2022 ,نومبر 29
کچھ طبلچیوں، نوکروں اور نوکرانیوں کو اسی طرح جنرل عاصم منیر کی خوشامد، چاپلوسی، بُٹ چَٹی کے دورے پڑ رہے ہیں۔ جس طرح جنرل قمر جاوید باجوہ کے بوٹوں میں لوٹتے ہوئے ان کی آرمی چیف کی اس مدت کے دوران پڑا کرتے تھے جب وہ طاقت کا ہمالہ ہوا کرتے تھے۔ جنرل عاصم منیر کی تقرری کے بعد جنرل باجوہ کی طاقت کا گلیشیئر پگھل کر پانی بن گیا۔ گو کہ آخری دنوں میں بھی وہ پُھنکارتے ہوئے دکھائی دیئے ۔
اعظم سواتی کی گرفتاری پھر سے ہوئی مگر اس مرتبہ اسی طرح کے الزامات ہونے کے باوجود اس طرح چوروں ڈاکوؤں اور اغوا کاروں کی طرح آدھی رات کے بعد شب خون نہیں مارا گیا۔ اعظم سواتی کو جرأت بہادری اور غیرت کا استعارہ قرار دیا جانا ہوگا۔ ان پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے گئے۔ غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ ایف آئی اے نے گرفتار کیا۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر ایاز نے گرفتاری کے بعدا نہیں دوسرے ہاتھوں میں دے دیا۔ جہاں ان کو ننگا کیا گیا۔ بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بڑی مشکل سے ضمانت ہوئی تو انہوں نے خاموشی سے سب کچھ ہضم کر کے بیٹھے رہنے کی بجائے ان لوگوں کے نام پوری دنیا کے سامنے رکھ دیئے۔ جو ان پر انسانیت سوز تشدد کراتے رہے تھے۔ جنرل فیصل نصیر اور بریگیڈیئر فہیم کو اپنی گرفتاری اور تشدد کاماسٹر مائنڈ اور ذمہ دار قرار دیا۔
عمران خان پر3نومبرکو قاتلانہ حملہ ہوا تو انہوں نے ایف آئی آر میں جن تین لوگوں کو نامزد کیا ان میں ایک میجر جنرل فیصل بھی تھے۔ اعظم سواتی مسلسل تقریروں اور پریس کانفرنسوں میں، اپنے ٹوئٹس میں جنرل باجوہ اور مذکورہ تین افسروں پر تابڑ توڑ حملے کرتے رہے۔ عمران خان کے پنڈی میں 26نومبر کے اجتماع میں اعظم سواتی نے جنرل باجوہ سے کچھ سوالات کئے۔ ”مجھے کس نے گرفتار کرایا ، عمران خان پر حملہ کس نے کروایا۔
ارشد شریف کو کس نے قتل کرایا۔
باجوہ صاحب آپ کے خاندان نے اربوں روپے کے اثاثے کیسے بنائے؟؟؟۔ اثاثوں کے حوالے سے خبر ایک ہفتے سے چل رہی تھی مگر اس کا ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار کی طرف سے جواب اعظم سواتی کے جذباتی ،غصے اور دکھی دل سے پوچھے گئے سوالات کے بعد آیا۔ اس کے ساتھ ہی راتوں رات سواتی کی گرفتاری کا عمل شروع ہو گیا مگر اب مجسٹریٹ ساتھ آیا۔ وارنٹ دکھائے گئے تو اعظم سواتی نے گرفتاری دے دی۔ ان کو ریمانڈ کے لیے پیش کیا گیا ان کی جانب سے الزامات کو تسلیم کر لیا گیا تو بھی ان کودوروز کاریمانڈ دے دیا گیا۔ایک طرف اعظم سواتی اور شہباز گل ایسے لوگ ہیں تو دوسری طرف چاپلو س اور چاپلوسنیاں ہیں ۔ آپ خوشامد کریں۔ تعریفوں کے پل باندھیں۔طبلے کی تھاپ پر تھرک تھرک جائیں۔ جو کچھ بیانئے میں کہا جاتا ہے اسے آگے پھیلا دیں مگر ان کی تشفی اور تسلی اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک عمران خان کے خلاف زہر نہ اُگل دیں۔ ان کو "پلوتے" نہ دے دیں۔ کردار کشی نہ کر دیں۔
جنرل باجوہ اپنی قوت سبکدوشی کے آخری لمحات تک ایکسرسائز کرنا چاہتے تھے۔ گو کہ کچھ معاملات میں ان کو غیر متعلق بھی کیا گیا تھا۔محسن داوڑ تاجکستان جانا چاہتے تھے۔ ان کو ملک سے باہر جانے سے روک دیا گیا۔ RCOمیں ایسے لوگوں کو پذیرائی بخشی گئی۔ علی وزیر نے جرنیلوں کو باڑ کی تاروں کے ذریعے پھانسی لگانے اور گھسیٹنے کی دھمکی دی تھی اسے بھی بڑے احترام کے ساتھ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد میں قیمتی ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے کراچی سے اسلام آباد لایا گیا۔ ہوئیں جنرل باجوہ کی خواہشات کے برعکس چلنے لگیں اور ان کی موجودگی میں ہی محسن داوڑ کو پاکستان سے باہر نہیں جانے دیا گیا۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ عمران خان نے ایسا کیاکر دیا جس سے جنرل باجوہ اس قدر نالاں ہوئے کہ ملک دشمنوں کے لیے ان کے دل میں پیار اور محبت کے جذبات ٹھاٹھیں مارنے لگے۔