ایڈز۔۔۔اب موت نہیں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 20, 2021 | 17:24 شام

گزشتہ روز ایڈز کے حوالے سے ایک  پروگرام میں شرکت کا اتفاق ہوا۔جس نے بہت سے خدشات اور ابہام دور کردئیے۔اس ورکشاپ کا اہتمام کس نے کیا اس میں کون شامل تھا۔ اس کی اتنی اہمیت نہیں جتنی اس مرض کے بارے میں پھیلائے گئے غیر حقیقی خدشات دور کرنے پر بات ہوئی۔سنتے آئے تھے ایڈز ایک موذی مرض ہے۔یہ منفی رویوں سے پھیلتا ہے۔ادھر کوئی بھی شخص اس میں مبتلا ہوا اُدھر اس کی موت کی طرف بڑھنے کی رفتار راکٹ ومیزائل کی

طرح تیز ہوگئی۔ اسdeے متعدی یعنی چھوت چھات کا مرض قرار دے کر مریض کو پرائے تو پرائے اپنے بھی اچھوت سمجھنے لگ جاتے۔میں اس ورکشاپ میں بادل نخواستہ ہی گیا گیا تھا۔وقت 12سے ایک بجے بتایا گیا تھا۔مجھے بھیجے گئے میسج اور فون پر بتایا گیا کہ اس پروگرام میں صوبائی وزیرڈاکٹر یاسمین راشد،مشیر فردوس عاشق اعوان اور سیکرٹری ہیلتھ کیپٹن عثمان آئیںگے۔محض مؤخرالذکر مہمان ہی آئے۔اس پروگرام میں شرکت نہ کرتا توپچھتاوہ رہتا۔اس میں میڈیا کے کئی بڑے بڑے نام شریک تھے۔میرے سوا میزبان سب کو جانتے تھے۔

ہمارا فیلڈ میں جانا آنا کم ہی ہوتاہے۔ اس لئے  میرا اُن سے اور اُنکا مجھ سے  ناواقف ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔وہاں جاکر پتا چلا ،یہ تین روزہ ورکشاپ تھی۔میںچائے پینے کے بعد گیا اور کھانا کھانے سے قبل چلا آیا۔

عمومی تصور ہے کہ ایڈز کے حصار میں آنے والا شخص دنوں میں اسے توڑ کے موت کی وادی میں چلا جاتا ہے۔یہ تصور اس وقت باطل ہوگیا جب وہاں ایک نوجوان کو مائیک دیا گیا اور اس نے اپنی کہانی سنائی جو اتنی طویل نہیں تھی۔اسے پورے  22سال قبل 1998میں یہ مسئلہ ہوا۔یہ عام لوگوں کی طرح زندگی گزار رہا ہے۔اس نے شادی بھی کی۔اس کی دو بیٹیاں ہیں۔اس نوجوان کا نام عاصم اشرف ہے جس کے کچھ انٹرویوز بھی شائع اور نشر ہو چکے ہیں۔اسے معاشرے کے ناروا رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم کچھ لوگوں نے اس کی  اوراس نے اپنے جیسے افراد کی مدد کی۔اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:

 عاصم نے حج کے لیے درخواست دے رکھی تھی جس کے لیے میڈیکل ضروری تھا۔اسی سلسلے میں جب وہ راولپنڈی میں گلف میڈیکل سینٹر میں اپنے بلڈ ٹیسٹ کی رپورٹ وصول کرنے گیاتو  ڈاکٹر نے بتایا، آپ کو  خطرناک بیماری ہے۔اس نے مسکرا کر پوچھا کی کون سی بیماری ہے؟ ڈاکٹر نے کہا۔۔ ’ ایڈز ‘۔ عاصم کی مسکراہٹ یک دم غائب ہوگئی۔ اس کے ذہن میں وہ تمام اشتہارات گردش کر نے لگے جن میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ایڈز لاعلاج ہے ،ایڈز موت ہے۔ اس وقت ڈاکٹر کے سامنے بیٹھے عاصم کو ایسا ہی لگ رہا تھا جیسے موت اس کے پیچھے کھڑی ہے اور اس کے جسم میں گنتی کی چند سانسیں باقی ہیں۔

میڈیکل سنٹر سے گھر تک پہنچنے تک کا راستہ بڑی مشکل سے طے ہوا ، گھر جا کر اس نے اپنے آپ کو کمرے میں بند کرلیا اور گھروالوں کو کہہ دیا کہ اس کے قریب تک نہ آئیں۔ ڈاکٹر کے کہنے پر اس کے برتن اورکپڑے بھی علیحدہ کردئیے گئے ، اپنی کزن سے پسند سے کی گئی منگنی تک ٹوٹ گئی۔اس کے کزنز نے، جو ایک زمانے میں اس کے بغیر ایک لقمہ بھی نہ لیتے تھے ، اب ساتھ کھانا تو دور اٹھنا بیٹھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔عاصم اور اس کے کزن مصری شاہ  لاہورمیں میڈیکل کے پرانے استعمال شدہ سامان (سکریپ) کے گودام میں کام کرتے تھے۔ جہاں ہسپتالوں اور کلینکس سے مختلف معیار کا ویسٹ آتا تھا جس میں سے اچھی کوالٹی کے سامان کو الگ کرکے اس سے پلاسٹک کے برتن بنائے جاتے تھے۔عاصم اس جگہ متاثرہ اورا ستعمال شدہ سرنجز کو الگ کرتا تھا۔کام کے دوران وہ ایک مرتبہ استعمال شدہ سامان پر بھی گرا اور اسی لمحے ایک سوئی اس کی کمر میں کافی زورسے چبھی۔۔ایسا کئی بار ہوا ، عاصم کا کہنا ہے ، ہمیں اس استعمال شدہ سامان سے لگنے والی بیماریوں کا بالکل اندازہ نہیں تھا۔‘‘

تشخیص کے فوراًبعد عاصم کی ملاقات گرین ٹاؤن کے نذیر مسیح سے ہوئی جو نیولائٹ ایڈز سنٹر کے نام سے ایک ادارہ چلارہاتھا۔نذیر خود بھی ایچ آئی وی پازیٹو تھا۔

اس جگہ پر ایچ آئی وی کے 6 مریض پہلے سے ہی موجود تھے۔ عاصم ان لوگوں کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا کیونکہ یہ مرد اور خواتین بہت بہادری سے اپنی قسمت سے لڑ رہی تھیں۔وہ اور نذیر مسیح گھنٹوں مساجد ، بازاروں ،گرجاگھروں اور یونیورسٹیز میں اس بیماری سے متعلق آگاہی دیتے تھے۔نذیر میسح کے ساتھ تین سال کام کرنے کے بعد عاصم کو ایک معجزانہ دوا کا علم ہوا جسے مغربی دنیا میں’ اے آر وی‘ کہتے ہیں۔لیکن یہ دوا پاکستان میں دستیاب نہیں تھی ، لہذا انہوں نے دوا کے لیے بھارت کے ایک معالج ڈاکٹر لال سے رابطہ کیا۔عاصم نے اپنی اور دیگر ساتھیوں کی رپورٹس ڈاکٹر لال کو بھیجیں جس کے بعد وہ ان کا علاج کرنے پر رضامند ہوگئے۔ بعدازاں ایچ آئی وی کی ادویات خریدنے کے لیے فنڈ زجمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور ایک مریض کے علاج کے لیے تین لاکھ روپے کا بندوبست کیا۔اس رقم کی مدد سے ڈاکٹر لال نے انہیں ایچ آئی وی کی ادویات ارسا ل کیں۔دوا کا استعمال جاری تھا لیکن عاصم اور اس کے ساتھیوں کی طبیعت میں کوئی بہتری نہیں آرہی تھی ، اسے اور اسکے دو مریض ساتھیوں کو کوئی ہسپتال ایڈمٹ کرنے پر راضی نہ تھا ،آخر کا ر انہیں میو ہسپتال لاہور میں داخل کرلیا گیا۔

’’ ہسپتال انتظامیہ نے ان کے بیڈز پر بڑے بڑے چارٹ پیپرز چسپاں کردئیے جس پر لکھ دیا گیا کہ یہ ایڈز کے مریض ہیں اور ہمیں عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ۔اس وقت ہمارے ڈاکٹر کا یہ حال تھا کہ وہ ہم سے7فٹ دور ماسک پہن کر معائنہ کرتا حتیٰ کہ ہمیں چھونے سے بھی گریز کیاجاتا۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا حالت مزید خراب ہورہی تھی اور نچلا حصہ کام کرنا چھوڑ چکا تھا۔ قوت مدافعت میں کمی سے مزید دوسری بیماریاں گھیر رہی تھیں۔اس کا سی ڈی لیول صرف 34 رہ گیا تھا لہذا ہسپتال والوں نے اسے گھر واپس بھیج دیا۔

اس وقت عاصم کا رابطہ دوبارہ ڈاکٹر لال سے بحال ہوا اور اس نے پھر سے اے آر وی کی دوا لینی شروع کردی کیونکہ بھارتی ڈاکٹر کو یقین ہوچکا تھا کہ وہ بہتر ہوسکتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔آہستہ آہستہ دوا کے استعمال سے وائرل لوڈ میں کمی واقع ہوئی اور عاصم کی بلڈ رپورٹس نارمل ہوگئیں۔اس نے آگاہی کے کام کا دوبارہ سلسلہ شروع کیا ، ا گرچہ وہ ایک بار پھر سے صحت یابی کی طرف لوٹا تھا لیکن یہ معاشرہ اسے نارمل فرد کی حیثیت سے قبول کرنے پر آمادہ نہ تھا۔وہ کہتا ہے کہ ’’ آگاہی مہم کے سلسلے میں ایک جگہ کا دورہ کیا اور جیسے لوگوں کو معلوم ہوا کہ میں بھی ایک ایچ آئی وی مریض ہوں توانہوں نے ہمیں دھکے دے کر وہاں سے نکال دیا۔‘‘مجھے حیرت ہے کہ لوگوں کو ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ یہ بیماری کسی غلط کام سے ہی نہیں پھیلتی بلکہ حجام ، دندان سازی کے آلات اور ناک، کان چھدوانے سے بھی منتقل ہوسکتی ہے۔ مرض کے ابتدائی دنوں میں لوگ اسے تنقید کا نشانہ بناتے ،اس کی ہنسی اڑاتے کہ یہ وہ سزا ہے جو اسے اسکے گناہوں کی وجہ سے ملی ہے۔یہ کہانی صرف ایک عاصم کی ہی نہیں ہے بلکہ یہ کہانی پاکستان میں بسنے والے ہر اس ایچ آئی وی مریض کی ہے جسے ان تمام مشکلات کو سہنا پڑتا ہے۔عاصم  شادی شد ہ ہے اوراس کے دوبچے ہیں ، اس کی بیوی اور دوبیٹیاں ایچ آئی وی نیگیٹو ہیں۔وہ ایک ادارے میں ایڈز کوارڈینیٹر کے طور پر کام کررہا ہے۔وہ یہاں نئے آنے والے مریضوں کو اس مرض کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے۔ میں نئے آنے والے مریضوں کو زندگی کے خوشگوار پہلوؤں کے بارے میں بتانے کی کوشش کرتا ہوں اورانہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہ بیماری ان کی موت کا سبب نہیں بنے گی اوروہ اس بیماری کے ساتھ ایک نارمل زندگی گزار سکتے ہیں ‘‘۔

اس شخص کو" امید کا پیغام بر" Messanger of Hope کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ورکشاپ  کے اُ س حصے میں زور اس پر رہا کہ امید کا پیغام دنیا اور خاص طور پرمریضوں اور انکے لواحقین تک کیسے پہنچایا جائے۔بلا شبہ وہ میڈیا ہی ہے اور اب تو سوشل میڈیا بھی فعال کردار ادا کررہا ہے اور کرسکتا ہے۔ایڈز کے صرف بیس فیصد مریض ہی سامنے آتے ہیں باقی اس بیماری کو چھپاتے چھپاتے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ان  تک امید کا پیغام پہنچانے اور مریضوں سے نفرت کرنے والوں کو بتانے کی ضرورت ہے۔یہ مرض اب مہلک نہیں رہا،قابل علاج ہے۔اور ایک سے دوسرے کو اس کے قریب جانے سے نہیں لگتا۔میڈیا کی جب بات ہوتی ہے تومیڈیا کے اُ س حصے کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جو کسی بھی حوالے سے متحرک کردار ادا کرسکتا ہے۔وہ ہر شہر ہر قصبے اور اب تو گائوں گائوں بھی نمائندوں کی صورت میں موجود ہے ۔ میڈیا کا یہ گراس روٹ ہے۔اس کے ذریعے آسانی سے کوئی بھی بات عام شہری تک منتقل کی جاسکتی ہے۔ اس میڈیا کواستعمال کیسے کیاجائے یہ اقوام متحدہ، حکومتوں اور متعلقہ اداروں کے سوچنے کا کام ہے۔