بڑی سچائی ‘ بڑا دھوکا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 14, 2021 | 20:28 شام

اسلام آباد پنڈی سے نذیر احمد فاروق کبھی دور کی کوڑی  لاتے ہیں۔ وہ ایک حکایت بتا رہے تھے۔’’ بادشاہ نے وزیر کوتین سوالوں کا جواب دینے کی شرط پر آدھی سلطنت دینے کاوعدہ کیا۔ وزیر نے لالچ میں آکر شرائط پوچھیں۔ بادشاہ نے شرائط 3 سوالوں کی صورت میں بتائیں۔

 دنیا کی سب سے ب

ڑی سچائی کیا ہے؟

 دنیا کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے؟

 دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے ؟

 بادشاہ نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ وہ ان تین سوالوں کے جواب ایک ہفتہ کے اندر اندر بتائے بصورت دیگر سزائے موت۔وزیر نے سب سے پہلے دنیا کی بڑی سچائی جاننے کیلئے دانشوروں کو جمع کیا۔انہوں نے اپنی اپنی نیکیاں شمار کرائیںلیکن سب سے بڑی سچائی کا پتہ نہ چل سکا۔اسکے بعد وزیر نے دنیا کا سب سے بڑا دھوکا جاننے کیلئے کہا تو تمام دانشور اپنے دیئے ہوئے فریب کا تذکرہ کرتے ہوئے سوچنے لگے لیکن وزیر اس سے بھی مطمئن نہ ہوا تو سزاکے خوف سے علاقہ چھوڑ گیا۔ اسے کہیں ایک کسان نظر آیا۔ وزیر نے اس کو اپنی بپتا سنائی۔ کسان نے سوالوں کی جواب کچھ یوں دیئے۔

 دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے۔دنیا کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے۔ تیسرے سوال کا جواب بتانے سے پہلے کسان نے کہا کہ میں اگر تمہارے سارے سوالوں کے جواب بتادوں تو مجھے کیا ملے گا۔ یہ سن کر وزیر نے اسے بیس گھوڑوں کی پیشکش کی ۔کسان نے یہ سن کر جواب دینے سے انکار کر دیا۔وزیر جانے لگا تو کسان بولا اگر بھاگ جائوگے تو ساری زندگی بھاگتے رہو گے ۔ پلٹو گے تو جان سے جائوگے۔یہ سن کر وزیر رک گیا اور کسان کو آدھی سلطنت کی پیشکش کی لیکن کسان نے اسے لینے سے انکار کر دیا۔اتنے میں ایک کتا آیا اور پیالے میں رکھے ہوئے دودھ سے آدھا پی کر چلا گیا۔کسان نے وزیر سے کہا مجھے آدھی سلطنت نہیں چاہیے بس تم اس بچے ہوئے دودھ کو پی لوتو میں تمہارے تیسرے سوال کا جواب بتادوں گا۔یہ سن کر وزیر تلملا کر رہ گیا مگرآدھی سلطنت کے لالچ میں اس نے دودھ پی لیا۔وزیر نے دودھ پی کر کسان کی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھا۔ کسان نے کہا دنیا کی سب سے میٹھی چیز انسان کی غرض اور لالچ ہے جس کی خاطر وہ ذلیل ترین کام بھی کرجاتا ہے۔

ضروری نہیں ایسے کام لالچ اور خودغرضی میں کئے جائیں۔کانٹے کنڈی میں کینچوا لگا کر مچھلی پکڑی جاتی ہے۔ مچھلی پکڑنے گئے تو بچہ بھی بڑوں کے ساتھ چلا گیا۔ کینچوا دیکھ کر اس نے اسے کھانے کی ضد شروع کر دی اور رونے ، چلانے لگا۔ قریب سے دانشورملا گزر رہے تھے۔ بچے کے رونے کی وجہ پوجھی تو اسے بچے پر ترس آگیا اور اسکے بڑے سے کہا دھو کر اسے کھلانے میں کیا حرج ہے۔ کینچوا ایک سیبہ نما کیڑا ہے۔ تین چار انچ لمبائی ہوتی ہے۔ مٹی میں رہتا ہے اس کے جسم میں مٹی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ آنکھ‘ کان نہ کچھ دوسرے اعضاء کچھ بھی نہیں۔ بدن سے مٹی نکل جائے صاف شفاف جسم رہ جاتا ہے۔ بڑے نے دھو سنوار کر کینچوا جسے گڈویا بھی کہتے ہیں‘ بچے کو دیدیا۔ اس نے ضد کی کہ پہلے آدھا دانشورصاحب کھائیں۔ انہوں نے بچے کی حالت دیکھ کر کڑا دل کیا اور آدھا کھا لیا۔ بچے کو کہا لو اب کھائو۔ بچہ زیادہ زور سے رونے چلانے اور تڑپنے لگا۔ مولوی صاحب جوکھایا ہے وہ نکالیں۔

دانشور سات پردوں میں چھپے نہیں ہوتے۔ ہمارے پاس ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی انہیں ایسا نہ کہتا ہو اور وہ خود بھی نہ کہلاتے ہوں۔ انڈر پاس کے نیچے غلطی سے ٹرک چلا گیا اور بریکیں لگاتے لگاتے بھی چھت سے چھت ٹکرائی اور ٹرک پھنس گیا۔ عقب سے ٹریفک جام ہونے لگی۔ قریب سے مست مولا قسم کا شخص گزر رہا تھا۔ اس نے رکے بغیر کہا ٹائروں سے ہوا کم کر لو۔ یہ دانشور نہ بھی ہو یہ کامن سینس کی بات تھی۔ کامن سینس سے یاد آیا سردار جی شہر گئے وہاں دانشوروں کے پاس بیٹھے تھے۔ کسی نے باتوں باتوں میں کہہ دیا یہ کامن سینس کی بات ہے۔ سردار کو سمجھ نہ آئی تو پوچھ لیا۔ دانشور نے اپنا ہاتھ میز پر رکھا اسے کہا اس پر مکا مارو۔ اس نے مکا مارا تو اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا۔ سردار کا ہاتھ میز پر پڑا تو دانشور نے کہا میں نے کامن سنس سے کام لیا۔ سردار جی گھر گئے، شام کو چوپال چلے گئے تو بتانے لگے کامن سینس کسے کہتے ہیں۔وہاں میز نہیں تھا۔ اپنے گال پر ہاتھ رکھا۔ دوسرے کو کہا مکا مارو۔ اس نے ہاتھ پر مکا مارا تو سردار نے اپنا ہاتھ نیچے کر لیا۔ چار نوجوان نائلن کی رسی دو اِس طرف دو اس طرف کھڑے کھینچ رہے تھے۔ قریب سے گزرتے شخص نے رسہ کشی کی وجہ پوچھی۔ انہوں نے بتایا رسی کے دو حصے کرنے ہیں۔ اجنبی نے پوچھا ماچس ہوگی ؟تین نے اپنی اپنی جیب سے ماچس نکال لی۔ ایک ماچس لیکر اس نے تیلی جلائی اور چندثانیے میں رسی کے دو حصے کردیئے۔ ہمارے ہاں کون سا ادارہ ہے کون سا شعبہ ہے جس کے لوگ بدعنوانی، بے ایمانی اور بددیانتی جیسی ’’خرابات‘‘ سے پاک ہوں۔ اچھے لوگ بلاشبہ موجود ہیں مگر زیادہ تر خرافات میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ پیسہ کمانے اور بنانے کی دوڑ لگی ہے۔ آخر اتنا پیسہ کہاں لے جائینگے؟ انسان کی بنیادی ضرورت گھر، لباس اور دو وقت کی روٹی ہے مگر سامان کئی’’ لاکھ برس‘‘ کا مگر پل کی خبر نہیں ۔ ہوس زر ہے کہ اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ ایسے امیر اور متمول بھی دیکھے ہیں جو خدائے بزرگ برتر کی عمدہ نعمتوں سے زیادہ کڑوی کسیلی دوائیاں کھاتے ہیں، انکے گھوڑوں اورکتوں کی خوراک مثالی ہوتی ہے۔ میرے سماجی رابطے محدود اور کہیں سے بھی اندر کی خبر کا ذریعہ نہیں۔ میں کئی ریٹائرڈ، جرنیلوں، ججوں ، بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کو جانتا ہوں جنہوں نے ناجائز ذرائع سے دولت کے ڈھیر لگائے۔ کسی کو اولاد نے دھتکارا، کوئی قانون کے شکنجے میں آکر ذلیل و خوار ہوا کوئی ڈاکٹروں کیلئے تجربہ گاہ بن گیا۔