ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

2019 ,نومبر 9



لاہور( میاں ساجد علی):  سکول لگنے سے ذرا پہلے‘ جب تمام بچے ایک کشادہ میدان میں کھڑے تھے کہ قرآنِ مجید کی تلاوت کی آواز نے سب کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ جیسے ہی تلاوت ختم ہوئی تو کچھ بچوں نے علامہ اقبالؒ کی نظم ’لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری‘ پڑھنی شروع کی۔ نظم کے ہر مصرع کو دوسرے بچوں نے بھی پڑھنا شروع کر دیا۔ گویا سکول کا ہر بچہ نظم کو اپنے خاص سُر میں پڑھ رہا تھا۔میدان میں موجود بچوں میں عمران بھی نظم دھیمی آواز میں پڑھ رہا تھا۔ شاید اُس کے دل میں کچھ کرنے کی لگن تھی۔ اسمبلی ختم ہوئی اور تمام بچے اپنی اپنی قطار میں اپنی اپنی جماعتوں کی جانب چل پڑے۔ گُلو بھی اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ کمرہ¿ جماعت کی جانب بڑھا لیکن نظم کا ایک مصرع ’ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا‘ 
وہ بار بار گنگنارہا تھا۔
    اُستاد صاحب جماعت میں داخل ہوئے تو سب بچوں نے اُنھیں سلام کیا‘ اُستاد صاحب نے جواباً وعلیکم السلام کہا اور بچوں کو سبق پڑھانے میں مشغول ہو گئے۔ پہلا پیریڈ اسلامیات کا تھا اور اُستاد صاحب نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت بیان کرنی شروع کی۔ دورانِ سبق اُنہوں نے بتایا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوٹوں سے پیار کرتے تھے اور غریبوں کی مدد کرتے تھے۔ بس یہ جملہ سننا تھا کہ عمران نے اِسی دوران ذرا اُونچی آواز میں کہاکہ میں بھی غریبوں کی مدد کروں گا۔ اُستاد صاحب نے اُسے اپنے پاس بلایا اور بڑے پیار سے سمجھایا کہ یہ تو اچھی بات ہے لیکن اس طرح پڑھائی کے دوران اُونچی آواز میں بولنا مناسب نہیں۔ اگر آپ کو کچھ کہنا ہی ہے تو اُستاد صاحب کی بات مکمل ہونے کے بعد اُن سے اجازت طلب کریں اور پھر بات کریں۔ عمران نے اُن سے معافی مانگی تو اُستاد صاحب نے کہا۔ 
” اب بتاﺅ کہ تمھیں آج یہ خیال کیسے آیا؟“۔
    عمران نے بتایا کہ ہم روز صبح علامہ اقبالؒ کی نظم پڑھتے ہیں لیکن ہم اُن کی باتوں پر عمل نہیں کرتے جبکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ’عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی‘۔ تو ہم مسلمان ہیں اور میں جنت میں جانا چاہتا ہوں۔اِس لیے میں چاہتا ہوں کہ میں بھی غرےب لوگوں کی مدد کروں“۔
    اُستاد صاحب نے کہا۔” یہ تو بہت اچھی بات ہے کیونکہ جب ہم غریبوں کی مدد کرتے ہیں تو ہمیں راحت نصیب ہوتی ہے اور اس طرح اللہ بھی خوش ہوتا ہے“۔ سب بچے بھی اب غور سے اُستاد صاحب کی بات سن رہے تھے۔ اُستا د صاحب نے مزید کہا کہ جب ہم کوئی نیکی کا کام کرتے ہیں تو اللہ ہمیں دُنیا میں بھی انعام دیتا ہے اور آخرت میں بھی اجر دے گا۔ انہوں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ آپ سب بچوں کو آپ کے والدین جیب خرچ کے لیے جو پےسے دیتے ہیں ‘اُن میں سے آپ کچھ پیسوں سے غریبوں کی مدد کیا کرو۔ سب بچوںنے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم ضرور ایسا کریں گے۔ انہی باتوں میںاسلامیات کا پیریڈ بھی ختم ہو گیا اور دوسرے مضامین کے لیے دوسرے اساتذہ کرام جماعت میںاپنے اپنے مضامین پڑھاتے رہے۔ جب چھٹی کی گھنٹی بجی تو آج عمران بہت خوش تھا کہ وہ اب کسی نہ کسی غرےب کی مدد ضرور کرے گا ۔وہ بھاگتا ہوا اپنے چھوٹے بھائی کامران کے پاس گیا اور دونوں بھائی ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے گھر کی جانب چل پڑے۔
    راستے میں عمران نے اپنے چھوٹے بھائی کامران کو اُستاد صاحب کی بات بتائی اور اُسے کہا کہ وہ غریبوں کی مدد کرے گا۔ اس کے لیے وہ اُن پیسوں میں سے تھوڑے پیسے بچا لیا کرے گا اور اُن پیسوں سے کسی غرےب کی کوئی نہ کوئی ضرورت پوری کرے گا۔ اُس نے گھر آکر اپنے امی اور ابو کو یہ بات بتائی جس سے وہ دونوں بھی خوش ہوئے۔ اب وہ روزانہ کچھ پیسے بچا لیتا تھا اور اس انتظار میں رہتا تھا کہ اُسے نیکی کرنے کا کوئی موقع ملے۔
    ایک روز ایسا ہوا کہ صبح سکول جاتے وقت عمران اور کامران کی نظر ایک غرےب بچے پر پڑی جس کے بدن پر پھٹا ہوا یونیفارم تھا اور کتابیں‘ کاپیاں ایک لفافہ میں تھیں اور وہ بچہ سڑک کے کنارے کھڑا دوسرے بچوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ دونوں بھائی اُس بچے کے پاس آئے اور اُس سے پوچھا کہ اُس کا بستہ کہاں ہے اور یہ کتابیں ایسے لفافے میں کیوں ڈالی ہوئی ہیں؟ ۔بچہ روتے ہوئے بولا کہ اُس کے پاس کوئی بستہ نہیں ہے جس میں وہ یہ کتابیں ڈال سکے۔ دونوں بھائیوں نے اُس سے وعدہ کیا کہ وہ کل اُس کی یہ مشکل آسان کریں گے۔ دونوں بھائی سکول چلے گئے اور اُس دن انہوں نے گھر آ کر اپنے بچائے ہوئے پیسوں کو اکٹھا کیا تو اتنے پیسے بآسانی بن گئے کہ ایک اچھا سا بیگ خرید سکیں۔ شام کو اُن کے ابو گھر آئے تو اُنہوں نے اپنے ابو کو ساری بات بتائی اور کہا کہ وہ ابھی اُن کے ساتھ بازار چلیں تاکہ اُس بچے کے لیے ایک بیگ خرید یں تاکہ وہ اپنی کتابیں اُس میں رکھ سکے۔
    دونوں بھائیوں نے اپنے پیسوں سے اُس بچے کے لیے ایک بستہ خریدا جبکہ اُن کے ابو نے انہیں اُس بچے کے لیے ایک عدد یونیفارم بھی لے کر دیا۔ اگلی صبح دونوں بھائی خود بخود جلدی اُٹھ گئے ۔جلدی جلدی ناشتہ کیا اور سکول کے لیے چل دئےے۔ راستے میں وہ بچہ اُسی جگہ کھڑا تھا جہاں گزشتہ روز یہ تینوں ملے تھے۔ عمران اور کامران کے ابو بھی اُن کے ساتھ تھے۔ عمران نے بچے کو نیا بستہ دیا اور کہا کہ اپنی سب کتابیں وہ اس میں ڈالے جبکہ کامران نے اُسے یونیفارم پکڑایا اور کہا کہ کل سے وہ یہ نیا یونیفارم پہنے۔ بچہ بہت خوش ہوا اور دونوں بھائیوں کا شکریہ ادا کرکے سکول کی جانب چل دیا۔ یہ دونوں بھی اپنے سکول کی طرف بڑھے۔
    آج تو عمران بہت خوش تھا جیسے اُسے جنت مل گئی ہو۔ اُستاد صاحب نے جماعت میں اُس کے چہرے پر غیر معمولی مسکراہٹ سے پہچان لیا کہ اُس نے ضرور کوئی نیکی کاکام کیا ہے ۔ اُنہوں نے اُسے اپنے پاس بلایا اور اُس سے پوچھا کہ آج وہ اتنا خوش کیوں ہے؟ عمران نے سارا قصہ سنایا تو اُستاد صاحب نے اُسے شاباش دی اور کہا کہ واقعی تم نے ایک اچھا کام کیا ہے جس سے اللہ بھی راضی ہوتا ہے اور اُس کے رسو ل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی۔
    اُستاد صاحب نے پھر سب بچوں کو مخاطب کیا کہ آج جو کام عمران اور اُس کے بھائی نے کیا ہے وہ بلاشبہ ایک نیک کام ہے اور اللہ تعالیٰ اُس کو اِس کام کا ضرور اجر دیں گے۔ انہوں نے بچوں کو تاکید کہ وہ سب بھی ایسے ہی نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کریں تاکہ اُن کی وجہ سے دوسروں کو فائدہ ہو۔
    دیکھا بچو! عمران نے کیسے اُس غرےب لڑکے کی مدد کی ۔اب وہ بچہ خوشی خوشی روزانہ سکول جاتا ہے۔ عمران نے نیکی کا کام کیا ہے اور اسلام ہمیں اسی بات کی تلقین کرتا ہے کہ ہم اخوت یعنی بھائی چارہ سے رہیں اور بے سہارا‘ غرےب اور مفلس لوگوں کی جہاں تک ممکن ہو مدد کریں۔
اسی لیے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ :
ہومرا کام غرےبوں کی حمایت کرنا
٭٭٭٭٭

 

متعلقہ خبریں