ہماری عدلیہ کے نشیب و فراز

2020 ,مئی 23



انگریز جج اوبرے پینل نے وائسرائے تک کیخلاف فیصلے دیئے۔ اعلیٰ افسروں کو قید کی سزائیں سنائیں۔ پھر اسکے ساتھ جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔اس کا تذکرہ کالم کے آخری حصہ میں کریں گے۔

عمومی تاریخ کی طرح ہماری عدلیہ کی تاریخ بھی کئی رنگوں اور نیرنگوں سے ہم آہنگ رہی ہے۔ بڑے نشیب و فراز کے بعد نئی صدی کا آغاز اور تواتر حوصلہ افزا ہے۔ پی سی او عدلیہ پر طوفان بن کو ٹوٹتا رہا ، اس میں بہت سے نابغہ بہہ گئے۔ بہت سے ججز نے پی سی او کے تحت حلف نہیں لئے۔ انکی اس جرأت کا زمانہ معترف رہا۔ جن ججز نے پی سی او کے تحت حلف لیا ان کو طعن و تشنع کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ضروری نہیں پی سی او کے تحت حلف عہدے و نوکری کے لالچ ہی میں لیا گیا ہو۔مقصد عدلیہ کی بقا بھی ہو سکتا ہے۔ پی سی او کے تحت ہر جج حلف لینے سے انکار کر دیتا تو کیا پی سی او لانے والے حکومت چھوڑ کر واپس چلے جاتے۔ عدالتیں بند ہو جاتیں؟ عدالتیں بند نہ ہوتیں ۔ فوجی حکمران کوئی بھی تجربہ کرتے کچھ نہ بن پڑتا تو فوجی عدالتیں بنا دیتے۔ وہ کیسا نظامِ انصاف ہوتا۔ ایسے تجربات سے نظامِ عدل کو بچانے کیلئے بھی کئی ججز نے پی سی او کے تحت حلف لیا ۔ پی سی او کے تحت حلف نہ لینے والے اعلیٰ دماغوں سے قوم کو محروم ضرور ہونا پڑا۔ اسکے ساتھ ہی حلف لینے والے زرخیز دماغ بھی میسر آئے اور شاید انہوں نے تاریخ کا دھارا بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

جسٹس ارشاد حسن خان پر کئی الزامات لگتے ہیں ’’انہوں نے مشرف کے ٹیک اوور کو جائز قرار دینے کے ساتھ ترمیم کا اختیار دیدیا جو انہوں نے مانگا ہی نہیں تھا۔ انتخابات کیلئے تین سال دے دئیے۔ فیصلے دبائو کے تحت کرتے رہے اور یہ کہ انہوں نے اپنے سابقہ آئینی حلف سے متضاد حلف لینے کی شرط پر چیف جسٹس کا عہدہ قبول کیا۔ آج انکے سامنے یہ سوالات رکھے تو انہوں نے کہا یہ سب حقیقت کے برعکس ہے۔ عہدہ بچانے کیلئے نہیں بلکہ اس نیک نیت سے حلف لیا کہ جلد ازجلدافواج ِ پاکستان کو اقتدار سے واپس کرتے ہوئے ایک طے شُدہ مدت میں انتخابات کراکے اقتدار عوام کے نمائندوں کے حوالے کرنے کا پابند کیا جاسکے اور فوج کی واپسی کا مکمل نظام دیا جاسکے اور انہیں جمہوری ادارے جلداز جلد بحال کرنے کا بھی پابند کیا جائے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ محض ظفر علی شاہ کیس کی وجہ سے جنرل مشرف نے سپریم کورٹ کی طے شُدہ مدت میں انتخابات کرائے اور جمہوری ادارے بحال ہوئے ۔ ظفر علی شاہ کیس 11 رکنی بنچ کے روبرو تھا۔ فیصلہ متفقہ تھا۔ مشرف حکومت انتخابات سے فرار چاہتی تھی۔ خالد انور نے بحث کے دوران کہا ’’آپ یہ کریں جو ہو چکا‘ اسے کنڈون کریں اگر کنڈون نہیں کریں گے تو ملک میں انارکی پھیلے گی اور افراتفری ہو گی جو ہم نہیں چاہتے لیکن ساتھ ہی ایک معقول ٹائم فریم دے دیں کہ یہ کب واپس جائیں گے‘‘۔ اسے تین سال میں انتخابات کرانے کا پابند مسلم لیگ ن کے وکیل خالد انور دلائل کی روشنی میں کیا گیا ۔ انتخابی لسٹوں اور دیگر اقدامات کے پیش نظر تین سال سے قبل انتخابات ممکن نہیں تھے۔ یہ کیس ہی ترمیم کا تھا کہ فوجی حکومت آئین میں ترمیم کر سکتی ہے یا نہیں۔ جسٹس ارشاد حسن کہتے ہیں مشرف کا معاشی ایجنڈا کم و بیش مسلم لیگ ن کے ایجنڈے جیسا تھا۔ اسکی تکمیل کیلئے سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار ہے‘ اگر آپ نے آئین میں ترمیم کرنی ہے تو کریں۔ Provided آئین میں کوئی Provision ایسی ہو جو آپ کو نہ کرنے دے۔لیکن آئین کے تحت سات نکاتی ایجنڈے کو نافذ کرنے کی کوئی رکاوٹ نہ تھی ۔اسکے علاوہ آئین کی کسی شِق میں ترمیم کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔اس کا مطلب یہ ہو اکہ آئین میں ترمیم کی کوئی اجازت ہی نہیں دی گئی ۔ انکے بقول کئی ماہرین نے بھی فیصلہ پڑھے بغیر اس پر رائے زنی کر دی اور یہ گلہ شکوہ کورٹس کو عموماً رہتا ہے۔ ظفر علی شاہ کیس میں الیکشن کرانے کی حتمی تاریخ دینے کے بعد اپنے فیصلے کو فالو کیا جس کی میڈیا میں بہت تحسین کی گئی اور معروف اخبارات نے ایڈیٹوریل لکھے۔ ایس ایم ظفر صاحب کو بھی عدالت نے بطور ایک ’’معاون دوست‘‘ (amicus curiae) طلب کیا تھا اُنہوں نے نصرت بھٹو بنام جنرل ضیاء الحق کے فیصلے میں خامی کا ذکر کرتے ہوئے یہ درخواست کی تھی کہـ’’اگر عدلیہ جنرل مشرف کو عارضی طور پر اقتدار کے جواز کا حقدار سمجھتی ہے تو اسے اس بات پر مشروط کیا جائے کہ جلد سے جلد وہ افواج پاکستان کو انکی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے اقتدار واپس کرتے ہوئے ایک طے شدہ مدت میں ملک میں انتخابات کر اکے اقتدار عوام کے نمائندوں کے حوالے کرنے کا پابند کرے اور وہ غلطی نہ کرے جو عدلیہ سے نصرت بھٹو کیس میں ہوئی جب فوج کی واپسی کا مکمل نظام نہیں دیا گیا تھاـ‘‘

تھوڑا ماضی میں جائیں تو شاہ احمد نورانی،عبدالستار خان نیازی، اکبر ساقی کیس جس میں اُس وقت کے پرونشل مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر اور گورنر پنجاب کے حکم کے تحت عبدالستار نیازی وغیرہ کو تین ماہ کیلئے نظر بند کیا۔ یہ جسٹس ارشاد حسن خان ہیں جنہوں نے اس نظر بندی کو کالعدم قرار دیا حالانکہ اُنہوں نے بطور جج PCO کے تحت حلف لیا تھا۔ محض تین ، چار ماہ کا عرصہ گزرا تھا ،وہ کنفرم جج بھی نہ تھے اسکے باوجود انہوں نے فیصلہ کالعدم قرار دیا۔ جنرل جیلانی کے حکم پر دو بارہ عبدالستار نیازی وغیر ہ کی نظر بندی کا حکم صادر ہوا ا س کو بھی جسٹس ارشاد حسن خان نے مارشل لاء اور فوجی حکومت کے ہوتے ہوئے کالعدم قرار دیا۔ انہوں نے جوناتھن کیس میں محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کے دوران نواز شریف کو ریلیف دیا ۔ نوازشریف کی حکومت کے دوران محترمہ بینظیر بھٹو کو فوجداری کیس میں حکومت کے فیصلے کیخلاف اپیل کی اجازت دی حالانکہ وہ ملک سے باہر تھیں اور عام حالات میں اپیل دائر کرنے کیلئے ملزم کی ذاتی حاضری ضروری تھی ۔اس مقدمے میں سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ جناب اعتزاز احسن پیش ہوئے تھے ۔ جسٹس ارشاد حسن خان نے ہی نوازشریف کی حکومت کے دوران بینظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف ریفرنس میں جسٹس قیوم کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر کیس ریمانڈ کیا۔ ایسے بے شمار اور بھی کیسز ہیں ، جن میں جسٹس ارشاد حسن خان نے مظلوم سائلوں کی داد رسی کی بلا امتیاز اسکے کہ اُن کا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے تھا ۔ (جاری)

متعلقہ خبریں