حدیبیہ ریفرنس کو پاناما کیس سے منسلک نہ کیا جائے، اٹارنی جنرل

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 22, 2017 | 19:09 شام

اسلام آباد(مانیٹرنگ): سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کو پاناما لیکس کے معاملے سے منسلک نہ کیا جائے، کیونکہ دونوں کی نوعیت میں فرق ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا تھا کہ کیا عدالت کو حدیبیہ پیپر ملز کیس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے؟ اور کیا 1.2 ارب کی بدعنوانی کا معاملہ بغیر حساب کتاب جانے دیا جائے؟

جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان کی یہ ہی رائے ہے اور اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو یہ ایک بری مثال بن جائے گی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے آج بھی اپنے دلائل جاری رکھے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالت نے گزشتہ روز اپیل دائر کرنے کے حوالے سے سوال پوچھا تھا، کیس کے ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے، قرضہ فارن کرنسی اکاؤنٹس پر لیا گیا تھا۔

جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ 'اگر کوئی سٹوری بنائی بھی ہے تو اس پر قائم رہیں، ہر وکیل الگ بات کر کے کنفیوژ کر دیتا ہے'۔

 

انھوں نے مزید کہا کہ عدالت کو بتایا گیا تھا کہ 'قطری کے پاس انوسٹمنٹ کی گئی تھی اور قرض ادائیگی میں کسی فارن کرنسی اکاؤنٹ کا ذکر نہیں آیا تھا، لہذا اٹارنی جنرل اور تمام وکلاء عدالت پر رحم کریں'۔

جسٹس عظمت نے اشتر اوصاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ بطور اٹارنی جنرل دلائل دیں، پارٹی نہ بنیں'۔

جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 'میں عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، اس کیس میں پارٹی نہیں ہوں'۔

ساتھ ہی انھوں نے استدعا کی کہ حدیبیہ پیپرز ملز کیس کو پاناما لیکس کے معاملے سے منسلک نہ کیا جائے، کیونکہ دونوں کی نوعیت میں فرق ہے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ 'نیب گزشتہ روز ہمارے سامنے وفات پا گیا'۔

ساتھ ہی انھوں نے استفسار کیا کہ اگر حدیبیہ پیپرز کیس میں الزامات غلط تھے تو اس پر انحصار کیوں کر رہے ہیں؟ اور اگر کیس میں الزامات درست ہیں تو اس کیس کو دفن کیوں کیا گیا؟

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ 'آپ ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں، جبکہ حدیبیہ کیس میں ریاست مدعی تھی'۔

جس پر اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ 'میں وفاق کی وکالت نہیں بلکہ عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، میرا کام عدالت کے سامنے ریکارڈ سے حقائق لانا ہے'۔

اس موقع پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ 'ہم اٹارنی جنرل کی مشکل کو سمجھتے ہیں لیکن عدالتی معاونت کریں'۔

اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ 'اگر عدالت چاہتی ہے تو میں معاونت جاری رکھوں گا'، جس پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ 'ہم نے آپ کو نوٹس جاری کیا ہے اس لیے معاونت کریں'۔

اٹارنی جنرل نے دلائل کا سلسلہ دوبارہ جوڑتے ہوئے کہا کہ 'قانون کے مطابق عدالتی فیصلے کے خلاف کوئی بھی اپیل دائر کر سکتا ہے'۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ اپیل کا حق متعلقہ فریق کو ہوتا ہے، غیر متعلقہ شخص کیسے اپیل کر سکتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آئین میں اس پر کوئی پابندی نہیں'۔

سماعت کے دوران وزیراعظم کی نااہلی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ 'ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ ان کا وزیراعظم اہل ہے یا نہیں'۔

جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ درخواست گزار کو بتانا ہوتا ہے کہ کس بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا 'معاملہ نوازشریف کے بطور وزیراعظم نہیں بلکہ بحیثیت رکن اسمبلی اہلیت کا ہے'۔

جس پر جسٹس کھوسیہ نے کہا کہ عدالت نے 3 نومبر 2016 کو درخواستیں قابل سماعت قرار دی تھیں، عدالت عوامی مفاد کا معاملہ ہونے کا فیصلہ پہلے ہی کر چکی ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ 'آپ اس حوالے سے معاونت کریں کہ عدالت کس حد تک جا سکتی ہے'۔

اشتر اوصاف نے بتایا کہ آئین کے تحت نا اہلی کے لیے ریفرنس اسپیکر کو بھیجا جا سکتا ہے، اسپیکر سے فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں ہی کسی اور فورم پر جا سکتا ہے۔

جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ 'ہم متعدد مقدمات میں کہہ چکے ہیں اگر دیگر ادارے اپنا کام نہ کر رہے ہوں تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے'۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 'ہمارے اداروں کا وقار بیرون ملک مجروح کیا گیا'، جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ ادارے کام نہیں کریں گے تو ایسا تو ہوگا'۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 'عدالت نے اداروں کو بہت مضبوط کیا'۔

جس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ 'ہم جانتے ہیں آپ ہمارے سوالوں کا جواب دیں کہ ہم ان الزامات کو لے کر کہاں جائیں؟'

انھوں نے مزید کہا کہ 'کئی دنوں سے سب کے دلائل سنے صرف اس سوال کا جواب مانگ رہے ہیں'۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے متعلقہ فورم سے متعلق سوال کیا تھا، ساتھ ہی انھوں نے عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 42 اے کا حوالہ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر منتخب نمائندہ اثاثوں کی تفصیلات جمع کروانے کا پابند ہوتا ہے، اگر اثاثے چھپائے ہوں یا غلط بیانی کی گئی ہو تو سیشن کورٹ میں مقدمہ ہوتا ہے اور اس کے لیے شہادتیں ریکارڈ کرنا ہوتی ہیں جبکہ مقدمے میں 3 سال قید اور 5 ہزار جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ 'آپ کہنا چاہتے ہیں کہ درخواست گزار وزیراعظم کے خلاف فوجداری مقدمہ کریں؟

جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 'میرے کہنے کا یہی مطلب ہے، وزیراعظم کو آئین کے تحت فوجداری مقدمہ میں استثنیٰ حاصل نہیں ہوتا'۔

جسٹس کھوسہ نے اشتر اوصاف سے کہا کہ آپ آئین کا آرٹیکل 248 بھی پڑھ لیں۔

جس پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ 'آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدر اور گورنرز کے خلاف فوجداری مقدمہ نہیں ہو سکتا، اس میں وزیراعظم شامل نہیں'۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 'سپریم کورٹ سے کوئی تعاون نہیں کر رہا اور معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں'۔

ساتھ ہی انھوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا سیشن جج ٹرائل میں یہ معاملہ حل کر لے گا؟ کون استغاثہ کرے گا اور کون شہادتیں لائے گا؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کے کل کے بیان کے بعد کیا یہ شخص کسی کا ٹریفک چالان بھی پکڑ سکتا ہے؟

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ 'نیب کے جواب کے بعد وزیراعظم کے حوالے سے تفتیش کا پہلو زمین کے چھ فٹ نیچے دفن ہو گیا ہے'۔


یوسف رضا گیلانی کیس کی بازگشت

سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کیس کی بھی بازگشت سنائی دی، جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل نعیم بخاری نے سماعت کے دوران مداخلت کی اور کہا 'عدالت نے یوسف رضا گیلانی کیس میں نہ صرف یہ کہا بلکہ ان کو گھر بھی بھیجا'۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'اگرچہ اس کیس میں 65 ملین ڈالرز واپس نہیں آئے لیکن وزیراعظم گھر چلے گئے تھے'۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے ایک 7 رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو این آر او عملدرآمد کیس میں عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے اور توہین عدالت کا مرتکب ہونے پر 26 اپریل 2012 کو سزا سنائی تھی۔


پاناما کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے اس موقع پر کہا کہ آئین کا آرٹیکل 63 ڈکلیئریشن دینے کی اجازت نہیں دیتا۔

اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 'سوال یہ ہے کہ کیا عدالت کو اپنا اختیار استعمال کرنا چاہیئے اور سوال یہ بھی ہے کہ عدالت کس حد تک جا سکتی ہے؟'

جسٹس اعجاز افضل نے جواب دیا کہ 'یہ بات ہمارے ذہن میں بھی ہے کہ کس حد تک جایا جاسکتا ہے'۔

اس موقع پر جسٹس آصف کھوسہ نے استفسار کیا کہ وزیراعظم اسمبلی کے رکن بھی ہیں، ان کی نا اہلی کی استدعا سے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟

جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے کہ 'یوسف رضا گیلانی کیس میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ ہم گھر بھیج سکتے ہیں'۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ رکن اسمبلی کی نا اہلی کے لیے آئین میں طریقہ کار درج ہے، ایم این اے پبلک آفس ہولڈر نہیں ہوتا، اس لیے کو وارنٹو کی درخواست نہیں آسکتی۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'عدالت آئین کو مد نظر رکھے، آرٹیکل 62 میں عوامی عہدے کا نہیں لکھا'۔

اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت کی معاونت میں دلائل مکمل کر لیے، جس کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے جوابی دلائل دیئے۔

بعدازاں کیس کی سماعت کل بروز جمعرات (22 جنوری) تک کے لیے ملتوی کردی گئی، جہاں نعیم بخاری اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

گذشتہ سماعت

مذکورہ کیس کی گذشتہ روز یعنی پیر (22 فروری) کو ہونے والی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین کو عدالت عظمیٰ کی برہمی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

پاناما لیکس کے بعد آف شور کمپنیوں کے معاملے پر ایف بی آر کے موقف اور حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں نیب کی جانب سے اپیل نہ کیے جانے کے معاملے پر سماعت کے بعد عدالت نے ریمارکس دیئے تھے کہ اگر ادارے کام کرتے تو یہ کیس عدالت میں نہ آتا۔

گذشتہ روز سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک منفرد کیس ہے اور اس کے لیے منتخب کیا گیا فورم اسے دوسرے مقدمات سے منفرد بناتا ہے، درخواستیں کو وارنٹو اور الیکشن پٹیشنرز کی نوعیت کی ہیں جن کی سماعت کرنا عدالت کا معمول اور دائرہ اختیار نہیں۔

اٹارنی جنرل کے مطابق ماضی میں بھی عدالت نے ایسی درخواستوں کو پذیرائی نہیں بخشی اور عدالت کا وضع کردہ قانون تمام ارکان پارلیمنٹ پر لاگو ہو گا۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بننے والا پانچ رکنی نیا لارجر بینچ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت کررہا ہے، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔

31 جنوری کو ہونے والی سماعت کے بعد لارجر بینچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید کو دل کی تکلیف کے باعث سماعت ملتوی کردی گئی تھی جس کا دوبارہ سے آغاز پندرہ روز بعد (15 فروری) سے ہوا تھا۔