یوم دفاع شجاعت وبہادری کی تاریخ کا نادرورق

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/احمد کمال نظامی):یوم دفاع پاکستان نئی نسل کو اس دن کی یاد دلاتا ہے جب پاکستان پر بھارت نے شب خون مارا تھا اور پاکستان کے جری جوانوں نے اپنے صدر جنرل ایوب خاں کی آواز اور للکار کہ ”دشمن نہیں جانتا کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے“ پر لبیک کہتے ہوئے وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کی فہرست میں اپنا نام رقم کیاتھا۔ ان کا یہی جذبہ شجاعت تھا جس نے پاکستانی عوام کے ساتھ مل کر اپنے سے پانچ گنا بڑے اور جدید اسلحہ سے لیس دشمن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے سے بڑی قوت اور طاقت والی اقوام کو شکست دینے کی جو تاریخ رقم کی ہے اس تاریخ کو نہ صرف قائم دائم رکھا بلکہ جدید عہد میں جذبہ شجاعت کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ فیصل آباد کی سرزمین کے فرزندوں نے بھی جو کردار ادا کیا اور میدان شجاعت میں اپنے جذبہ ایمانی اور جذبہ دفاع وطن پر نثار ہوتے ہوئے غازی اور شہید کا مقام پایا، اس پر اہل فیصل آباد(لائلپور) کو فخر اور ناز ہے اور فیصل آباد کی سرزمین پر شہداءستمبر کے مقابر ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ دشمن کے مقابلہ میں ہم نے بھی اسی طرح سینہ سپر ہونا ہے جیسے ہم ہوئے اور ہم سے قبل ہمارے اسلاف نے ہمیں یہ درس دیا، ہم نے اس سبق پر عمل پیرا ہو کر ثابت کر دیا کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ ان شہیدوں کی قبریں فیصل آباد کے بڑے قبرستان میں مینار شجاعت ہیں۔ ان میں پاکستان آرمی کے جوان میجر کلیم محمود خاں، محمد یونس، سیف اللہ اور دیگر بری جوانوں کے نام ہمارے لئے فخر کا باعث ہیں جبکہ جنگ ستمبر کے غازیوں میں میجر راجہ نادر پرویز اور بہت سے پاک فوج کے جوان اور آفیسر شامل ہیں۔ جنگ ستمبر کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہر سال 6ستمبر کو یوم دفاع پاکستان کے طور پر منایا جائے گا اور منایا جاتا ہے۔ ماضی میں کچھ عرصہ تو یوم دفاع کے موقع پر بڑے قبرستان میں سرکاری سطح پر ایک تقریب کا اہتمام کیا جاتا اور پولیس کا ایک دستہ شہداءستمبر کو باقاعدہ سلامی پیش کرتا لیکن افسوس کہ یہ روایت آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی گئی اور یوم دفاع پاکستان محض ایک تعطیل بن کر رہ گیا جبکہ جنگ ستمبر میں عوام کے جوش اور جذبہ کا یہ عالم تھا کہ نوجوانوں کی ٹولیاں محاذ جنگ پر اپنے جری جوانوں کی شجاعت اور جوانمردی کی داد دینے کے لئے واہگہ بارڈر کا رخ کرتی تھیں جس پر پابندی لگانی پڑی۔ جنگ ستمبر نے پاکستان میں سیاست کا رخ بھی تبدیل کر دیا۔ اس وقت کی دوسری بڑی سپرپاور سوویت یونین روس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کرائی اور تاشقند میں پاکستان اور بھارت کو ایک میز پر بٹھایا۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جسے معاہدہ تاشقند کا نام دیا گیا۔ یہ معاہدہ پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم شاستری کے درمیان طے پایا۔ اس معاہدہ پر دستخط کرنے کے بعد بھارتی وزیراعظم شاستری تو آنجہانی ہو گئے جبکہ پاکستان کے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کو پاکستان کے مفادات کے منافی قرار دیتے ہوئے وزارت خارجہ سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا اور پھر معاہدہ تاشقند کو اپنی سیاست کا محور قرار دیتے ہوئے اپنی سیاست کا آغاز کیا اور اعلان کیا کہ وہ معاہدہ تاشقند کی اصل حقیقت سے قوم کو آگاہ کریں گے لیکن معاہدہ تاشقند کی اصل حقیقت سے تو ذوالفقار علی بھٹو اپنے آخری دموں تک آگاہ نہ کر سکے اور نہ جس راز کو افشا کرنے کا دعویٰ لے کر میدان سیاست میں اترے تھے وہ راز افشاں ہو سکا البتہ معاہدہ تاشقند کے نعروں کی لہروں سے ایک نئی لہر روٹی، کپڑا اور مکان نے ایسا جنم لیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان میں عوامی لیڈر کے اعزاز سے ہمکنار کر دیا۔ بھٹو عوام کے دلوں کی دھڑکن قرار پائے اور آج بھی عوام میں زندہ ہیں۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یوم دفاع پاکستان محض ایک چھٹی کا درجہ اختیار کر گیا اور ایسا حکمرانوں نے اپنے سیاسی مفادات کے تحت کیا جبکہ امسال روایت سے ہٹ کر یوم دفاع پاکستان منایا گیا۔ پاک آرمی کے کمانڈر انچیف نے موجودہ حالات اور عالمی منظر کے پیش نظر جو مسلح افواج کی پریڈ کے موقع پر خطاب کیا اس خطاب کے الفاظ میں ہمیں وہی روح اور وہی جذبہ شجاعت اور وہی دفاع وطن کا عزم کارفرما نظر آتا ہے جو جنرل ایوب خان نے اس وقت کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے خطاب کیا تھا۔ یاد رہے کہ امریکہ نے جنگ ستمبر میں بھی دوغلی پالیسی اختیار کی تھی۔ سترہ روزہ جنگ میں جذبہ مومن کے ہاتھوں دشمن کو جو منہ کی کھانی پڑی تھی اور دشمن ہم پر اس لئے حملہ آور ہوا تھا کہ اس میں بسنے والے مسلمانوں کو کشمیریوں کی طرح اپنے خونخوار پنجہ استبداد میں جکڑ کر دن رات ظلم و ستم کی انتہا کرتا۔ جیسا کہ آج روہنگیا کے مسلمانوں پر برمی فوج کر رہی ہے۔ وطن عزیز پاکستان اپنے ازلی اور بدترین دشمن بھارت کی تخریب کاریو ںاور سازشوں کی بدولت اپنے وجود میں آنے سے اب تک ہمہ وقت حالت جنگ میں چلا آ رہا ہے۔ وہ سامنے جو ہمارے دشمن ہے، بظاہر مسکین صورت بنائے کھڑا ہے لیکن اس کی خون آشام اور مکار چالیں وقفے وقفے سے روپ اور بہروپ بدل کر ہمیں زخم لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اب بھی اس نے وہی طریقہ اختیار کیا ہوا ہے جو اس نے 1971ءمیں مشرقی پاکستان میں کیا تھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے خطاب میں بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا پردہ چاک کرتے ہوئے عالمی ضمیر کو بیدار کیا ہے اور اس عزم کا کا اظہار کیا ہے کہ دشمن جان لے کہ ہم کٹ مریں گے لیکن ایک ایک انچ کا دفاع کریں گے۔ بھارت جان لے کہ کشمیریوں کی جدوجہد دراندازی کی محتاج نہیں ہے۔ دشمن کی شکست اور ہماری جیت کا وقت آ گیا ہے۔ جنگ ستمبر 1965ءکی جنگ سے لے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ تک جو ابھی جاری ہے، سیاچن کے برفانی گلیشیئر ہوں یا جنوبی وزیرستان میں بچھائی گئی بارودی سرنگیں، جن کو عبور کر کے دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے پاک فوج کے جوانوں نے جس شجاعت اور بہادری کی داستانیں رقم کی ہیں اور کی جا رہی ہیں وہ ہماری روایت اور ورثہ ہے۔ ہم اس روایت پر قائم رہیں گے اور اپنے ورثہ کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں۔