امام علیؓ ابن طالب

2017 ,جون 17



لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/ آغا سید حامد علی شاہ موسوی): تاریخ اسلام شہادتوں سے بھری پڑی ہے لیکن جیسی شہادت کا منظر مسجد کوفہ نے خیر البشر محمد مصطفی ؐ کی محبوب ہستی حضرت علیؓ ابن ابی طالب کے سر اقدس پر ضرب لگنے کے بعد دیکھا اس کی مثال تاریخ انسانیت پیش کرنے سے قاصر ہے ۔حضرت علیؓ اپنی ولادت سے رسول ؐکی رحلت تک آزمائش کے ہر گھڑی جنگ کے ہر میدان اور امور مملکت میںہادی برحق ؐ محمد ؐکے ساتھ ساتھ رہے۔ حضرت علی ؓنے 13رجب المرجب 30عام الفیل کو بیت اللہ میں ورود فرمایاوالد ماجد رسول خدؐا کے شفیق و نگہبان چچا ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم اور والدہ گرامی فاطمہ بنت اسد بن ہاشم تھیں۔مورخ و عالم ابن صباغ مالکی کے مطابق ’’حضرت علیؓ سے پہلے کسی کی بھی خانہ کعبہ میں ولادت نہیں ہوئی اور یہ وہ فضیلت ہے جو خدا نے ان کیلئے مخصوص فرمائی تاکہ لوگوں پر آپ کی جلالت ،عظمت اور مرتبت کو ظاہر کرے اور آپ کے احترام کا اظہار ہو(فصول المہمہ ) علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں’’ حضرت علیؓ ابن ابی طالب پاک و پاکیزہ پیدا ہوئے آپ کی پیشانی کبھی کسی بت کے سامنے نہیں جھکی۔ان کے مناقب و فضائل حد و حساب سے باہر ہیں تین سو سے زائد آیات علی ؓابن ابی طالب کی شان میں نازل ہوئیں۔ جس علیؓ کے عدل کے بارے میں حضرت عمر بن خطابؓ نے گواہی دی کہ اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمرؓ ہلاک ہو جاتاجو علی ؓفاتح خیبر و خندق اور بدر و حنین تھے،ان کیلئے اللہ نے جبرائیل کے ہاتھوں غزوہ احد میں تلوار بھیج کر ندا دی ترجمہ: ذوالفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں اور علی ؓکے سوا کوئی مردنہیں ہے(ابن اثیر ،طبری )۔

جیسے نبی ؐ کی کفالت حضرت ابو طا لب نے کی تھی ویسے ہی علیؓ ابن ابی طا لب کی پرورش کا ذمہ رحمۃ للعالمینؐ و ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری ٰ ؓنے اپنے ذمہ لیا۔حضرت علیؓ ارشاد فرماتے ہیں"۔۔۔ تم جانتے ہو کہ رسول اللہؐکے نزدیک میرا کیا مرتبہ تھا اور آپؐ سے میری قرابت کس حد تک تھی۔ جب میں بچہ تھا رسول اللہؐمجھے اپنے ساتھ سلاتے اور مجھے اپنے سینے پرجگہ دیتے تھے اور مجھے اپنے بستر پر لٹاتے تھے؛ ، دہن مبارک میں چبا کر مجھے کھلایا کرتے تھے اور میں علیؓاس طرح آپؐ کے پیچھے چلتااور سفر و حضر میں اس طرح آپؐکے ساتھ رہتا تھا جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا ہے۔ رسول اللہؐہر روز اپنے اخلاق کا کوئی نمونہ میرے لئے بیا ن کردیتے تھے اور مجھے اس کی پیروی کا حکم دیتے تھے، ہر سال غار حراء میں خلوت اختیار کرتے تھے تو صرف میں آپؐ کو دیکھتا تھا اور میرے سوا کوئی آپؐکو نہیں دیکھتا تھا۔ جس زمانے میں سوائے اس گھر کے جس میں رسول اللہؐ اور خدیجہ کبریٰؓ تھے اسلام و ایمان کسی گھر میں داخل نہ ہوا تھا میں ان کے درمیان تیسرا فرد تھا۔"(سیرۃ النبویہ ابن ہشام ۔نہج البلاغہ)

حضرت علیؓ کو خاتون جنت حضرت فاطمۃ زہرا ؓکا سرتاج بننے کا اعزا ز حاصل ہواجس کے بیٹے جنت کے سردار کہلائے ۔ اور سب سے بڑھ کرنبی کریم ؐنے یہ شرف عطا فرمایا’’من کنت مولاہ فھذا علیؓ مولا‘‘ترجمہ:جس جس کا میں مولا اس اس کا علیؓ مولا ہے۔ حضرت عمار یاسر ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ ذی العشیرۃ کے موقع پر نبی کریم ؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا اے ابو تراب! کیا میں تمہیں دو بد بخت ترین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ہم سب نے عرض کی ہاں یا رسول اللہ ؐ! آپ ؐنے فرمایا پہلا شخص قوم ثمود کا احیمر تھا جس نے حضرت صالح ؑ کی اونٹنی کی ٹانگیں کاٹی تھیں اور دوسرا شخص وہ ہے جو اے علی ؓ تمہارے سرپر وار کرے گایہاں تک کہ تمہاری داڑھی خون سے تر ہو جائے گی (السنن کبریٰ امام نسائیؒ ،مسند احمد بن حنبل ؒ)حضرت ابو طفیل بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی ؓخلافت کی بیعت لے رہے تھے اس وقت بھی یہ ارشاد فرمایا تھا کہ میرے ساتھ نبی کریم ؐ کا عہد ہے کہ میری داڑھی کو میرے خون سے خضاب کیاجائے گا‘‘(طبقات کبری ٰ)

ماہ رمضان40 ہجری کی19ویں شب تھی جب مولائے کائنات حضرت علیؓ ابن بی طا لب اپنی بیٹی حضرت ام کلثوم ؓکے یہاں افطارکیا افطار کے بعد شب بھر عبادت میں مصروف رہے اور بار بار آسمان کی طرف دیکھتے اور فرماتے واللہ یہ وہی شب ہے جس کی رسول اکرم ؐ نے خبر دی تھی ۔جب نما ز صبح کیلئے مسجد کوفہ میں جانے لگے تو بطخوں نے راستہ روکا اور اپنی زبان میں نوحہ پڑھنے لگیں لیکن آپ رسول اکرم ؐ کی پیش گوئی کو یاد کرتے بطخوں کی چیخ و پکار میں اپنا دامن چھڑا کر مسجد کی جانب چل پڑے ۔نماز شروع کی اور سجدہ خالق میں سر جھکایاتو ابن ملجم نے سر اقدس پر وار کیا۔

21ویں شب ِرمضان کو علیؓ ابن ابی طالب درجہ شہادت پر فائز ہوئے ۔ مورخین نے حضرت علیؓ کی شہادت کے بارے میں یہ فیصلہ دیا کہ علیؓ ابن ابی طالب کو شدت عدالت کی وجہ سے شہید کر دیا گیا۔ کیونکہ حضرت علیؓ ہی وہ ذات تھی جنہیں رسول خداؐ نے سب سے بہترین انصاف کرنے والا قرار دیا تھا۔ ضربت کے بعد اپنے فرزند اکبر حضرت امام حسن المجتبیٰؓ اورتمام خاندان کو حضرت علی ؓنے یہ وصیت فرمائی کہ میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا ،دنیا کے خواہشمند نہ ہونا اگرچہ وہ تمہارے پیچھے لگے اورجو کہنا حق کیلئے کہنااور جو کرناثواب کیلئے کرنا ،ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہنا۔ اپنے معاملات درست اور آپس کے تعلقات سلجھائے رکھنا کیونکہ میں نے تمہارے نانارسول اللہ ؐ کو فرماتے سنا ہے کہ آپس کی کشیدگیوں کو مٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے۔نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے کبھی ہاتھ نہ اٹھانا ورنہ بد کردار تم پر مسلط ہو جائیں گے ۔پھر دعا مانگو گے تو قبول نہ ہوگی۔ اے عبد المطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم ’امیر المومنین قتل ہوگئے‘ کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کردو ۔دیکھواگر میں اس ضرب سے شہید ہو جاؤں تومیرے بدلے صرف میرا قاتل قتل کیا جائے اور اسے ایک ضرب کے بدلے ایک ہی ضرب لگانا ۔

شہادت کے بعد خلافت راشدہ کے منصب پر فائز ہونے والے نواسہ رسول حضرت امام حسنؓ نے حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓکے اصرار پر مسجد کوفہ میں تشریف لا کر جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کا ایک ایک لفظ عظمت حیدرکرار بیان کرتا ہے ۔21رمضان 40ہجری کو شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک 63سال تھی ۔آپ کے فرزندان نے کوفہ کے نزدیک غری کے قصبے میں آپ کی تدفین فرمائی جو آج کل نجف اشرف کے نام سے مشہور ہے ۔اور آج بھی علم و حکمت کا سرچشمہ ہے ۔

متعلقہ خبریں