بابری مسجد شہید کرنے والا گٹر کا پانی پی کر مر گیا

میں کچھ عرصہ قبل متحدہ عرب امارات دورے پر گیا۔ وہیں مجھے علم ہوا کہ بابری مسجد کو شہید کرنے کی مذموم مہم میں شامل اس وقت کے طاقتور سکھ لیڈر، بلولیر سنگھ کرم سنگھ بلویرا اب دولت ایمان سے سرفراز ہو چکے اور ابوظہبی میں مقیم ہیں۔ میں حافظ آفتاب احمد کی معیت میں خصوصی طور پر ابوظہبی پہنچا جہاں سید مدثر حسین شاہ اور دیگر دوستوں نے شام کی پرفضا گھڑیوں میں نو مسلم عبداللہ آدم شیخ بھائی سے ملاقات کا اہتمام کر رکھا تھا۔ عبداللہ آدم شیخ بھائی (سابق بلولیر)سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
س: والدین کے حوالے سے کچھ بتائیے۔
ج: میرے والد معروف آئی سرجن تھے۔ ان کا نام پرم سنگھ تھا۔ ہم تین بھائی ہیں: درندر سنگھ، سجتندر سنگھ اور میں۔ میرا اصل نام جتیندرا پرم سنگھ ہے۔ مہاراشٹر میں ہماری چار دکانیں تھیں جہاں پر ہم آپٹیکل کاروبار کرتے تھے۔
س: آپ ہندو نہیں سکھ تھے پھر بابری مسجد کی شہادت کے ناپاک فعل میں کیوں شامل ہوئے؟
ج: دراصل میرے والد آر یس ایس (RSS) کے لیڈر تھے۔ اس انتہا پسند ہندو جماعت کے کئی راہنما میرے والد کے دوست تھے۔ آر ایس ایس کے راہنما کٹر اور متشدد ہندو ہیں۔ بابری مسجد منہدم کرنے کے لیے بمبئی میں ایک اجلاس ہوا جہاں منصوبہ ترتیب دیا گیا۔ پھر ہم سارے لوگ ریل سے ایودھیا پہنچے اور اس ناپاک فعل کو مکمل کیا۔
س: شہادت کے دوران آپ کو خیال نہیں آیا کہ آپ بہت بڑا گناہ کر رہے ہیں؟
ج: جی ہاں، اس وقت میرے دل میں یہ کھٹکا سا تھا کہ کسی بھی مذہب کے لوگوں کی پوجا پاٹ کے علاقے کو نقصان پہنچانا ٹھیک نہیں لیکن پھر سب کا ساتھ دینا پڑا۔
س:بابری مسجد کو شہید کرنے کے بعد آپ کیا محسوس کررہے تھے؟
ج: جب میں واپس گھر پہنچا، تو مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی تھی۔ ڈرائونے خواب آتے۔ میں بہت بے چین سا ہو گیا۔ بعض مسلمان بھی میرے دوست تھے۔ میں اپنے مسلمان دوست مولانا واصف کے پاس گیا۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ سماجی بھلائی کے کام کرو مثلاً مساجد کی صفائی اور اللہ کی مخلوق کی خدمت۔ پھر سکھ ہونے کے باوجود سر پر عمامہ باندھ کر مسجدوں میں صفائی کرنے لگا۔
اس سے مجھے بہت سکون ملا۔ میرے بھائیوں کو جب پتا چلا تو انھوں نے مجھے مارا مگرمیں باز نہ آیا۔ مولانا واصف نے مجھے بتایا تھا کہ خدمت انسان سے خدا اور عبادت سے جنت ملتی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد میں پاگل سا ہو گیا تھا۔ دکانداری سے دل اچاٹ ہو گیا اور آوارہ گردی کرتا رہتا۔ لیکن مسجدوں کی صفائی اور دیگر رفاہی کام کرنے سے سکون ملتا۔
س:اسلام قبول کرنے کا خیال کیسے آیا؟
ج: الطاف میرا گہرا مسلمان دوست تھا۔ اس کا بھائی مبین بحری جہاز پر کام کرتا تھا۔ اس کا ایک ہی گردہ اور تھا جس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر سید جہانگیر سرجن تھے۔ انھوں نے کہا کہ مبین کو فوری طور پر گردہ درکار ہے۔ مبین بھی میرا اچھا دوست تھا۔ میں نے کہا کہ میں اسے گردہ دوں گا۔ سارے ٹیسٹ وغیرہ ہو گئے۔ جمعہ کو آپریشن تھا۔ میں جمعرات کی رات مقامی مسجد میں گیا لیکن دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔
میں نے دروازے پہ ہی بیٹھ کر ہی دعا مانگی کہ اے اللہ، میرے دوست کو تندرست کر دے۔ مقررہ وقت ڈاکٹر نے میرے دوست کا آپریشن شروع کیا۔ اسی دوان بجلی چلی گئی۔ جب پاور سپلائی بحال ہوئی، تو ڈاکٹر نے آ کر مجھے بتایا کہ گردہ توٹھیک ہے۔ ایک شریان میں تھوڑی سی خرابی تھی جو درست کر دی گئی ہے۔ اللہ اکبر! یوں میرے اللہ نے میری دعا قبول کر لی۔ تب میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن الطاف کی ماں نے مشورہ دیا کہ آپ یہاں اسلام قبول نہ کریں کسی مسلمان ملک میں جا کر مسلمان ہوجائیے۔
س:آپ نے اسلام قبول کیسے کیا؟
ج: جلد ہی مجھے دبئی میں سکھوں کی ایک کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ میرا اصل ارادہ دبئی جا کر مسلمان ہونا تھا۔ میں جس سکھ یا ہندو ساتھی سے بھی پوچھتا کہ اسلام کیسے قبول کیا جاتا ہے، تو وہ مجھ سے جھگڑ پڑتا۔ بہرحال میں نے پگڑی اتار دی،بال کاٹ دئیے اور بالکل گنجا ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد مسلمان دوستوں کے ذریعے معلوم ہوا کہ شارجہ مرکز میں پاکستان سے ایک تبلیغی جماعت آئی ہوئی ہے۔ اس میں ایک سو سالہ بزرگ بھی ہیں۔ شارجہ مرکز کے مسلمانوں نے میرے ساتھ تعاون کیا۔ انھوں نے مجھے غسل کرایا۔ نیا جوڑا لے کر دیا اور پھر کلمہ پڑھایا۔ کلمہ پڑھنے کے بعد تین دن تک میں شارجہ مرکز میں سکون کی نیند سوتا رہا۔ اس کے بعد واپس کمپنی میں آ گیا اور ڈیرہ دبئی میں البرا اسپتال سے ختنے کرائے۔
س:اسلام قبول کرنے کے بعدکیا مسائل سامنے آئے؟
ج: میری کمپنی میں صرف سکھ ہی کام کرتے تھے۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ میں مسلمان ہو چکا، تو وہ مجھے تنگ کرنے لگے۔ رات دو بجے اٹھا دیتے اور فیصلہ بدلنے پر مجبور کرتے۔ دھمکیاں اور گالیاں دیتے اور کبھی کبھی پیٹ بھی ڈالتے۔خدا کا کرنا یہ ہوا کہ دبئی پولیس میں ملازم عبدالمجید صاحب میرے واقف کار بن گئے۔ انھوں نے مجھے اپنا موبائل نمبر دیا اور کہا جب بھی کوئی مسئلہ بنے، مجھے فون لگانا، میں آ جائوں گا۔ میرا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ نام تبدیل کرانے کے لیے کمپنی نے پاسپورٹ دینے سے انکار کر دیا۔ ایک مسلم دوست نے کہا کہ بھارت چلے جائو، پھر وہاں سے کاغذات تبدیل کرا لو۔ میں بہت پریشان ہوا۔ ایک رات ایک اجنبی فون آیا۔ انھوں نے پوچھا ’’جدید مسلم‘‘ میں نے ہاں میں جواب دیا۔ وہ راشدیہ سے ایک عرب، عبدالباری صاحب تھے۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ لیبر کورٹ چلا جائوں۔ عبدالبادری صاحب نے ہی مجھے شارجہ میں مقیم نوبہار علی ایڈووکیٹ کے سپرد کیا۔ ہم دونوں لیبروزارت پہنچے، تو جج نے کہا ’’ان شاء اللہ آپ کو پاسپورٹ لے کر دوں گا۔ یہ بھارت نہیں خلیج ہے۔
اگر ایک اسلام قبول کرنے والے کو اتنی تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں، تو کون مسلمان ہو گا؟‘‘ جج نے کمپنی فون کیا کہ دس منٹ تک لیبر منسٹری پہنچ جائیں۔ کمپنی کا افسر تعلقات عامہ بھاگتا بھاگتا آ پہنچا۔ جج نے کہا کہ مجھے تم سے نہیں مالک سے بات کرنی ہے۔ اگر وہ نہ آیا، تو میں کمپنی کا لائسنس کینسل کر دوں گا۔ دس منٹ بعد مالک بھاگا بھاگا آیا۔ کہنے لگا، یہ ہمارا بھائی ہے، ہم اس کو پاسپورٹ دے گا۔ وہ پھر مجھے کمپنی لے گیا۔ وہاں وہ پھر اسلام قبول کرنے کا فیصلہ بدلنے پر مجبور کرنے لگا۔ دھمکیوں کے بعد تشدد کے ڈر سے میں غسل خانے چلا گیا۔ وہاں عبدالمجید بھائی (دبئی شرعہ) کو فون لگایا۔ وہ فوراً آ گئے۔ اب ان کی مدد سے آخر مجھے پاسپورٹ مل گیا۔ میں پھرشارجہ مرکز چلا گیا جہاں چار ماہ تک تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ رہا۔ پھر میں بھارت جا پہنچا۔
س:گھر والوں کو جب آپ کے مسلمان ہونے کا پتا چلا تو انھوں نے کس قسم کے رویے کا مظاہرہ کیا؟
ج: گھر والوں نے پٹائی کر کے مجھے گھر سے نکال دیا۔ میرے حصے کی جائداد مجھے ملنی تھی۔ لیکن مسلمان ہونے کے بعد ساری جائداد سے مجھے محروم کر دیا گیا۔
س:گھر سے نکل آنے کے بعد زندگی کیسے بسر ہوئی؟
ج: جب مجھے گھر سے نکال دیا گیا میں مولانا واصف کے پاس چلا گیا۔ انھوں نے مجھے مسلمان نام عبداللہ آدم دیا۔ میرا راشن کارڈ بنوایا اور مجھے بیٹا بنا لیا۔
س:آپ نے نماز، روزہ اور دیگر فرائض سے کیسے آگاہی پائی؟
ج: میں ۲۰۰۵ء میں مسلمان ہوا۔ نماز روزہ وغیرہ تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگانے سے سیکھے۔ یہ حقیقت ہے کہ میں نے سارا دین تبلیغی جماعت ہی سے سیکھا۔ مولانا طارق جمیل میرے آئیڈیل ہیں۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان جا کر ان سے ملاقات کروں۔
س:مسلمان ہونے کے بعد نکاح بھی کیا؟
ج: مولانا واصف ہی نے مجھے ایک دن کہاکہ آپ نکاح کر لیجیے۔ میں نے ہامی بھر لی۔ انھوں نے پوچھا، لڑکی کیسی ہونی چاہیے؟ میں نے جواب دیا، دین دار اور دین سکھانے والی ہو۔ مجھے اگلے دن مولانا واصف کا فون آیا کہ پرسوں دس بجے لڑکی کے گھر جانا ہے۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے۔ مولانا نے کہا کہ نکاح سے قبل لڑکی دیکھنا چاہتے ہو؟ میں نے جواب دیا، نہیں، وہ بس نیک سیرت ہو اور مجھے دین سکھا سکے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔ وہ کہنے لگے ’’لڑکی نیک سیرت لیکن معذور ہے۔‘‘ میں یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ دین سیکھنے کے ساتھ ساتھ عالمہ کی خدمت کا ثواب الگ اور ایک معذور کا ثواب الگ مل رہا تھا۔ الحمدللہ ۲۵؍نومبر ۲۰۰۷ء کو میں نے استخارے کے بعد ہاں کر دی۔ ۲؍دسمبر ۲۰۰۷ء کو نکاح ہوا۔ ایک سالی کی کفالت بھی میرے ذمے ہے۔ الحمدللہ اب میں محنت مزدوری کر کے بیوی بچوں کے ساتھ اس کی کفالت بھی کر رہا ہوں۔
س:اسلام قبول کرنے کے بعد والدہ سے ملاقات ہوئی؟
ج: جب بھائیوں نے مجھے مار کر بھگا دیا، تو ماں نے پیغام بھیجا، گھر نہ آنا، میں نے جب ملنا ہوا، باہر مل لوں گی۔ بھائی میری جان کے درپے تھے۔ لیکن ایک بار میں نہ رہ سکا۔ رات کو ماں سے ملنے چلا گیا۔ انھیں اپنے ساتھ بمبئی لے گیا اور ان کی خوب خدمت کی۔ جب ماں واپس پہنچی، تو بھائیوں نے سب رشتہ داروں کو بلا لیا۔ انھیں بتایا کہ جتیندر نے اسلام قبول کر لیا ہے اور ماں اسے ملنے گئی تھی۔ اس پر ماں کو کافی تنگ کیا گیا۔
س:اسلام قبول کرنے سے قبل آپ کے مسلمانوں سے کیسے تعلقات تھے؟
ج: میں سماجی کارکن تھا۔ اس حیثیت سے اپنے علاقے میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ لوگ میری بات سنتے تھے۔ ایک بار مسلمان ایک مقام پر مسجد بنانا چاہتے تھے لیکن انتظامیہ رکاوٹ بن گئی۔ مسلمان چاہتے تھے کہ مسجد بن جائے۔ یوں شدید تنائو کی کیفیت نے جنم لیا۔ مجھے ڈسٹرکٹ کلکٹر رتندر نے بلایا۔
میں وہاں پہنچا، تو اس نے کہا کہ مسجد گرانے کا آرڈر ہے۔ میں نے کہا کہ آپ مندر جاتے ہیں، اگر مسلمان مسجد جائے تو کیا گناہ ہے؟ وہ بگڑ گیا، کہنے لگا تم کون ہوتے ہو؟ یہ کہہ کر اس نے اپنا عملہ بلوایا اور زیر تعمیر مسجد گرا دی۔ اگلے چار دن چھٹیاں تھیں۔ میں نے اسی شام مسلمانوں کو بلایا اور ان سے دریافت کیا کہ اب کیا قدم اٹھانا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ ہم فوری طور پر مسجد تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ میں نے کہا، آپ مسجد تعمیر کر لیجیے، میں اپنی برادری کو دیکھ لوں گا۔ مسلمانوں نے بھاگ دوڑ کر کے سیمنٹ، اینٹ، سریا وغیرہ جمع کیا اور تین دن میں پکی مسجد تعمیر کر دی۔ اب حکومت یا سکھوں کے لیے اسے گرانا قانونی مسئلہ بن گیا۔ لہٰذا وہ ہاتھ ملتے رہ گئے اور کچھ نہ کر سکے۔
س:سکھ ہونے کے باوجود ایک طرف آپ نے مسجد تعمیر گرا دی، دوسری طرف بابری مسجدکی شہادت میں بھی حصہ لیا۔ بات کچھ سمجھ نہیں آئی؟
ج: دراصل میرے والد نے حکم دیا تھا کہ آر ایس ایس کے ساتھ ایودھیا جائو۔ چناںچہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس گناہ میں شریک ہونا پڑاجس کا مجھے آج بھی بہت افسوس ہے۔
س:آپ بتا سکتے ہیں کہ بابری مسجد کی شہادت میں حصہ لینے والے آپ کے واقف کاروں پر کیا بیتی؟
ج: استغفراللہ! اللہ معاف فرمائے، میں خود تقریباً نیم پاگل ہو گیا۔ نہ سونے کی فکر نہ کھانے کی پروا! دکانداری سے دل اچاٹ ہو گیا لیکن اللہ نے مجھے بچا لیا۔ مسجد شہید کرنے والوںمیں ہمارے علاقے کا ڈاکٹر مہاج بھی شامل تھا۔ اس نے ایک بار گٹر کا پانی پی لیا۔ اسی کے زہر سے چل بسا۔ ایک اور نوجوان، اندرا پاگل ہو کر مرا۔ بقیہ لوگوں کی بھی ایسی ہی عبرت ناک داستانیں ہیں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ڈرائونے خواب دکھائے، تو ایسے لگا جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ سدھر جائو۔یوں میں سیدھی راہ پر آ گیا۔
س:اسلام قبول کرلینے کے بعد بطور مسلمان آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں میں کیا خامی ہے؟
ج: خامیاں ہر مذہبی قوم کے افراد میں ہوتی ہیں۔ مسلمانوں میں بھی ہیں۔ لیکن ان پر قابو پانے کی کوشش ہونی چاہیے۔
س: مسلمانوں کے لیے پیغام؟
ج: ایسے کام کیجیے جن سے اللہ راضی ہو جائے۔ یہ ہر انسان کی منزل مراد ہونی چاہیے۔
س:اسلام قبول کر لینے کے بعد امارات حکومت نے کیسے ردعمل کا مظاہرہ کیا؟
ج: متحدہ عرب امارات بالخصوص اسلامک کلچر سنٹر ابوظہبی میں مسلمان بھائی اسلام قبول کرنے والوں کے لیے بہت کام کر رہے ہیں۔ حکومت کے علاوہ سبھی مسلمان نو مسلموں کی ہر طرح سے مدد کرتے ہیں۔ اسی دوران ایک ریسٹورنٹ کے مالک، مدثر حسین بول پڑے: ’’ہمارے ایک دوست، چودھری سلطان علی نے ایک بار بتایا کہ میں بھارت میں عبداللہ آدم شیخ بھائی کو عید پر تحائف بھجوا رہا ہوں۔ ہمارے پوچھنے پر انھوں نے مزید بتایا کہ عبداللہ بھائی نے اسلام قبول کر لیا۔ آج کل بھارت میں بے روزگار ہیں۔ میں نے کہا، انھیں یہاں بلا لیتے ہیں۔ ہم نے جب عبداللہ بھائی کا انٹرویو کیا، تو پتا چلا کہ وہ زائد الوزن اور شوگر کے مریض ہیں۔ تب ہم نے معذرت کر لی۔
’’اس کے بعد ایک ہفتے تک اضطرابی کیفیت کا شکار رہا۔ بالآخر ہم نے ان کا ویزہ جمع کروا دیا۔ آج الحمدللہ عبداللہ بھائی ہمارے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنی دو بچیوں اور ایک بیوہ سالی سمیت اپنے اہل خانہ کی کفالت کرتے ہیں۔ بلاشبہ ان کی یہاں موجودگی کسی معجزے سے کم نہیں۔‘‘