2022 ,ستمبر 9
آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے لا حاصل بحث کا سلسلہ بے موقع شروع ہوا جو پھیلتا ہی جا رہا ہے یہ وزیر اعظم کا اختیار ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر کو اسی سال ریٹائر ہو رہے ہیں بطور آرمی چیف وہ اس تاریخ کو6سال پورے کر لیں گے، ان کو تین سال کی توسع دینے کے لیے پارلیمنٹ نے متفقہ قانون سازی کی تھی ارکان پارلیمنٹ اس موقع پر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر بڑے پُر جوش تھے جبکہ ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر قانون سازی کے لیے اتفاق رائے مفقود رہا۔ جنرل باجوہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی ملازمت میں مزید توسیع نہیں لینا چاہتے ہوسکتا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کا اختیار رکھنے والوں کو ان کی ملک کے لیے مزید خدمات کی ضرورت محسوس ہو اور ان کو توسیع پر آمادہ کر لیاجائے۔ دوسری صورت میں نئے آرمی چیف کی تقرری اس دورانیے کے وزیر اعظم نے کرنی ہے۔ ملکہ برطانیہ کی وفات کا سوگ ، اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر زمیں آج پرچم سرنگوں رکھا جائے گا آرمی چیف کی تقرری اور تقرر کرنے والوں کے بارے میں جو بھی کسی کے خیالات ہیں اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم آرمی چیف کی میرٹ پر تقرری کی بات کرتے ہیں۔ سینئر موسٹ جنرل کو آرمی چیف بنانے کا اصول طے کرلیا جائے تو ہر مرتبہ تقرری سے قبل ”تیرا جرنیل میرا جرنیل، اُس کا جرنیل اِس کا جرنیل اورکِس کا جرنیل“ فشار خون میں تلاطم وتغیر لانے والی بحث سے نجات ممکن ہے مگر وزیر اعظم کے پاس اختیار ہے کہ وہ چند سینئر جرنیلوں میں سے جسے چاہے فوجی سربراہ مقرر کر دے۔ عموماً اس اہم تقرری کے موقع پر صدر یا وزیر اعظم کی جانب سے صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے دوسرے تیسرے چوتھے نمبر کی سنیارٹی رکھنے والوں کو اس منصب پر تعینات کیاجاتا رہا ہے۔ یہ فیصلے اگر تیسرے چوتھے نمبر پر آنے والے کی کارکردگی کوپیش نظر رکھ کر کئے جاتے رہے ہیں تو ویل اینڈ گڈ اگر سیاسی وابستگیوں یا دیگر عوامل کو مدِ نظر رکھ کر ہوئے تھے تو ایساکرنے والوں نے بھگتا بھی ہوگا۔کورکو کمانڈ کرنے والا ہر جرنیل فوجی سربراہ بننے کی اہلیت رکھتا ہے تقرر کرنے والا ان میں سے کسی کو بھی فوجی سربراہ مقرر کر سکتا ہے،ایسا ہی ہے اور یقینا ہے تو پھر سب سے سینئر کوکیوں نہ بنا دیا جائے بالفرض چوتھے نمبر والے تو بنایا جاتا ہے تو تین اس سے سینئرجرنیل ریٹائر ہو جائیں گے اور ان سینئرز کی خدمات سے فوج محروم ہو جاتی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے مینٹور میتھیو ہیڈن قومی ٹیم کو جوائن کرنے کیلئے بے تاب,ویڈیو پیغام جاری کر دیا ایک عہدہ جائنٹ سروسز کے چیئرمین کا بھی ہے۔ یہ عہدہ1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تشکیل پایا تھا بھارت میں آج تک کبھی یہ عہدہ بنیاد نہیں پکڑسکا انہوں نے چیف آف ڈیفنس سٹاف کی پوسٹ ضرور متعارف کرائی۔ بدقسمتی سے اس عہدے پر تعینات ہونے والے پہلے افسرجنرل بپن راوت تعیناتی کے کچھ عرصے بعد ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ یہ عہدہ ضرورت کے تحت نہیں بلکہ جنرل راوت کی مودی سرکار کی پالیسیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے کشمیریوں کی قتل و غارت کے انعام پر تشکیل دے کر ان کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اگر یہ بھارت کی ضرورت کے تحت تخلیق کیا گیا ہوتا تو کوئی دوسرا جرنیل اس پر تعینات کر دیا جاتا۔ جنرل اختر عبدالرحمن کی شہادت کے کچھ ہی ہفتے بعد ایڈمرل افتخارسروہی کوجائنٹ سروسز کا چیف تعینات کر دیا گیا تھا۔ خیبر پختون خواحکومت کا ہیلی کاپٹر استعمال کرنے والے افراد کے ناموں کی فہرست سامنے آ گئی ہمارے ہاں ایک عجب صورت حال رہی ہے۔ جائنٹ سروسز کا سربراہ تینوں افواج کا ہوتا ہے مگر ایئر فورس سے کبھی کسی کو اس عہدے پر حقدار نہیں گردانا گیا۔ اصولی طور پر تینوں افواج کے فورسٹار جرنیلوں میں سے جو بھی سینئر ہو اُسے چیئرمین ہونا چاہیے۔ بحریہ کے حصے میں یہ سربراہی دو مرتبہ آئی ہے۔ نومبر1988ء میں ایڈمرل افتخارسروہی کو جبکہ 1976ء میں ایڈمرل محمد شریف کو مسلح افواج کے سربراہوں کی کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ چند ماہ قبل لیفٹیننٹ جنرل(ر)جاوید اقبال ملک کو عمر قید کی سزا سنائی گئی، وہ امریکہ کے لیے جاسوسی کرتے رہے تھے۔ کور کمانڈر بہاولپور رہے،ان کی بطور آرمی چیف تقرری بھی ممکن تھی۔ بریگیڈیئر رضوان کو بھارت کے لیے جاسوسی کرنے پرسزائے موت سنائی گئی۔ ان کو ریٹائرمنٹ کے بعد سزائیں سنائی گئیں۔ یقینی طور پر پاک فوج کے متعلقہ شعبوں کی عقابی نگاہیں ہیں۔ایسے لوگ پکڑے جاتے ہیں مگر یہ اپنا کام کر گزرے تو پکڑے گئے۔ اگر یہ آرمی چیف بن جاتے تو؟ ظاہر ہے کہ اپنے آقاؤں کی خواہش کے مطابق کام کرتے مگر کب تک؟؟کیااپنی سروس کے آخری دن تک سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاک فوج کا ایک مربوط اور مضبوط میکانزم ہے۔ پڑتال کی چھلنی بہت باریک ہے، ایسے لوگ جس عہدے پر بھی ہوں پکڑے ضرور جاتے ہیں، بھلے ریٹائرمنٹ کے بعد ہی سہی۔ اگر وہ افواج میں سے کسی کاطاقتور سربراہ ہی کیوں نہ ہومیکانزم بروئے عمل آ جاتا ہے۔ہو سکتا ہے ماضی میں کبھی بروئے کار آیا ہوجس کا علم کچھ ذمہ داروں کو ہی ہو۔ ایشیاء کپ کے سپر فور مرحلے کا آخری میچ آج پاکستان اور سری لنکا کے مابین کھیلا جائے گا سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے آرمی چیف کی تقرری پر جلسوں تک میں بات کی جارہی ہے،وہ کہتے ہیں کہ شہباز شریف آصف علی زرداری اور نواز شریف کو کیسے پاکستان کے آرمی چیف کی تقرری کا اختیار دیا جاسکتا ہے، ان کے بقول یہ لوگ چور ہیں،لٹیرے ہیں۔آئینی وقانونی پوزیشن یہ ہے کہ شہباز شریف وزیراعظم ہیں۔آرمی چیف کی تقرری کیلئے وہ کسی سے مشاورت کے پابند نہیں ہیں۔اپنی مرضی سے وہ جس سے چاہیں مشورہ کرسکتے ہیں۔مزید براں انہوں نے ان جرنیلوں میں سے ہی کسی کو چیف بنانا ہے جو ٹاپ سنیارٹی پر آتے۔ ان میں سے ہر ایک آرمی چیف بننے کی بہترین صلاحیت رکھتا ہے۔ جس کو بھی بنادیا جائے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ویسے شہباز شریف کیلئے یہ تقرری آزمائش سے کم نہیں۔وہ کثیر اتحادی حکومت کے وزیراعظم ہیں۔انس نوارانی کی جے یو پی اور ساجد میر کی جمعیت اہلحدیث کے سواہر پارٹی یہ باور کراتی ہے کہ اگر وہ ساتھ نہ دیتی تو شہباز شریف وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے لہٰذاہمارے نامزد جنرل کو آرمی چیف بنایا جائے۔