2019 ,اکتوبر 16
علاؤ الدین خلجی محل میں اکیلا بیٹھا گہری سوچ میں گم تھا. کسی کو بھی ہمت نہیں ھو رہی تھی کہ بادشاہ سے پوچھ سکے کہ کیا مسئلہ ھے اتنی دیر میں خدام نے بادشاہ کو اطلاع دی کہ قاضی حمید الدین ملنا چاہتے ہیں
قاضی حمید الدین بادشاہ کا مشیرِ خاص اور حد درجہ لائق انسان تھا جب کمرے میں داخل ھوا اور دیکھا کہ بادشاہ غور و فکر میں مصروف ھے تو اس سے رہا نہ گیا
علاءالدین خلجی سے پوچھنے لگا کہ بادشاہ سلامت آپ کیا سوچ رہے ہیں علاؤالدین خلجی کا جواب تھا کہ
" رعایا کے متعلق پریشان ہوں اور ان کی فلاح وبہبود کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں."
پھر خود ہی کہنے لگا کہ
" اپنی ساری دولت لوگوں میں تقسیم کردوں تو کیسا رہیگا "
قاضی حمیدالدین کہنے لگا کہ
یہ ایک راست اقدام ہے مگر اس سے عوام الناس کو تو کوئی مستقل فائدہ نہیں ہوگا
علاؤالدین کہنے لگا کہ
اسے خدا نے لوگوں کی بہتری اور حفاظت کے لیے بادشاہ بنایا ہے اگر وہ ان کی زندگی بہتر نہ کر سکا تو حقِ حکمرانی ادا نہیں ہوتا
پھر کہنے لگا
" حمید الدین اگر میں اپنی سلطنت میں مہنگائی ختم کر دوں اور بنیادی اشیاء ہر ایک کے لیے دستیاب کر ڈالوں تو اس کا فائدہ ہر ایک کو ھو گا"
اور پھر.......!
بادشاہ نے فوراً اپنے فیصلے پر عملدرآمد کر دیا
ضروری استعمال کی اشیاء کی اتنی"کم قیمت" کا نظام پورے ہندوستان میں وجود میں لایا گیا.کہ جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی یہ تیرھویں صدی عیسوی کی بات ھے یعنی آج سے ٹھیک آٹھ سوسال پہلے کی.
علاؤالدین خلجی نے قیمتوں پرکنٹرول کرنے کے لیے چار طرح کی منڈیاں بنائیں.
سب سے پہلے تو ہر شہر میں ایک"بڑی منڈی" بنائی جس میں ہر طرح کا اناج موجود تھا
پھر ھر بستی میں سرکاری دکانیں بنوائیں جو درج شدہ نرخ پر عوام کو کم قیمت پر اشیاء خور و نوش مہیا کرتی تھیں
اس کے علاوہ سرائے عدل بنوائی .جس میں غیر ملکی اشیاء اور مقامی اشیاء بہتات میں مہیا کی جاتی تھیں جانوروں کی خرید و فروخت کے لیے مارکیٹیں مختص کی گئیں.
چوتھی طرح کی دکانیں بڑے بڑے بازار کی صورت میں تھیں.جن میں ھر وہ چیز ملتی تھی جو بقیہ منڈیوں میں موجود نہیں ہوتی تھیں۔
اگر دیکھا جائے تو پہلا حکومتی اقدام یہ تھا کہ ہر طرح کی اشیاء بہتات میں عام لوگوں کے لیے دستیاب ہوں.
دوسرا حکومتی قدم تھا کہ تمام اشیاء کی قیمتیں مقرر کی جائیں چنانچہ پورے ملک کے لیے یکساں نرخوں کا نظام ترتیب دیا گیا۔
یہ انتہائی مشکل کام تھا۔ مگر بادشاہ کے حکم پر اس کے افسروں نے نا ممکن کو ممکن کر ڈالا
تمام اشیاء جو عام آدمی استعمال کر سکتا تھا اس کے سرکاری نرخ مقرر کر دیئے گئے
ایک من گندم کی قیمت 7.5 جتال رکھی گئی
دالوں کی قیمت پانچ جتال مقرر ھوئی
ایک من چاول کی قیمت بھی پانچ جتال مقرر ہوئی آپ حیران ہونگے کہ اس نے ریشمی کپڑے سے لے کر کپاس تک کی قیمت مقرر کر ڈالی۔
بالکل اسی طرح جانوروں کی قیمت مقرر کی گئی۔ اچھا گھوڑا سو سے ایک سوبیس ٹنکے کا تھا
خچر کی قیمت دس سے پچیس ٹنکے مقرر ہوئی
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علاؤالدین خلجی نے کمال محنت سے پورے برصغیر میں ہر چیز کے سرکاری نرخ مقرر کردیئے. جبکہ اس وقت کا برصغیر آج کے کئی ملکوں کو اپنے اندر سموئے ھوئے تھا۔
جیسے موجودہ بنگلہ دیش، موجودہ افغانستان کا بیشتر حصہ آج کا پاکستان و ہندوستان ، نیپال اور بھوٹان سب اس میں شامل تھے بادشاہ نے اب اپنے احکامات پر عملدر آمد کے لیے نیا محکمہ تخلیق کیا
ملک قبول الغ خان کو تمام مارکیٹوں کا انچارج بنایا گیا
اس کے نائب معتمد بنائے گئے اسے احکامات کی تکمیل کے لیے اہلکار دیئے گئے انھیں سرکاری احکامات کی تعمیل کا کام سونپ دیا گیا۔
اس کے علاوہ جاسوسی کا نظام بنایا گیا جو بادشاہ کو پورے برصغیر میں اشیاء کی قیمتوں کے متعلق ہر وقت مطلع رکھتا تھا۔ بادشاہ کو پتہ تھا کہ جب تک سزا و جزا کا مؤثر نظام نہیں بنایا جائیگا اس کے حکم صرف اور صرف کاغذوں پر رہیں گے. جیسے کہ ہمارے حکمرانوں اور عدالتوں کے ہیں.
لہٰذا اس نے مارکیٹوں میں عمال مقرر کیے جو اشیاء کے نرخ کے علاوہ تولنے کے نظام پر بھی کڑی نظر رکھتے تھے جو تاجر یہ دوکاندار سرکاری نرخ سے اوپر فروخت کرتا تھا
عمال اس کا تمام مال ضبط کرلیتے تھے اور اہم بات یہ کہ اسکو اسی منڈی میں سب کے سامنے اسی وقت عبرتناک سزادی جاتی تھی یعنی یہ نہیں تھا کہ پہلے اس شخص کو گرفتار کیا جائے۔ پھر جیل برد کر دیا جائے اور پھر طویل مقدمہ بازی شروع ھو جائے.
بادشاہ سمجھتا تھا کہ اگرملزم کو فوری سزا نہ دی گئی تو قیمتوں کا سارا نظام برباد ھو جا ئیگا
ذخیرہ اندوزی آج کی طرح اس وقت بھی بہت تھی بادشاہ نے تمام تاجروں کے کوائف جمع کیے ان کا جائز منافع ترتیب دیا اورحکم دیا کہ کسی قسم کی ذخیرہ اندوزی کے بغیر تمام مال پورے ملک میں یکساں قیمتوں پر مہیا کیا جائے اگر کوئی بھی شخص ذخیرہ اندوزی میں ملوث پایا جاتا تھا تو نہ صرف اسے ,بلکہ ا س کے خاندان، ملازمین اور کاروبار سے منسلک تمام لوگوں کو کڑی سزا دی جاتی تھی۔
بادشاہ پورے ملک سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹیں منگواتا تھا اور انھیں خود پڑھتا تھا۔
اور ہاں..... ایک انتہائی اہم بات
علاؤالدین خلجی اَن پڑھ تھا۔ مگر اس نے رپورٹیں پڑھنے کے لیے لکھنا اور پڑھنا سیکھا۔ وہ تین مختلف ذرائع سے خبریں منگواتا تھا۔ اگر کوئی عمال بدعنوانی میں ملوث پایا جائے تو اس کی سزا بھی سخت تھی۔
اس موثر نظام کا اس قدر مثبت اثر پڑا کہ عوام کے اکثر مسائل حل ہوگئے۔ بادشاہ کی اس قدر عزت و حرمت بڑھی کہ فوت ہونے کے بعد، عوام اس کے مزار پر جوق درجوق جاتے تھے۔ نصیرالدین تو یہاں تک لکھتا ھے کہ اشیاء اس قدر سستی تھیں کہ فقیر ملک سے ختم ھو گئے. اور وہ اچھے کپڑے پہنے نظر آتے تھے۔ تھوڑی سی حیثیت والے لوگ بھی اشیاء اور کپڑے خرید کر عام لوگوں میں مفت تقسیم کرتے نظر آتے تھے۔
اس حیرت انگیز نظام کا خالق برصغیر کو وہ نظام اور عملی مثال دے گیا، جو اس کے دور میں کہیں نظر نہیں آتا
"محترم خلیل رحمان صاحب کی تحریر"
گاندھی نے جواہر لال نہرو سے ایکبار کہا تھا.
"تم کھانے پینے کی اشیاء اور سینما کا ٹکٹ سستا رکھنا. تمہاری حکومت کو کوئی ہلا نہیں سکے گا."
کانگریس نے چالیس سال گاندھی کے اس قول پر عمل کیا. اور اسکی حکومت قائم رہی. اور جب بعد میں اسی کانگریس نے "شائننگ انڈیا" کا نعرہ قوم کو دیا. غیر ملکی قرضے ملک کو ترقی دینے کیلیے بہتات میں لیے گئے. تو نتیجہ اسکے الٹ آیا.
کانگریس جس کا اقتدار چالیس سال پر محیط تھا. وہ الیکشن ہار گئی. اس شکست کی بنیادی وجہ کیا ہوتی ہے ؟
یہ ہوتی ہے. کہ جب قرضے لیے جاتے ہیں. تو مالیاتی ادارے یہ قرضے سخت شرائط پر ہی دیتے ہیں. کسی کو بھی عزت سے پلیٹ میں رکھکر نہیں دے دئیے جاتے. اور نتیجے میں ان قرضوں کا سود ادا کرنے کیلیے مہنگائی اور مذید ٹیکسیز جیسے اقدامات کرنے پڑتے ہیں. اس مہنگائی کی وجہ سے سب سے زیادہ جو طبقات متاثر ہوتے ہیں. وہ غریب اور متوسط طبقات ہوتے ہیں. جنکو کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے .
یہ طبقات اگر رزقِ حلال پر گزارہ کر رہے ہوتے ہیں. تو یہ کسی عیاشی کے متحمل نہیں ہوتے. کیونکہ انکی زندگیاں دو وقت کی روٹی, گیس بجلی کے بل, اسکول کی فیس, اور عزیز رشتہ داروں یہ اڑوس پڑوس میں اپنی عزت بنائے رکھنے کے دائرے سے باہر ہی نہیں نکل پاتی ہیں. انکو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی ہے. کہ کون سا پل, کونسی سڑک, کونسی شاہراہ, نہ ہی محنت طلب زندگی گزارنے والوں کے پاس یہ ساری باتیں سوچنے کیلیے وقت ہوتا ہے.
آج پاکستان میں بھی کچھ عقل کے اندھے فرمارہے ہیں. کہ
"مہنگائی کو چھوڑو, یہ پہلی حکومت ہے. جس میں امیروں کی چیخیں نکل رہی ہیں"
کوئی بتائیگا کہ کون سے امیروں کی چیخیں نکل رہی ہیں؟
انکی جو جیلوں میں بیٹھے مغز نہاری, سری پائے, اور آلو گوشت تناوُل فرمارہے ہیں.
جنکے متعلق سننے میں آرہا ہے.کہ بڑی شخصیات انکے پاس جارہی ہیں. اور وہ جواباً کہ رہے ہیں کہ اب نہ ہی ڈیل ہوگی. اور نہ ڈھیل ہوگی.
یہ عقل سے پیدل, انکی چیخیں سننا چاہتے ہیں. جن سے کوئی اونچی آواز میں بات نہیں کرسکتا.
جس معاشرے میں مہنگائی بڑھتی ہے. وہاں جرائم بڑھتے ہیں. بھوک, غربت, ضمیر فروشی, مارا ماری, لوٹ مار پیدا ہوتی ہیں. امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا ہے. جو کہ معاشرے میں بغاوت, نفسا نفسی, طبقاتی کشمکش , اور نفرتوں کو جنم دیتا ہے.
امیروں کی چیخیں سننے کے خواہشمند زرا جائیں. اور کسی دیہاڑی دار مزدور کی چیخیں سنیں, اس معمولی ملازم کی چیخیں سنیں. جسکی آمدنی قلیل اور خرچہ زیادہ ہے. اس شخص کی چیخیں سنیں جو چند روپے بچانے کیلیے پیدل چلتا ہے. ان لوگوں کی چیخیں اور آنسو دیکھیں. جو معمولی مکان میں رہتے ہیں. اور اگر انکا بل ہوشربا آجائے. اس معمولی اوقات والے انسان کی چیخیں سنیں. جو مہنگائی کی وجہ سے اپنا علاج معالجہ نہیں کرواسکتا, انکی چیخیں سنیں. جو دودھ والے سے بیس روپے کا دودھ مانگتے ہیں. تو وہ دودھ چُلو بھر بھی نہیں آتا.