاست امابا سے تعلق رکھنے والے مجرم ٹومس آرتھر کو دی گئی سزائےموت پر مقامی وقت کے مطابق جمعرات کو دن گیارہ بجے عمل درآمد کیا جانا تھا مگر عدالت نے 9 بجے سزا پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر اختلاف کے باعث اس پرعمل درآمد

روک دیا۔

عدالت نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ پہلے اس بات کا تعین کیا جائے کہ ملزم کی سزا پرعمل درآمد کیسے کیا جائے کیونکہ ریاست الامبا میں قتل کے ملزم کی سزائے موت کے لیے زہریلے انجیکشن کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی بعض تنظیموں اورملزم کے وکیل نے زہریلے انجیکشن سے سزائے موت کو غیرانسانی قرار دیا تھا۔ خود ملزم نے بھی اپنی سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے گولی مارنے کو زیادہ موزوں قرار دیا ہے۔

امریکی اخبار USA Today کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب مجرم کی اس کے بیٹے سے بات کرائی گئی تھی۔ جمعرات کی صبح ٹومس آرتھر نے ناشتہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ملزم کے وکیل کا کہنا ہے کہ امریکا کی وفاقی عدالت رواں سال جنوری میں زہریلے انجیکشن سے سزائے موت کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ اس کے بعد اس طریقے سے کسی کو موت کی نیند سلانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

جذباتی نوعیت کا جرم

ٹومس آرتھر پرالزام ہے کہ اس نےفروری 1982ء کو ایک انجینیر ٹروی ویکر کو اس کے گھر میں گھس کر سوتے ہوئے اسے گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔ آرتھر کے مقتول کی بیوی کے ساتھ مراسم اس قتل کی وجہ بنے۔

مقتول کی بیوہ نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے قاتل کو انشورینس پالیسی کے تحت 10 ہزار ڈالر کی رقم ادا کی تھی، جب کہ لائف انشورینس کی کل رقم 90 ہزار ڈالر ہے۔

آغاز میں مقتول کی بیوہ نے بیان دیا تھا کہ ٹومس آرتھر اس کے گھر میں زبردستی داخل ہوا۔ اس کے شوہر کو قتل کیا اور اس کی عصمت ریزی کی تاہم بعد میں ان دونوں کے فون ریکارڈ سے ان کے باہمی تعلق کا بھانڈا پھوٹ گیا تھا۔

74 سالہ ٹومس آرتھر کو تین بار یہ کیس بھگتنا پڑا۔ آغاز میں اسے قتل کے جرم سے بری کردیا گیا تھا مگر بعد ازاں دوسرے کیسز میں اسے سزائے موت سنائی گئی تھی۔ سزائے موت پر عمل درآمد میں پیش آنے والے رکاوٹوں کے باعث اس کی سزا پر عمل درآمد سات بار ملتوی ہوا۔

امریکی قوانین کے تحت ٹومس آرتھر کو جہاں قتل کےسنگین جرم میں قطعی سزائے موت ہوئی تو وہیں ملزم کو دی گئی سزا پرعمل درآمد میں پیش آنے والے سقم بھی نفاذ قانون کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ رہتے ہیں۔ تھامس آرتھر کا کیس اس کا واضح ثبوت ہے۔