2017 ,فروری 22
لاہور(مہرماہ رپورٹ):میں والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ میں جب پیدا ہوئی تو گھر والے بہت خوش ہوئے کیونکہ میں شادی کے آٹھ سال بعد پیدا ہوئی تھی میں گھر والوں کی آنکھ کا تارا ہوں بچپن سے ہی میں بہت خوبصورت ھوں گول مٹول چہرہ اوپر سے نیلی آنکھیں گورا رنگ اور گال ایسے سرخ جیسے قندھاری انار ہوں دیکھنے والی پہلی نظر میں مجھے ایک خوبصورت پٹھانی سمجھتے ہیں۔ جب بھی کوئی مہمان ہمارے گھر آتا تو وہ مجھے ضرور گود میں اٹھاتا کیونکہ میں بالکل گڑیا کی طرح لگتی تھی۔جب میں چار سال کی ہوئی تو گھر والوں نے مجھے شہر کے سب سے بہترین سکول میں داخل کروایا ، میں کلاس کی سب سے حسین لڑکی تھی ایک تو میں حسین تھی اور اوپر سے ذہین بھی ، اسلئے کلاس کی سب ٹیچرز مجھے بہت پسند کرتی تھیں جب میں تیسری جماعت میں آئی تو میرے محلے کی ایک لڑکی میری کلاس میں داخل ہوئی اس کا نام ثنا تھا چند ہی دنوں میں ہم سہلیاں بن گئیں اور کھیلنے کے لئے ایک دوسرے کے گھر آنے جانے لگیں ، میں جب بھی ان کے گھر جاتی تو میں اور ثنا چھت پر کھیلا کرتی تھیں ان کی چھت پر ایک پرانی چارپائی تھی جسے ہم نے دیوار کے ساتھ کھڑا کر لیا تھا اور اس پر ہم نے ایک بڑی سی چادر ڈال کر اسے چاروں طرف سے بند کر کے ایک چھوٹا سا گھر بنایا ہوا تھا اس گھر میں ہم اپنی گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں میری سہیلی کا بھائی بھی کبھی کبھی ہمارے ساتھ کھیلا کرتا تھا وہ ثنا سے تین چار سال بڑا تھا ، میں ایک دن اپنی ایک کتاب وہاں کلاس میں بھول آئی تھی میں گیٹ پر کھڑی پاپا کا انتظار کر رہی تھی وہ مجھے لینے ابھی تک نہیں پہنچے تھے سکول کے زیادہ پر بچے جا چکے تھے اچانک مجھے اپنی کتاب یاد آئی میں فورا اپنی کلاس میں گئی اور اپنی کتاب اٹھا کر کلاس سے باہر نکلی تو میری نظر سامنے دسویں کلاس کی کھڑکی کی طرف پڑی تو وہاں ایک لڑکا اور ایک لڑکی ایک دوسرے سے کچھ نازیبا حرکت کر رہے تھے مجھے بہت عجیب لگا لیکن میں وہاں رکی نہیں اور سیدھی گیٹ پر آ گئی میرے پاپا اتنی دیر میں آ چکے تھے میں ان کے ساتھ گھر چلی آئی لیکن یہ واقعہ جیسے میرے ذہن پر ثبت ہو کر رہ گیا تھا میں جب بھی کسی فلم میں کوئی ایسی ویسی حرکت دیکھتی تو میری فیلنگز عجیب سی ہو جاتیں لیکن میں ان کو سمجھنے سے قاصر تھی کیونکہ بچپن کے دن تھے میں سیکس کی الف ب بھی نہیں جانتی تھی ایسے ہی تین چار سال گزر گئے لیکن ہماری ایک دوسرے کے گھر جا کر کھیلنے والی عادت نہیں بدلی - ایک دن ہم نے اپنی گڑیا کی شادی کی ، ہم جب بھی نئی گڑیا خریدتیں تو ان کی آپس میں شادی ضرور کرتیں تھیں شادی والے دن ہم کیک ، پیسٹری وغیرہ ثنا کے بھائی سے ہی منگواتی تھیں اسطرح وہ بھی شادی میں شریک ہو جاتا تھا اس کی عمر تقریبا پندرہ سال ہو چکی تھی اور میں بھی اس وقت بارہ سال کی ہو چکی تھی ایک دن ہم نے گڑیا کی شادی کی تو ثنا کے بھائی نے کہا کہ گڑیوں کی شادی تو بہت دفعہ ہو چکی ھے اب اگلی دفعہ ہم ایک دوسرے سے شادی کریں گے اور آپس میں کھیلیں گے بچپن کے دن تھے اتنی زیادہ سمجھ بوجھ بھی نہیں تھی اور نہ ہی شادی کی اصل حقیقت سے واقف تھیں اسلئے ہم مان گئیں ثنا کے بھائی نے کہا کہ سنڈے کو ہم شادی شادی کھیلیں گے - سنڈے والے دن میں ثنا کے گھر گئی تو ثنا اور اس کا بھائی سنی مجھے لے کر چھت پر چلے گئے چھت پر ہم اپنے مخصوص کمرے میں چلے گئے جو ہم نے چارپائی سے بنایا ہوا تھا سنی نے مجھ سے کہا کہ آج میں اور تم شادی کریں گے آج تم ثنا کی بھابی بنو گی اور ثنا آج کے بعد تمہاری خدمت کیا کرے گی - سنی نے مجھ سے پوچھا کہ تم مجھ سے شادی کرو گی تو میں نے ثنا کی طرف دیکھا تو سنی نے کہا کہ بہن بھائی کے درمیان شادی نہیں ہوتی اسلئے تمہیں ہی مجھ سے شادی کرنی پڑے گی ، میں نے کہا ٹھیک ہے کہ آپ مجھ سے ہی شادی کر لو - جب ہم گڑیا اور گڈے کی شادی کرتے تھے تو گڈے کی طرف سے گڑیا کے گلے میں ایک ہار پہنا دیا کرتی تھیں اور کیک اور پیسٹری کھا کر گڑیا اور گڈے کی رخصتی کر دیتی تھیں - اگر میرا گڈا ہوتا تو میں اس کی گڑیا ساتھ لے آتی اور اگر میری گڑیا ہوتی میں وہاں چھوڑ آتی - سنی کے پاس بھی ایک ہار تھا اس نے میرے گلے میں پہنا دیا اور کہا کہ اب تم میری دلہن ہو ، میں نے کہا کہ آپ میرے دلہا ہو - پھر ہم نے مل کر مٹھائی کھائی جو سنی ہماری شادی کے لئے سپیشل لے کر آیا تھا سنی نے اپنی بہن ثنا سے کہا کہ جب دلہن تئی تئی گھر آتی ہے تو وہ کام نہیں کرتی اسلئے اب گھر کے کام تم نے کرنے ہیں بعد میں گھر کے کام آپ کی یہ بھابی ہی کیا کرے گی اس نے میری طرف ہاتھ کرتے ہوئے کہا - ثنا اب تم ہمارے لئے چائے بنا کر لاؤ سنی نے کہا اور ثنا چائے بناتے چلی گئی۔ثنا جیسے ہی نیچے گئی تو سنی نے کہا دولہا اور دلہن ساتھ سوتے ہیں اس لئے آپ میرے ساتھ ہی لیٹا کرو گی اب ، میں نے بھی ماما پاپا کے ساتھ کچھ فلموں میں دیکھا تھا کہ دولہا اور دلہن علیحدہ کمرے میں اکٹھے ہی رہتے ہیں لیکن مجھے یہ پتا نہیں تھا کہ وہ علیحدہ کیوں سوتے ہیں۔ سنی نے کہا کہ لیٹ جاؤ میں نیچے چٹائی پر لیٹ گئی اور سنی بھی میرے ساتھ ہی لیٹ گیا۔ ان دنوں مجھے تو کسی بات کا بھی پتا نہیں تھا جبکہ سنی نیا نیا جوان ہو رہا تھا اس نے لڑکوں سے سیکس سے متعلقہ باتیں سنی تھیں کہ مرد اور عورت کا تعلق کس قسم کا ہوتا ہے اور وہ کیا کیا کرتے ہیں۔ہاں تو میں بتا رہی تھی کہ سنی نے مجھ سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ میری سانسوں کی رفتار میں تیزی آ رہی تھی ۔اسی دوران سنی کی بہن چائے بنا کر لے آئی اس کی سینڈلوں کی آواز سیڑھیوں سے ہی سنی نے سن لی تھی اسلئے فورا وہ سیدھا ہو گیا تھا اور مجھے کہا کہ ثنا کو کچھ نہیں بتانا-ثنا تین کپ چائے بنا کر لائی تھی اس نے ایک کپ سنی کو دیا اور ایک کپ میری طرف بڑھایا ، اس کی نظر میرے چہرے پر پڑی تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا بات ہے تمہارا چہرہ اتنا سرخ کیوں ہو رہا ہے ؟اس وقت میرے دل کی دھڑکنیں بہت تیز تھیں اور میرا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا لیکن ثنا نے محسوس نہیں کیا تھا، میں خاموش رہی ، میں نے کوئی جواب نہیں دیا مجھے خاموش پا کر سنی نے اپنی بہن سے کہا کہ اس کو اچانک بخار ہو گیا ہے اور بخار کی وجہ سے اس کا چہرہ بھی سرخ ہو گیا ہے - آج سوچتی ھوں تو ہنسی آتی ہے کہ یہ کوئی معقول بہانہ نہیں تھا اگر ثنا کی جگہ اس کی ماما یا میری ماما ہوتی تو شاید معاملہ بھانپ جاتی لیکن ثنا بھی میری طرح بارہ سال کی تھی اسے بھی ان دنوں ایسی باتوں کا پتا نہیں تھا اسلئے اس نے پریشانی سے کہا کہ جلدی سے ڈاکٹر کے پاس جاؤ - سنی نے کہا کہ اب اسے چائے تو پی لینے دو- آج ہی میری شادی ہوئی ہے اور تم میری دلہن کو بھگا رہی ہو - ثنا نے کہا دولہا جی پہلے دلہن کی دوائی تو لا کر دو - میں نے کہا کہ میں پاپا کے ساتھ چلی جاؤں گی مجھے گھر جانا ہے ثنا نے کہا کہ پہلے چائے تو پی لو ، میں چائے پینے کے بعد اپنے گھر آ گئی۔ اس کے بعد بھی میں معمول کے مطابق ثنا کے گھر کھیلنے جاتی سنی کبھی گھر ہوتا تھا تو کبھی دوستوں کے ساتھ کھیلنے گیا ہوتا تھا ، ثنا کے ہوتے ہوئے دوبارہ ایسا کوئی موقع نہیں آیا کہ سنی دوبارہ ویسی حرکت کرتا لیکن موقع محل دیکھ کر وہ کبھی کبھی میرے بہت قریب آجاتا تھا جسے میں بھی پسند کرتی تھی۔ایسے ہی ایک دن میں ثنا کے گھر گئی تو گھر میں سنی کے سوا کوئی نہیں تھا - سنی نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ ثنا ماما کے ساتھ بازار گئی ہے اور انہیں آنے میں کافی وقت لگے گا ، چاہئیے تو یہ تھا کہ میں واپس چلی جاتی لیکن ذہن کے کسی کونے میں اس دن کا مزا تھا جس نے مجھے جانے نہ دیا ، سنی مجھے کہنے لگا کہ آؤ اتنی دیر ہم دلہا دلہن کھیلتے ہیں وہ مجھے لے کر کمرے میں چلا گیا کمرے میں لے جا کر سنی نے مجھے بیڈ پر بیٹھنے کا کہا اور خود میرے ساتھ بیٹھ گیا ، اس نے مجھ سے پوچھا کہ "اس دن والی بات کسی کو بتائی تو نہیں" ؟میں نے نفی میں سر ہلایا تو سنی نے کہا - "اس دن اچھا لگا تھا" ؟میں نے اثبات میں سر ہلایا تو سنی نے کہا "آج پھرشادی کے دوسرے مرحلے کی طرف چلتے ہیں۔"،میں خاموش رہی تو سنی نے مجھے وہاں ہی بیڈ پر لٹا لیا اور خود بھی ساتھ لیٹ کر گیا اور پھر ہم ساری حدیں عبور کرتے گئے۔ اس نئی دنیا سے میں صرف بارہ سال کی عمر میں ہی آشنا ہو گئی تھی۔ میری زندگی کا یہ پہلا تجربہ تھا۔میرے پاپا اور ماما کے ہاں میرا کوئی جوڑ نہیں تھا، جب میں بڑی ہوئی تو سنی نے ثنا سے مجھ سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تھا ثنا نے مجھ سے پوچھا تو میں نے بھی اعتراض نہیں کیا اور پھر ثنا کے ماما پاپا نے میرے ماما پاپا سے میرا رشتہ مانگا اور پھر بیس سال کی عمر میں میرے سنی سے شادی ہو گئی قارئین آپ نے اخبارات میں پڑھا ہو گا کہ پانچ سالہ بچی سے زیادتی ، کبھی دس سالہ بچی سے زیادتی اور کبھی بارہ سالہ بچے سے زیادتی ، اس کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم وجہ والدین ہیں جو اپنے بچوں پر صحیح سے توجہ نہیں دیتے ، میں گھر سے یہ بتا کر جاتی تھی کہ میں ثنا کے گھر جارہی ہوں لیکن کبھی بھی میرے ماما پاپا نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ میں وہاں کیا کرتی ہوں اور ساتھ میں کون کون کھیلتا ہے ؟ اب یہ بچے کی قسمت کہ جس گھر میں وہ جا رہا/رہی ہے اس گھر میں کوئی جنسی جنونی تو نہیں رہتا ، اگر رہتا ہوا تو یہاں سےبچے کی بدقسمتی کا آغاز ہوتا ہے اور پھر ساری زندگی یہ بدقسمتی اس کے ساتھ رہتی ہے، وہ ذہنی اور نفسیاتی دباؤ سے ہی نہیں نکل سکتا اور زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے، عام طور پر ایسے بچے جن کے ساتھ بچپن میں جنسی استحصال ہو چکا ہو، ان میں سے زیادہ تر بڑے ہو کر اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ایسے لوگ بہت خطرناک ہوتے ہیں - ایسے لوگوں سے اپنے بچوں کو بچا کر رکھنا چاہئے - میں اس کہانی کے ذریعے آپ لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے کا جنسی استحصال نہ ہو تو اپنے بچوں کو دوسروں کے گھروں میں جا کر کھیلنے کی اجازت نہ دیں اور بچوں پر نظر رکھیں کہ اس کی دوستی کیسے لوگوں سے ہے - میرا بھی جنسی استحصال ہوا لیکن میری خوش قسمتی کہ میں اب اس کی سچ میں دلہن ہوں اور ہر کوئی میری طرح خوش قسمت نہیں ہوتا -۔۔۔۔۔۔۔