افغانستان میں مختلف جرائم کی مرتکب نوجوان عورتوں کو جیلوں میں نہیں رکھا جاتا بلکہ ۔۔۔۔۔ انہیں کہاں بھیج دیا جاتا ہے؟ پڑھیے اس رپورٹ میں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 11, 2016 | 16:57 شام

کابل(ویب ڈیسک)افغانستان میں خواتین کو مختلف جرائم پر  روایتی اور قدیم طریقہ سے سزا دینے کا رجحان اب بھی موجود ہے  اور ایسا صرف دور دراز علاقوں میں حکومتی رٹ قائم نہ ہونے اور سرکاری  اہلکاروں کا بھی ان روایتی طریقوں کے لیے ہمدردی رکھنے کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ  قبائلی سرداروں اور  بااثر افراد  کے گھروں   میں خواتین کے عقوبت خانے قائم ہیں  جہاں سزا بھگتنے والی عورتوں کو انتہائی نا مساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ امر واقعہ ہے کہ افغانستان میں ہزاروں خواتین کو اُن کے جرائم کے تناظر میں سزائیں مروجہ قانونی نظام کو نظر انداز کرتے ہوئے مقامی کونسل یا قصبات و دیہات کے کسی سردار نے تجویز کی تھیں۔ کابل حکومت دوردراز کے علاقوں میں ملکی عدالتی نظام نافذ کرنے کی کوشش ضرور کر رہی ہے لیکن ابھی کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح خواتین کو بنیادی حقوق سے محرومی کا بھی سامنا ہے۔

پکتیکا کو افغانستان کے غریب اور قدامت پسند صوبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی سرحدیں پاکستان کے ساتھ بھی جڑی ہیں۔ اس صوبے میں خواتین کے لیے ابھی تک کوئی جیل حکومتی نگرانی میں قائم نہیں کی گئی ہے۔ دوسری جانب یہ بھی اہم ہے کہ افغانستان کی تمام جیلیں گنجائش سے ز یادہ قیدیوں کے ساتھ بھری ہوئی ہیں اور ان حالات پر انسانی حقوق کے ملکی کارکن اور غیر ملکی ادارے ناقدانہ بیانات دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔خواتین کو دی جانے والی سزاؤں کی ایک مثال جنوب مشرقی صوبے پکتیکا کی فوزیہ کی ہے۔ اس کو گھر سے فرار اور زنا کے جرم میں اٹھارہ ماہ کی سزائے قید سنائی گئی۔ اُس کے لیے زیادہ پریشانی کی بات یہ ثابت ہوئی کہ اُسے اپنی قید کی مدت کسی حکومتی جیل کی بجائے ایک قبائلی سردار کے مکان پر بغیر تنخواہ کے بطور ایک نوکرانی کے گزارنا پڑ رہی ہے۔

ایک قبائلی سردار کے گھر پر گزرنے والی قید کے حوالے سے فوزیہ نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ پکتیکا صوبے کے دارالحکومت شرنہ میں قید کے اٹھارہ مہینوں کا کچھ عرصہ وہ ایک غلام کی طرح گزار  چکی ہے اور اُس کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اُس کو شدید بیماری کی وجہ سے مختصر عرصے کے لیے علاج کی خاطر عارضی رہائی دی گئی ہے۔ فوزنہ نے روئٹرز کو اُس قبائلی سردار کا نام بتانے سے گریز کیا، جس کے گھر پر وہ اپنی قید بھگت کر رہی ہے۔

 

اُس نے اپنا اصل نام بھی مخفی رکھا اور عرفیت کا ہی حوالہ دے کر نیوز ایجنسی کے نمائندے سے گفتگو کی۔ اُس نے انتہائی درد سے کہا کہ جو کچھ اُسے برداشت کرنا پڑا ہے، خدا کسی اور عورت کو ایسے حالات سے دوچار نہ کرے۔

رواں برس اپریل میں امریکی وزارت خارجہ کی انسانی حقوق سے متعلق ایک رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ افغانستان میں باقاعدہ قانونی نظام کو دیہی علاقوں میں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور قبائلی افراد اپنی منشا و مرضی سے فیصلے کرتے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق افغانستان میں پچانوے فیصد لڑکیاں اور پچاس فیصد خواتین کو اخلاقی جرائم کے تحت سزاؤں کا سامنا ہے۔ ان میں گھر سے بھاگ جانے یا کسی مرد کے ساتھ ہم بستری خاص طور پر اہم ہیں۔