عدلیہ کے نشیب و فراز

2020 ,مئی 30



انگریز سرکار بھی مرضی کیمطابق کام نہ کرنے والے افسروں کو ’’کالے پانی‘‘ بھیج دیا کرتی تھی۔ کالا پانی نیپال کا حصہ ہے جس پر بھارت کا قبضہ ہے۔ چین کے ششکارنے پر واگزار کرانے کیلئے نیپال اب میدان میں آ گیا ہے۔ بہرحال ایسا ہی ایک افسر پوری طاقت سے ابھرا، اس کا نام اوبرے پینل تھا۔ اوبرے پینل نے اپنی تعیناتی کے دوران برما (اب میانمار) میں بھی کام کیا۔ جہاں محکمہ سیٹلمنٹ میں سیکنڈلز بے نقاب کرنے کی پاداش میں اسے تبادلے کا سامنا کرنا پڑا۔ سیٹلمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں پائے جانیوالے گھپلے دبانے کیلئے اس پر بہت دبائو تھا۔ لیکن اوبرے پینل باز نہ آیا۔ اس نے کبھی اپنے افسروں کی منشا کو پیش نظر نہ رکھا۔ چنانچہ برما سے اسے بنگال بھیج دیا گیا۔ جہاں اسکی نئی تعیناتی بطور جج کی گئی۔ اب اسکے پاس مظلوم غلاموں کو انصاف کی فراہمی کیلئے وسیع اختیارات تھے۔ اسے کوئی فکر نہ تھی کہ وہ کس کا ملازم ہے۔ کس قوم سے تعلق رکھتا اور کس خطے سے آیا ہے۔ اسکے پیش نظر صرف اپنے دائرہ اختیار میں شامل لوگوں کو انصاف کی فراہمی تھی۔ چنانچہ اس نے مقدمات کی فائلوں میں جان کھپا دی۔

ایک مقدمے کے فیصلے میں اس نے انتظامیہ پر شدید تنقید کی۔اس کو کلکتہ ہائی کورٹ نے فیصلے سے خارج کرنے کا حکم جاری کیا،وہ نہ ماناتو اسکی اگلی منزل بنگال کا شہر چھاپڑا تھی۔چھاپڑا میں ایک پولیس افسر اور انجینئرز نے مل کر ایک دیہاتی کو بہت مارا۔ یہ دونوں انگریز تھے۔دیہاتی نے ظلم کا واویلا کیا توانہوں نے اسے جھوٹے مقدمہ میں دو ماہ جیل بھجوا دیا۔اس نے پینل کی عدالت تک رسائی حاصل کی۔ یہ مقدمہ پینل کیلئے ایک امتحان تھا لیکن یہ اس کیلئے بڑا فٹ کیس تھا۔ شہری پر تشدد بلاجواز اور ظلم تھا۔ پینل نے مقدمہ دیکھتے ہی شہری کو رہا اور دونوں انگریزوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ اس کا فیصلہ انگریزی نثر کا ماسٹر پیس سمجھا جاتا ہے۔ وہ لکھتا ہے ’’گورنمنٹ آف بنگال، کلکتہ ہائی کورٹ ، ایگزیکٹو افسران اور عدالتی نظام اس قسم کی گھمبیر ناانصافیاں کر رہے ہیں۔‘‘ یہاں بھی ہائی کورٹ نے اسکے فیصلے سے اتفاق کیا لیکن ’’ سخت زبان‘‘ قبول نہ کی۔ چنانچہ یہ الفاظ فیصلے سے خارج کرنے کی ہدایت کی گئی مگر وہ نہ مانا۔ اس کا تبادلہ نواکھلی کے مشکل ترین علاقے میں کر دیا گیا۔ یہاں بھی اسے ایسا مقدمہ ملنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ ایک دن ایک ساہوکار کی لاش تالاب میں تیرتی ملی۔ اسکے بیٹے نے مقدمہ کیلئے پولیس سے رجوع کیا مگر مشتبہ قاتل انسپکٹر پولیس کے رشتہ دار تھے وہ اسے بچاتا رہا۔ مجسٹریٹ نے پولیس کے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے مقدمہ خارج کر دیا۔ بالآخر یہ کیس بھی پینل کی عدالت میں پہنچا۔ ضلع کے انگریز پولیس چیف نے کیس میں اپنی گواہی ڈالی مگر وہ جھوٹا ثابت ہوا۔ پینل نے اس کی گرفتاری کے آرڈر جاری کردیئے۔ پینل نے اس مقدمے کے فیصلے میں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، ڈپٹی کمشنر ، صوبے کے تمام افسران اور وائسرائے کو بھی موردالزام ٹھہرایا۔

فیصلہ سنانے کے بعد وہ ایک کشتی میں انسپکشن پر نکل گیا۔ اس طرح اس کا رابطہ اپنے دفتر اور حکومتی ارکان سے کٹ گیا۔ جاتے جاتے پینل نے تمام کاغذات اور مقدمے کی فائلیں اپنے ساتھ رکھ لیں۔ چنانچہ ایس پی کو گرفتار کر لیا گیا ۔ ضلع پولیس اپنے سربراہ سے محروم تھی اور چونکہ مقدمے کی کاپی ہی نہ تھی لہٰذا اپیل نہ ہوسکی۔ واپسی کے بعد بھی پنیل نے کلکتہ ہائی کورٹ کو اپنے فیصلے کی کاپیاں دینے میں لیت و لعل سے کام لیا۔ اسے معلوم تھا جس وقت بھی فیصلے کی کاپی ہائی کورٹ میں پہنچی تو قاتلوں کی پشت پناہی کرنے والا افسررہا ہو جائے گا۔ چنانچہ اس نے کاغذ اور سٹاف کی کمی کا بہانا لگایا۔ تین ہفتے اسی طرح گزر گئے۔ ہائی کورٹ میں پوری روداد سنائی گئی تو عدالت نے پینل کو معطل کر دیا۔ مگر بعد میں انہوں نے سوچا کہ پینل کا قصور کیا ہے۔ اس نے تو ایک غریب آدمی کو انصاف مہیا کیا ہے۔ زبان کی سختی پر کیا سزا ملنی چاہئے؟ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، کیا کریں۔ دو ماہ اسی سوچ بچار میں گزر گئے۔ بالآخر پینل نے اسے شش و پنج سے نکالا اور چھٹی لیے بغیر برطانیہ واپس چلا گیا۔ اس طرح اس نے حکومت کو بلااجازت جانے پر برطرف کرنے کا اختیار دے دیا۔ پینل برطرف ہو گیا‘ اسکی پنشن ضبط کر لی گئی۔ اسے اپنی بے داغ سروس کے باوجود ایک دھیلہ بھی نہ ملا لیکن جب وہ برطانیہ جا رہا تھا تو شہر کے لوگ اسے سلام اور الوداع کہنے کیلئے گھروں سے نکل آئے۔انکی آنکھیں نم تھیں۔ یہ وہ اثاثہ تھا جو پینل اپنے ساتھ لے کر جا رہا تھا۔

کیا ہمارے ہاں بھی ایسے جج ہیں؟اس کا جواب کیا ہوسکتا ہے؟؟ہاں کم ہی سہی ضرور ہیں۔اگر ہر جج ایسا ہوجائے تومعاشرہ کہاں سے کہاں پہنچ سکتا ہے۔آگے چلنے سے قبل یہ واقعہ بھی ملاحظہ کر لیجئے۔ ’’یہ قتل سے انکار کرتا ہے،کوئی گواہ بھی نہیں ہے‘ اسے چھوڑ دو‘‘ جج صاحب کے اس حکم پر بھری عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ پولیس والوں نے ملزم کی ہتھکڑی کھول دی۔ وہ اب آزاد تھا۔ اس نے جج صاحب کو سلام کیا اور الٹے پائوں کمرہ عدالت سے نکلنے کیلئے دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ دروازرے تک ابھی پہنچا نہیں تھا کہ جج صاحب کی آواز آئی۔ ’’ٹھہرو‘ ذرا واپس آئو‘‘ نوجوان واپس آیا تو جج نے ایک سائیڈ پر پڑے ٹیبل کی طرف اشارہ کیا جس پر چند چھریاں رکھی تھیں۔ جج صاحب نے کہا ان میں سے اپنی چھری پہچان کر لے جاؤ۔واقعہ میانوالی کا ہے۔ جج عبدالمجید ٹوانہ تھے جو بعد میں لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے۔ قتل سربازار ہوا تھا۔ ملزم پارٹی طاقتور تھی۔خوف کے مارے کوئی گواہی پر تیار نہیں تھا۔ جج صاحب شہادتوں کیمطابق فیصلہ کرنے پر مجبور تھے۔ جج صاحب معاملے کی تہہ تک پہنچنے کیلئے بھیس بدل کر وقوعہ کے علاقے میں گئے۔ ان کو یقین ہو گیا کہ قاتل یہی نوجوان ہے۔ اگلی پیشی پر ٹوانہ صاحب نے اسے چھوڑنے کو کہا۔ اعتراف جرم کرانے کا ایک طریقہ یا Tact تھا۔ کم فہم نوجوان نے پانچ چھ میں سے اپنی چھری اٹھا لی۔ اعتراف جرم کیلئے یہی کافی تھا۔ اسے سیشن کورٹ نے سزائے موت سنائی۔ جج صاحب نے فیصلے میں سارا واقعہ تحریر کر دیا جس کی بنا پر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے سزا بحال رکھی اور قاتل کو پھانسی کے پھندے سے جھولنا پڑا۔ (جاری)

متعلقہ خبریں