وحشیانہ جنسی تشدد بیہوش ہونے کے بعد بھی نہ چھوڑا
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع دسمبر 15, 2016 | 18:56 شام
برلن (شفق ڈیسک) شمالی عراق کی وادی سنجار پر جس دن داعش کے شدت پسندوں نے دھاوا بولا اس دن ظلم و بربریت کی ایک ایسی داستان کا آغاز کیا گیا کہ جس کا ایک ایک لفظ مظلوموں کے خون اور ان کی آہوں و سسکیوں سے عبارت ہے۔ شدت پسندوں نے وادی سنجار میں آباد یزیدی مذہب کے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد ہزاروں مردوں کو انکے اہلخانہ کے سامنے گولیوں سے بھون دیا جبکہ خواتین اور لڑکیوں کو اغواء کر کے پہلے عراقی شہر موصل اور پھر داعش کے مرکز شامی شہر رقہ پہنچا دیا گیا۔ اغواء کی گئی بدقسمت لڑکیوں میں 18 سالہ لامیہ بشر اور 23 سالہ نادیہ مراد بھی شامل تھیں، جنہیں 2014ء کے وسط میں موصل شہر کے قید خانے میں پہنچایا گیا۔ جرمنی میں یورپین سخاروف ایوارڈزکی تقریب کے دوران نادیہ نامی لڑکی نے پہلی بار اپنی لرزہ خیز داستان دنیا کے سامنے کچھ یوں بیان کی۔ جس دن ہمارے گاؤں پر قبضہ ہوا میرے آٹھ بھائیوں میں سے چھ کو میرے سامنے قتل کیا گیا۔ گاؤں کے سینکڑوں دوسرے مردوں کو بھی ہلاک کر دیا گیا تمام خواتین اور لڑکیوں کو گاڑیوں میں بھر لیا گیا۔ مجھے 150 دیگر لڑکیوں کے ساتھ موصل لیجایا گیا۔ جب ہمیں موصل لیجایا جا رہا تھا تو راستے میں ہی شدت پسندوں نے ہمارے ساتھ بدسلوکی شروع کر دی۔ وہ ہمیں چھوتے تھے اور قہقہے لگاتے تھے۔ موصل پہنچتے ہی تمام لڑکیوں کو شدت پسندوں کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا۔ مجھے بھی ایک شخص نے خریدا اور اس رات زبردستی مجھے نیا لباس پہنایا اور میک اپ کرنے کو کہا۔ پھر تمام رات وہ میری عصمت دری کرتا رہا۔ یہ سلسلہ ایک عرصے تک چلتا رہا۔ جب میں نے ایک روز فرار ہونے کی کوشش کی تو ایک گارڈ نے مجھے پکڑ لیا۔ مجھے خریدنے والے شدت پسند نے مجھے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر مجھے برہنہ کر کے گارڈز کے کمرے میں بھیج دیا۔ پھر انہوں نے مجھ پر اس ظلم کا آغاز کیا جو میرے لئے موت سے بھی بدتر تھا۔ انہوں نے مجھ پر وحشیانہ جنسی تشدد کیا اور مسلسل میری عصمت دری کرتے رہے یہاں تک کہ میں بیہوش ہوگئی۔ شاید اکثر لوگ سوچیں گے کہ میری کہانی بہت دردناک ہے لیکن میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ وہاں 9 سالہ بچیوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا ہے اور بے شمار افراد انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ میرے چھ بھائیوں کو ہلاک کیا گیا لیکن وہاں ایسی لڑکیاں بھی تھیں جن کے 10 بھائیوں کو قتل کیا گیا اور جن کے پورے خاندان مٹادئیے گئے۔ نادیہ اور اسکی ساتھی لڑکی لامیہ ان خوش قسمت لڑکیوں میں شامل ہیں جو کئی ماہ تک شدت پسندوں کی قید میں رہنے کے بعد بالآخر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئیں۔ لامیہ نے بتایا کہ وہ متعدد لڑکیوں کے ساتھ فرار ہوئی تھیں لیکن ایک بارودی سرنگ پھٹنے سے ان کی تین ساتھی لڑکیاں ہلاک ہوگئیں جبکہ اس کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی۔ ایک آنکھ سے محروم ہونے کے باوجود اس کا کہنا ہے کہ قید میں انکے ساتھ جو بربریت کی گئی وہ دونوں آنکھوں کی محرومی سے بھی بدتر تھی۔ نادیہ اور لامیہ کو جرمنی میں انسانی حقوق کے ممتاز انعام یورپین سخاروف ایوارڈ سے نوازا گیا انہوں نے اس ایوارڈ کو وادی سنجار کی ان ہزاروں لڑکیوں کے نام کیا جو اب بھی شدت پسندوں کی قید میں جنسی غلامی کے دن گزار رہی ہیں۔