لیکس کا اونٹ
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع نومبر 16, 2016 | 10:26 صبح
جہانگیر بدر دوستوں کے دوست اور جہاندیدہ سیاستدان تھے۔ انہوں نے سیاست سے بھی وفاداری نبھائی۔ پیپلزپارٹی سے وابستہ رہے۔ آخری سانس بھی اسی کے ساتھ وابستگی میںلی۔ زندگی کا اعتبار نہیں، سو وہ ان کا بھی ساتھ چھوڑ گئی۔ عمر صرف 72 سال تھی۔ کئی سال قبل جہانگیر بدر نوائے وقت فورم میں آئے۔ حمید نظامی ہال میں انہوں نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ وہ وزیر پٹرولیم بنے تو سیکرٹری پٹرولیم کو بلا کر لاہور میں اپنے آبائی علاقے بھاٹی میں گیس پہنچانے کو کہا۔ سیکرٹری کا جواب تھا اس علاقے میں گیس کی فراہمی ممکن نہیں، انہوں نے کوئی قانونی موشگافی بیان کرنے کی کوشش کی، تنگ گلیوں کا بھی ذکر کیا۔ میں نے ان سے کہا سیکرٹری صاحب! جو بھی ہے، اس علاقے میں گیس جائےگی یا پھر آپ گھر جائینگے۔ اسکے بعد سیکرٹری پٹرولیم نے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔
آج پانامہ کیس عروج پر ہے۔ سپریم کورٹ میں شواہد اور دستاویزات پیش ہو رہی ہیں۔ جج حضرات بڑے دلچسپ ریمارکس دے رہے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے فرمایا کہ مدعی نے خود ہی سچائی دفن کر دی۔ عموماً ملزم سچائی کو دفن کرنے کی کوشش کرتا ہے جسے عدالت سامنے لے آتی ہے۔ مدعی نے بھی سچائی دفن کی تو سامنے عدالت ہی کو لانی ہے۔ شیخ عظمت سعید فرماتے ہیں کہ اخباری تراشے ثبوت نہیں ہوتے۔ آج خبر شائع ہوئی دوسرے روز اخبار میں پکوڑے فروخت ہوتے ہیں۔ پکوڑے فروخت کرنے سے سچائی ختم نہیں ہو جاتی۔ ہم نے اخبار میں پڑھا تھا، جسٹس عظمت سعید ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ چلے گئے۔ اگلے روز اسی اخبار میں پکوڑے فروخت ہوئے مگر جج صاحب کے سپریم کورٹ جانے کی حقیقت اپنی جگہ موجود تھی اور ہے۔
پانامہ لیکس پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا کیس ہے۔ اس میں سچائی اور حقیقت خود بولتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹیوں میں ایف آئی اے، ایف بی آر، نیب، سکیورٹی ایکسچینج، گورنر سٹیٹ بنک اور سیکرٹری قانون سے سے پوچھا گیاکہ پانامہ لیکس پر انکے اداروں نے کیا تحقیقات کی ہیں تو سب نے یک زبان ہو کر کہا ”ایسا ممکن نہیں“ ان کمیٹیوں کے سربراہان نے انگشت بدندان ہونے پر اکتفا کیا۔ پارلیمنٹ کو سپریم کہنے والے شاید یہاں بے بس تھے کہ جہانگیر بدرکی طرح کہہ نہ سکے ”یہ کرنا ہو گا یا گھر جانا ہو گا“ ہو سکتا ہے ان سے زیادہ طاقتور کے کہنے پر انہوں نے ”ناممکن“ کہا ہو۔
کیس سپریم کورٹ میں ہے، کہا جارہا ہے انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ معاملہ دب جائے گا۔ کچھ لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔ ان لوگوں کے نزدیک کیس کا منطقی انجام نواز شریف کے خلاف فیصلہ ہے۔ دوسرے طبقے کی خواہش ہے کہ یہ چیف جائے نیا آئے تو نواز شریف محفوظ رہ جائیں گے کیونکہ اگلا فلاں کا بندہ ہے۔ گویا عدلیہ پر بطور ادارہ اعتماد اور اعتبار نہیں کیا جارہا۔ جسٹس ارشاد حسن کی سربراہی میں مشرف کے ”کو“ کو جائز قرار دیا اور ان کو بنچ نے آئین میں اپنی طرف سے ترمیم کی اجازت بھی دے دی تھی، اس پر عمران شیرازی ایڈووکیٹ نے کہا تھا کہ پاکستان کا نظام سپریم کورٹ کے جج امپورٹ کر کے درست کیا جا سکتا ہے۔ جب اوپر بے لاگ فیصلے ہوں گے تولوئر کورٹ تک ایسا ہی ہو گا۔ پانامہ لیکس پر جس طرح اعتبار اور بے اعتباری کی باتیں ہو رہی ہیں، وہی ڈان لیکس پر ہوتی ہیں۔ چودھری نثار نے پہلے کہا تھا کہ آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے افسران کی جے آئی ٹی بنے گی۔ اس پر ایک حلقے نے اطمینان کا اظہار کیا اور دوسرے میں بے چینی پائی گئی۔ حکومت نے اس پر کمیٹی بنا دی جس کی ساخت سے اس کی رپورٹ کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ سچ اور سچائی سامنے آنی چاہیے۔ جے آئی ٹی اور جیوری میں کوئی بھی ہو۔ مگر ہر ادارے نے اعتبار اور اعتماد کھو دیا ہے۔ چودھری نثار علی خان لندن جاتے ہوئے ڈان لیکس پر حکومت، وزرا اور خصوصی طور پر وزیراعظم کی طرف بڑھتے خطرے کو ڈی فیوز کر گئے۔ کہہ دیا کہ جب اجلاس میں وزیراعلیٰ اور ڈی جی آئی ایس آئی میں کوئی توتکار ہی نہیں ہوئی تو خبر کی لیک کیسی۔ تو پھر انکوائری کی ضرورت بھی نہیں ہونی چاہیے؟ کور کمانڈروں کا خبر کو سکیورٹی بریچ قرار دینے اور جنرل راحیل کا انکوائری پر زور دینے کا واویلا کیسا؟ پانامہ لیکس کیس اور ڈان لیکس کو قوم فی الوقت احمد رضا قصوری کے والد کےقتل کیس کی طرح دفن ہی سمجھے۔ اب فوج کو بھی شاید اس کیس میں زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔ لگتا ہے جنرل راحیل کو توسیع دی جارہی ہے۔ یہ کوئی اندر کی خبر نہیں۔ جنرل راشد کی الوداعی ملاقاتوں کا شیڈول جاری ہو چکا۔ جنرل راحیل شریف کے معاملے میں خاموشی ہے۔ نواز شریف بھی ان سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرتے اور ہربات پر ان کے شکر گزار ہوتے ہیں۔جنرل راحیل بھی سمارٹ سلیوٹ لگاتے ہیں،طریقہ کار آڑے نہ ہو تو دونوں ہاتھوں سے سلیوٹ کر دیں، اسی سے اندازہ ہوتا ہے۔
وسائل نچھاور ہوئے توجہانگیر بدر لاہور کی تنگ گلیوں سے کھلے علاقے میں منتقل ہو گئے تھے مگر ان جدید علاقے کے سبزے پھولوں اور لہلہاتے درختوں والے قبرستان کے بجائے میانی صاحب میں دفن ہونا پسند کیا، یہی انسانی فطرت ہے۔ انسان اپنے آباﺅ اجداد کےساتھ مٹی میں مٹی ہونا چاہتا ہے۔ کھربوں ڈالرز کی جائیدادوں کے مالک بھی بیرون ملک سے پاکستان میں دفن ہونے کی وصیت کرتے ہیں۔ مخدوم امین فہیم کی جیب میں کوئی 18 کروڑ روپے ڈال گیاوہ کرپشن کا الزام سر پر لئے چلے گئے۔ مراد علی شاہ کے والد عبداللہ شاہ بھی کرپشن کیس کے باعث ملک سے بھاگے، آخری وقت پاکستان چلے آئے خود کو عدالتوں کے رحم و کرم پر چھوڑا، وہ عبرت کی تصویر بنے ویل چیئر پر عدالت میں پیش ہوئے، ضمانت ہوئی اور چند دن بعد چل بسے۔ یہی انسان کی حیثیت اور اوقات ہے۔ سرے محل بنائیں، وائٹ کوئین ُٰپیلس تعمیر کرائیں، جاتی امرا سجائیں مگر اس میں قوم کے خون پسینے کی ایک بھی پائی کیوں ہو۔ جن لوگوں نے کھربوں کی لوٹ مار کر کے اثاثے بنائے ان کیلئے انکے درباری دس ہزار سال کی زندگی کی دعا کیا کریں تاکہ کمایا ہوا کھا بھی سکیں۔
کالم کی تحریر کے دوران سرگودھا سے گلزار صاحب کا فون آیا، وہ آشیانہ اقبال کے متاثرین میں سے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے حکومت نے ”فرد“ کو آن لائن کرنے کے سسٹم کی بڑی افادیت ہے۔ میں نے پچاس روپے میں فرد حاصل کر لی، رجسٹری کیلئے گیا تو کہا گیا رپورٹ کرائیں جس کیلئے پٹواری کے پاس جانا پڑا ، اس نے پانچ ہزار روپے طلب کئے۔یہ ہوا پٹوار کلچر کا خاتمہ!