2019 ,ستمبر 7
ستمبر65 کی جنگ میں ہم جس قدرسرخرو ہوئے دسمبر کی جنگ میں اس سے کہیں زیادہ بے آبرو ہوئے۔آج ایک اور جنگ سر پر کھڑی ہے۔اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔کونسی جنگ والی تاریخ خود کو دُہرائے گی۔فوجی ترجمان جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس میں آخری کولی،آخری سپاہی اور آخری حدتک جانے کی بات کی ہے۔جنگ جیتنے کیلئے دیگر عوامل بھی اتنے ہی ناگزیر ہیں جتنا جدیدو معیاری اسلحہ،فوج میں جذبہ جہاداور اس کی مہارت ۔نااہل حکمران ناؤ نوش کے شوقین کمانڈر ہوں اورقوم متحد ہوکر فوج کے شانہ بشانہ نہ ہو تومشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بنتے دیر نہیں لگتی۔اُس دور کا آج سے موازنہ کرلیں تو ممکنہ جنگ کانتیجہ بغیر کم وکاست کے سامنے آجاتا ہے۔
ستمبر کی جنگ پاک فوج اورعوام نے مل کر لڑی۔ 71میں فوج کے جذبے اور مہارت میں شک نہیں مگر پُشت نہ صرف خالی تھی بلکہ جن کی حفاظت کیلئے فوج لڑرہی تھی وہ پشت میں دشمن کیساتھ مل کر خنجر گھونپ رہے تھے۔65کی جنگ میں قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر پاک فوج کیساتھ تھی،جس سے دشمن کا لاہور میں داخل ہونے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔اس وقت سیاسی فضا بھی اتحاد کے حوالے سے قابل رشک نہیں تھی۔اپوزیشن محترمہ فاطمہ جناح کو ہرائے جانے پر دل گرفتہ اور صدر جنرل ایوب خان کیخلاف ادھار کھائے بیٹھی تھی۔مگر جب جنگ چھڑی تو وہ حکومت کیساتھ تھی۔آج اپوزیشن زیادہ مضبوط اور متحد ہے،اس کی طرف سے کہا جاتا ہے وہ کشمیریوں کیساتھ ہے،حکومت کیساتھ نہیں۔اگر آپ پاکستان کی حکومت کیساتھ نہیں تو کس حکومت کیساتھ ہیں؟۔
آج قوم میں اگر 65ء کی جنگ سے بڑھ کر نہیں تو کم ولولہ و جوش جذبہ کم بھی نہیں ہے۔نوجوان نسل تو ممکنہ جنگ کو ویڈیو گیم کی طرح دیکھ رہی ہے۔آج اُس دور کے مقابلے میں پاک فوج کی مہارت میں کہیں زیادہ اضافہ ہوچکا ہے جبکہ بھارت کے اسلحہ کے انبار کی کمی ہمارے ہتھیاروں کے معیار نے پوری کردی ہے۔
بھارتی میڈیا میں اس کے اگلے مورچوں پر تعینات فوجیوں کی کڑے حالات سے دلبرداشتہ ہوکرپاگل ہونے اور خودکشیوں کی خبریں آتی ہیں۔ہمارے فوجی اگلے مورچوں میں جانے کی خود درخواست کرتے ہیں۔جذبۂ شہادت اس حد تک موجزن ہے کہ اسرائیل کیخلاف جنگ میں بھی پاکستانی فوجی رضاکارانہ لڑ کر پاکستان کا پرچم گولان کی پہاڑیوں پر لہرا چکے ہیں۔ایک پاکستانی پائلٹ ستار علوی کی طرف سے مار گرائے جانے والے اسرائیل میراج طیارے کی کرچیاں آج بھی ان پہاڑیوں پر بکھری ہوئی ہیں۔
جنگ کے دنوں میں 60 سال سے کم عمر کے سابق فوجیوں کو بلالیا جاتا ہے۔ابھی حالات انکی طلبی کے متقاضی نہیں ہیںمگر ساٹھ سال سے زائد کے سابق فوجی بھی اپنی خدمات پیش کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔میجر نذیر کی عمر77سال اور وہ جسمانی طور پرکسی نوجوان کی طرح فٹ ہیں۔ڈیڑھ گھنٹہ واک روز کا معمول ہے۔انھوں نے اپنی یونٹ کے کمانڈر سے ملاقات کرکے اپنی فٹنس سے آگاہ کیا اور زور دیا،جب سب سے پہلے انہیں کال کی جائے۔ ریٹائرڈ فوجیوں کی تعداد چالیس لاکھ سے زائد ہے۔ ستر فیصد نے اپنا سامان باندھ لیا ہے۔ وہ تخت یا تختے کیلئے تیار ہیں۔ وطن کے ایسے لاتعداد پوت اور بیشمار سپوت ہیں۔ہرپاکستانی اپنے ایمان اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار پاکستان کا سپاہی ہے۔
جنگ بربادی لاتی اور نسلوں کا مستقبل تاریک کردیتی ہے۔یہ کوئی شوق نہیں مگر مسلط ہوجائے اور جس میں جذبۂ شوقِ شہادت نہ ابھرے تو وہ مسلماں کیسا!مسئلہ کشمیر پر جنگ ناگزیر ہوچکی ہے،جس کے وقت کا تعین نہیں کیا جاسکتا البتہ سرِ دست اس کا امکان نہیں ۔مودی کی طرح پوری دنیا پاگل نہیں،وہ جنگ کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے۔پاکستان اور انڈیا کو تباہی سے بچانے کیلئے نہیں،اپنی بقا اور اپنی نسلوں کو بچانے کیلئے۔پاکستان بھارت ممکنہ روایتی جنگ اگلے ہی لمحے جوہری جنگ میں بدل سکتی ہے۔ پانچ ہزار سینٹی گریڈ درجہ حرارت کو پہاڑ بھی برداشت نہیں کرسکتے۔آج کی موجودات کی راکھ بھی نہیں بچے گی۔اس کے اثرات پہلے لمحے روشنی کی رفتار سے پھیلتے ہوئے دھیرے ہوتے جائیں گے اور رفتہ رفتہ امریکہ اوردنیا کے دوسرے سرے نیوزی لینڈاور آسٹریلیا کو بھی لپیٹ میں لے لیں گے۔یہ’ رفتہ رفتہ‘بھی چند گھنٹو ں ہی پر محیط مدت ہوگی۔آخر گزشتہ کالم ’’موت کی کھائی‘‘ کا بقیہ حصہ ملاحظہ کیجئے:
کیا عمران خان دنیا کو بتائیں کہ پس پردہ کیا ہورہا ہے۔یادرکھیں کشمیر کاز پر بہت کچھ پسِ منظر میں اندازوں سے بڑھ کر ہو رہا ہے۔ باقی مسلم ممالک اگر پاکستان کے ساتھ اس طرح کھڑے نہیں ہوئے جس کی توقع تھی تو ہمیں توقعات پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ آپ نے یمن میں فوج بھیجنے کی سعودی عرب کو پیشکش کی اور پھر ’’جواب دیدیا‘‘ اس کے باوجود کہ یمن وار سے کچھ روز قبل سعودی عرب نے ڈ یڑھ ارب ڈالر میاں نواز شریف کو گفٹ کئے تھے۔ یہ وہ واحد بڑی رقم ہے جو بغیر ٹی ٹی کے آئی جس کی منی ٹریل میاں صاحب کے پاس موجود ہے۔ عرب ممالک کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات دوستی اور تجارت کے معاملات میں ہماری طرح آزاد ہیں۔ مودی کو ایوارڈ دیں ، یار بنائیں ،یا ہار پہنائیں یہ ان کی صوابدید ہے۔ اِدھر ہم لوگ اس اقدام کے خلاف دْم پر کھڑے ہو کر کہہ رہے ہیں اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔ اس سے عربوں کی صحت پر کیا اثر پڑے گا۔ کیا ہم عرب ممالک کی وجہ سے اسرائیل کو ناسور قرار دیتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اسرائیل سے نفرت کی وجہ اس کے فلسطینی مسلمانوں پر مظالم ہیں۔ ہماری تکلیف کی وجہ وہ ارشاد پاک ہے جس میں مسلمانوں کو ایک جسد سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اگر مسلم ممالک کو کشمیریوں پر مظالم کی تکلیف نہیں ہوتی تو اللہ کے حضور وہ جوابدہ ہونگے۔ مگر اب تو عرب ممالک کے سرخیل دو وزرائے خارجہ پاکستان آکر کشمیر ایشو پر حمایت کا یقین دلاگئے ہیں۔ایک بڑے اینکر نے پاک فوج کی پْرکشش مراعات شمار کراتے ہوئے ملکی معیشت کی زبو ںحالی کا پاک فوج کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ بلاشبہ پاک فوج کو ہوشربا مراعات حاصل ہیں جو کوئی بھی پاکستانی پاک فوج میں شامل ہو کر حاصل کر سکتا ہے۔ اب تو لڑکیوں کو بھی بھرتی کیا جاتا ہے۔ آپ سڑنے کڑھنے اور رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے بجائے اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کو فوج میں بھرتی کرائیں اور تاحیات بلکہ مرنے کے بعد لواحقین کے لیے بھی مراعات پائیں۔ آپ آرمی چیف کے عہدے تک بھی پہنچ سکتے ہیں اور اب تو دْہری توسیع کی روایت بھی جڑ پکڑ رہی ہے۔