اشک میں میں سی پیک کے چرچے،روس کو گوادر پورٹ کے استعمال کی اجازت دیدی گئی۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 26, 2016 | 07:18 صبح

شک آباد (مانیٹرنگ) وزیراعظم محمد نوازشریف نے ترکمانستان کے اپنے دورہ کو ترکمانستان‘ افغانستان‘ پاکستان‘ بھارت گیس پائپ لائن کے ذریعے وسطی ایشیا کو جنوبی ایشیا کے ساتھ ملانے کی جانب پہلا قدم قرار دیا ہے جس سے اس روٹ پر تمام ممالک کو اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔ وہ ترکمانستان کے دو روزہ دورے کے موقع پر اپنے ساتھ جانے والے صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے جو یہاں ٹرانسپورٹ/ گلوبل کانفرنس میں شرکت کیلئے آئے۔ کانفرنس ترکمانستان اور اقوام متحدہ کے زیراہتمام مشترکہ طور پر ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون اس کانفرنس کے شریک صدر ہوں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ علاقے کی آدھی آبادی کی زندگی میں معاشی انقلاب لے کر آئے گی۔ یہ محض گیس پائپ لائن نہیں ہوگی اس کے ساتھ سڑک اور ریل کا رابطہ بھی بنایا جائے گا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ محض روس ہی نہیں بلکہ علاقے کے دوسرے ممالک نے بھی میگا پراجیکٹ میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ پاکستان نے روسی اقدام کو خوش آمد کہا ہے اور دوسرے ممالک کی شمولیت کا بھی خیرمقدم کرے گا جس سے اس منصوبے کو توسیع ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ جب ریل اور سڑک کا نیٹ ورک بن گیا تو کارگو گوادر پورٹ کی طرف رواں دواں ہوگا‘ اس سے وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں رابطہ بڑھے گا‘ نہ صرف یہ کارگو علاقائی ممالک میں کام شروع کرے گا بلکہ دوسرے ممالک کیلئے بھی روانہ ہوں گے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایران پہلے ہی سی پیک میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کرچکا ہے، گزشتہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی سائیڈ لائنز پر وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات میں کہا تھا کہ چاہ بہادرکو گوادر پورٹ کی سسٹر پورٹ بنا دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت تاپی منصوبے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ افغانستان اس میں 700 ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ ترکمان صدر کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس موقع پر دوطرفہ اور کثیر طرفہ بات چیت ہوئی۔ ترکمان صدر اور میں بہت قریبی دوست ہیں۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں ہر سال ایک بار لازمی طور پر اسلام آباد میں ملنا چاہیے اور ایک بار اشک آباد میں۔ ترکمانستان میں بانکی مون کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف شاید مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدتر ہوتی ہوئی صورتحال پر بھی بات کریں گے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے اس حوالے سے بریف تیار کیے ہیں۔وزیر اعظم نوا زشریف نے کہا کہ تاپی اور سی پیک کے باہمی اشتراک سے فوائد مزید بڑھ جائیں گے
اشک آباد (نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) وزیراعظم محمد نواز شریف نے ترکمانستان کے صدر قربان علی بردی محمدوف سے ملاقات کی اور باہمی دلچسپی پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں ممالک نے تاپی گیس پائپ لائن اور پاکستان اور ترکمانستان کے درمیان فضائی روابط دوبارہ قائم کرنے کا جائزہ لیا۔ وزیراعظم ہائوس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے پاکستان اور پورے خطے میں ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ خطہ کی آبادی کا مستقبل راہداری سے منسلک ہے اگر کوئی ملک اس بڑے پراجیکٹ میں شامل ہونے میں دلچسپی رکھتا ہے تو پاکستان اس کا خیرمقدم کرے گا۔ روس کی اقتصادی راہداری منصوبے میں شمولیت کی خواہش کا خیرمقدم کرتے ہیں کئی ممالک سی پیک میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت (تاپی) ایک اہم منصوبہ ہے جس سے رکن ممالک کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی۔ پاکستان اور ترکمانستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات ہر آنے والے دن میں مضبوط ہو رہے ہیں۔ انہوں نے ہر سال اسلام آباد اور اشک آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے انعقاد کی تجویز دی۔ ترکمانستان کے صدر قربان علی بردی محمدوف نے کوریڈور کی اہمیت سے متعلق وزیراعظم نواز شریف کی تائید کی اور کہا کہ یہ منصوبہ خطہ کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت ہو گا۔ انہوں نے پاکستان کی معیشت کو مضبوط اور عوام کی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے وزیراعظم نواز شریف کے جرأت مندانہ اقدامات کے وژن کو سراہا۔ دونوں رہنمائوں نے دوطرفہ علاقائی اور باہمی دلچسپی کے عالمی ایشوز کا بھی جائزہ لیا۔ اس سے پہلے وزیراعظم ’’پائیدار ٹرانسپورٹ عالمی کانفرنس‘‘ میں شرکت کیلئے 2 روزہ دورہ پر ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد پہنچے تو ان کا نہایت پرتپاک استقبال کیا گیا۔ وہ ترکمانستان کے صدر کی دعوت پر یہ دورہ کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی اور معاون خصوصی طارق فاطمی بھی ان کے ساتھ ہیں۔ وزیراعظم پاکستانی وفد کی قیادت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے تحت اشک آباد میں ’’پائیدار ٹرانسپورٹ بارے عالمی کانفرنس‘‘ میں شرکت کریں گے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف اپنے دورہ کے دوران ترکمانستان کے صدر قربان علی بردی محمدوف سے بھی ملاقات کریں گے جس میں باہمی دلچسپی کے دوطرفہ علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے تحت پہلی مرتبہ یہ کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے جس کی میزبانی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور ترکمانستان مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔ کانفرنس میں کم و بیش 1500 شرکاء شریک ہوں گے جن میں سربراہان مملکت و حکومت، وزرائ، نجی شعبے کے سی ای اوز، سول سوسائٹی کے رہنما اور اقوام متحدہ کے عہدیداران شامل ہیں۔ کانفرنس میں پائیدار ترقی کے لئے 2030ء ایجنڈا کے حصول کے حوالے سے پائیدار ٹرانسپورٹ کے فروغ اور کردار پر بات چیت ہوگی۔ پاکستان مواصلاتی روابط استوار کر کے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بہتر رابطوں کا خواہاں ہے۔ یہ روابط تجارتی و اقتصادی تعلقات، عوامی روابط اور سیاحت کے مواقع سے استفادہ کے لئے سازگار ہوں گے۔ پاکستان اور چین نے گوادر اور کراچی میں اپنی بندرگاہوں کو بہترین مواصلاتی رابطہ کی فراہمی کے لئے پاکستان چین اقتصادی راہداری کا آغاز کیا ہے۔ خشکی میں گھری ہوئی وسطی ایشیائی ریاستیں کراچی اور گوادر میں پاکستان کی بندرگاہوں تک رسائی کے لئے ریل اور شاہراتی ٹرانسپورٹ کے راستوں کو بروئے کار لا سکتی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ روس کی سی پیک میں شمولیت کی خواہش کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ کافی ممالک سی پیک منصوبے میں شرکت کے خواہش مند ہیں۔ اقتصادی راہداری سے پورے خطے میں ترقی ہو گی‘ کئی ملک سی پیک میں شمولیت کے خواہش مند ہیں ، ترکمانستان کے صدر کے ساتھ عالمی اور اقتصادی امور پر بات ہوئی ہے ، پاکستان اور ترکمانستان کی دوستی وقت کے ساتھ مضبوط ہو رہی ہے، دونوں ممالک کے درمیان ہر سال اعلیٰ سطح رابطہ ہونا چاہیے،دونوں ممالک کی قیادت ایک بار اشک آباد اور پھر اسلام آباد میں ملاقات کرے ، تاپی گیس منصوبہ خطے میں بہتری کا منصوبہ ہے۔ ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات، تاپی گیس پائپ لائن منصوبے سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے پر بھی اتفاق کیاگیا۔ میڈیا سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ اقتصادی راہداری سے پورے خطے میں ترقی ہو گی‘ کافی ملک سی پیک میں شمولیت کے خواہش مند ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ترکمانستان کے صدر کے ساتھ عالمی اور اقتصادی امور پر بات ہوئی ہے۔ پاکستان اور ترکمانستان کی دوستی وقت کے ساتھ مضبوط ہو رہی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ہر سال اعلیٰ سطح رابطہ ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کی قیادت ایک بار اشک آباد اور پھر اسلام آباد میں ملاقات کرے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کہاکہ تاپی گیس منصوبہ خطے میں بہتری کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے پر اہم پیش رفت ہو گی اور یہ منصوبہ پاکستان میں گیس کی ضروریات پوری کرے گا۔ نجی ٹی وی کے مطابق پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے میں روس کو شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ پاکستان نے روس کو گوادر پورٹ کے ذریعے گرم پانی تک رسائی دینے پر رضا مندی ظاہر کردی ہے۔ انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق روس اور پاکستان کے درمیان اسٹریٹجک و معاشی تعلقات میں 14 سال بعد اہم پیش رفت ہوئی روسی انٹیلی جنس فیڈرل سکیورٹی سروسز (ایف ایس بی) کے سربراہ الیگزینڈر بورٹنی کوو نے گذشتہ ماہ کے آخر میں پاکستان کا اہم دورہ کیا۔ ذرائع کے مطابق فیڈرل سیکورٹی سروسز کے سربراہ نے دورہ پاکستان کے دوران انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے چیف جنرل رضوان اختر سمیت انٹیلی جنس و دفاع کے افسران سے ملاقاتیں کیں اور دونوں ملکوں نے دفاع ودیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام سے مذاکرات کے بعد روس کو پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اس طرح روس کو گوادر پورٹ کے ذریعے گرم پانی تک رسائی مل جائے گی۔ روسی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے دورے میں انٹیلی جنس اور دفاعی تعاون بڑھانے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق روس کے ساتھ اقتصادی راہدای منصوبے کو تجاری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی حکومتوں کے درمیان مستقبل میں باضابطہ معاہدے بھی کیے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق روسی انٹیلی جنس کے سربراہ کو پاکستانی ہم منصب کی جانب سے قیمتی پستولوں کا تحفہ دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق روس کو سب سے اہم خدشات سکیورٹی کے حوالے سے لاحق تھے، تاہم گذشتہ دنوں گوادر سے کنٹینرز کے قافلے کے بحفاظت مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک پہنچنے کے بعد روس کے خدشات دور ہوگئے اور اس نے حکومت پاکستان سے سی پیک میں شمولیت کی درخواست کی۔ واضح رہے کہ 100 سے زائد مال بردار ٹرکس کا قافلہ 29 اکتوبر کو چین کے شہر کاشغر سے روانہ ہوا تھا جو 30 اکتوبر کو پاکستان میں داخل ہوا اور سوست ڈرائی پورٹ پہنچا تھا جس کے بعد 11 نومبر کو یہ قافلہ گوادر پہنچا، جہاں سے پھر یہ اپنی منزل مقصود کی جانب روانہ ہوا۔ سی پیک منصوبوں کی سکیورٹی کے لئے پاک فوج کی الگ بریگیڈ قائم کی گئی ہے، جس کے لیے فنڈز بھی الگ سے فراہم کئے گئے ہیں، اس بریگیڈ کا مقصد سی پیک کے تحت تجارت کی سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔ سی پیک کے تحت بلوچستان کی گوادر بندرگاہ سے لے کر چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ تک سڑکوں، ریلوے لائنوں اور پائپ لائنوں کا ایک جال بچھایا جائے گا۔ اس سے قبل ایران بھی سی پیک منصوبے میں شمولیت کی خواہش ظاہر کرچکا ہے۔ رواں برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں سائڈ لائن ملاقات کے موقع پر ایران کے صدر حسن روحانی نے وزیراعظم نواز شریف سے پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ایران کے علاوہ ترکمانستان اور ایک یورپی ملک نے بھی حکومت پاکستان سے سی پیک میں شمولیت کی درخواست کی ہے۔

دریں اثنا جیو نیوز کے مطابق

 

پاکستان نے تجارتی مقاصد اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے روس کو گرم پانیوں تک رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ماسکو اور اسلام آباد کے مابین گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری مذاکرات اور روس کی انٹیلی جنس فیڈرل سکیورٹی سروسز کے سربراہ الیگزینڈر بورٹنی کوو جنہوں نے گزشتہ ماہ پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا  اور پاکستان کے اعلیٰ سطح  کے عسکری و حکومتی حکام سے ملاقاتیں کی تھیں، اس دوران ہونے والے مذا کرا ت کے نتیجے میں پاکستان نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں روس کوشامل کرنے کا باضابطہ فیصلہ کرلیا ہے۔

اس طرح روس کو گوادرپورٹ کے ذریعے تجارتی مقاصد کے لیے گرم پانیوں تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔ اطلاعات کے مطابق روس کے ساتھ اقتصادی راہداری منصوبے کوتجا ر تی مقاصد کی خاطر استعمال کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی حکومتوں کے مابین آنے والے دنوں میں باضابطہ معاہدے کیے جائیں گے۔

ترکمانستان اور ایران کی جانب سے بھی گوادر بندرگاہ سے اپنی گیس برآمد کرنے کی خواہش اس پورٹ کو توانائی کی عالمی راہدری میں تبدیل کر دے گی۔ اس حوالے سے حکام کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو نہ صرف پاکستان کو ٹرانزٹ فیس ملے گی بلکہ گیس کو ایل پی جی میں تبدیل کرنے کی سہولتوں سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکے گا، یہاں تک کہ پاکستان مزید ایل این جی بھی حاصل کر سکے گا۔

انٹراسٹیٹ گیس سسٹم کے ایم ڈی مبین صولت نے اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ گیس پیدا کرنے والے ان دونوں ممالک کی خواہش ایک اچھی پیش رفت ہے اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی ترکمانستان، ایران اور پاکستان کی کامیابی ہوگی، یاد رہے کہ ایران پہلے ہی سی پیک میں شمولیت کیلئے پاکستان سے رابطہ کرچکا ہے اور اس حوالے سے امکانات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ایرا ن کے صدر حسن روحانی نے وزیراعظم نواز شریف سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا حصہ بننے کی درخواست کی تھی۔ادھر روس کے ساتھ مستقبل قریب میں ہونے والے رابطے اور معاہدے محض سی پیک منصوبے تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ دونوں ممالک میں  انٹیلی جنس اور دفاعی تعاون میں بھی اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

مصدقہ ذرائع کے مطابق روس ابتداسے ہی سی پیک کا حصہ بننے کے لیے خواہش مند تھا تاہم ماسکو کوسکیورٹی کے حوالے سے بعض خدشات تھے لیکن حال ہی میں چین سے آنے والے کنٹینرز کے قافلے جب گوادر سے بحفاظت مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک پہنچے تو روس کے خدشات دور ہوگئے اور ابتدائی امور پربات چیت کو  نتیجہ خیز شکل دینے کے لیے اقدامات کیے گئے۔

انہی ذرائع کے مطابق روس کی فیڈرل سکیورٹی سروسز کے سربراہ نے اپنے دورہ پاکستان کے موقع  پر پاکستان کے جن حکام سے ملاقاتیں کی تھیں ان میں آئیایسآئی کے سربراہ جنرل رضوان اخترسمیت  اعلیٰ دفاعی افسران بھی شامل تھے اس موقع پر آئی ایس آئی کے چیف نے روس کی فیڈرل سکیورٹی سروسز کے سربراہ کو جہاں سکیورٹی خدشات سے متعلق  یقین دھانی کرائی تھی وہیں دونوں ملکوں کے درمیان دفاع اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے پربھی تبادلہ خیال کیا تھا۔ واضح رہے کہ روسی خفیہ ادارے کے کسی بھی سربراہ کا14سال بعد پاکستان کا یہ پہلادورہ تھا اور انہوں نے اپنے دورہ پاکستان کو ہرحوالے سے انتہائی کامیاب اور بامقصد قرار دیا تھا۔

اس موقع پر انہیں جو تحائف پیش کیے گئے تھے ان میں قیمتی پستول بھی شامل تھے۔روس کی جانب سے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے میں شرکت کی خواہش کا اظہار اور اس کی تکمیل کی جانب پیشرفت ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب جنگی جنون میں مبتلا بھارت پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشیش اور دعوے کر رہا ہے لیکن وہ محض خوش فہمی پر مبنی دعوے ہی ثابت ہو رہے ہیں اور سی پیک میں روس کی شمولیت سے بھارت کے ان پاکستان مخالف جارحانہ منفی عزائم کو شدید دھچکا  لگا ہے۔

پاکستان اور روس کے تعلقات میں پیش رفت سے آگاہ ایک اعلی اہلکار کا کہنا تھا کہ اگر سی پیک میں روس کی شمولیت کی خواہش کا تجزیہ کیا جائے اور حال ہی میں ایران کی جانب سے سی پیک میں شامل ہونے کی خواہش کو اس سے ملا کر دیکھا جائے تو کچھ ممالک کا ایک نیا علاقائی بلاک ابھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ روس، ایران، چین اور پاکستان کا ایک نیا اسٹریٹجک الائنس بننے جارہا ہے۔اس سے نہ صرف بھارت کی جانب سے پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی کوشش ناکام ہوجائے گی بلکہ امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے متوقع گٹھ جوڑ سے پاکستان کو جو  ٹف ٹائم  ملنے کا خدشہ ہے اس کو بھی بے اثر کیا جا سکے گا۔