متنازعہ کمیٹی رپورٹ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد پیش کرے گی
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع نومبر 08, 2016 | 18:49 شام

پاکستان میں حزبِ مخالف کی بڑی جماعتوں نے حکومت کی تشکیل کردہ اُس سات رکنی تحقیقاتی کمیٹی کو مسترد کر دیا ہے جو ایوانِ وزیر اعظم سے مبینہ طور پر لیک ہونے والی 'قومی سلامتی کے
سیاسی جماعتوں کے اعتراض کی وجہ کمیٹی کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا خان کے ایسے کوائف ہیں جو ممکنہ طور پر مفادات کے تضاد کی وجہ بن سکتے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے وکیل رہنما نے اِس کمیٹی کی تشکیل کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلینج بھی کردیا ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا خان پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے بورڈ آف کمشنرز کے چیئر مین ہیں۔اِس عہدے پر اُن کی تعیناتی پچیس اکتوبر سنہ 2011 میں پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن 2011 کے تحت ہوئی تھی۔ اِس سے قبل وہ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب اور ایڈیشنل اٹارٹی جنرل پاکستان رہ چکے ہیں۔
جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا خان اُن ججز میں سے ہیں جنہوں جنرل ضیاالحق کے پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری تعلیمی ادارے پنجاب یونیورسٹی اور ایک اور نجی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے اُن کا نام 2013 کے عام انتخابات سے قبل نگراں یا عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر تجویز کیا تھا لیکن دیگر جماعتوں کے اعتراض کے بعد واپس لے لیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیرِ اطلاعات قمرزمان کائرہ اِس کمیٹی کے قیام کو معاملے کو مبہم کرنے اور دبانے کی کوشش قرار دیتے ہیں
سیاسی جماعتوں کا اعتراض صرف اِس سات رکنی کمیٹی کے سربراہ پر ہی نہیں بلکہ اِس کمیٹی کے ایک اور ممبر محتسبِ اعلیٰ پنجاب نجم سعید پر بھی ہے جو کہ ایسے صوبے میں سرکاری ملازم ہیں جہاں وفاق کی طرح حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ کی ہی حکومت ہے۔
پاکستان عوامی تحریک کےوکیل رہنما اشتیاق چوہدری نے منگل کے روز لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن بھی دائر کی ہے جس میں کمیٹی کے سربراہ کی اہلیت اور اِس کمیٹی کے دائرہ کار کے بارے میں اعتراض کیا گیا ہے۔
اشتیاق چوہدری کا کہناہے کہ 1962 کے تحفظ پاکستان ایکٹ کے مطابق اِس معاملے کی تحقیقات سول ادارے نہیں بلکہ افواجِ پاکستان کر سکتی ہے۔ اِس کے علاوہ درخواست میں یہ سوال بھی اُٹھایا گی اہے کہ پنجاب حکومت کے ملازم اور تنخواہ یافتہ شخص سے کیسے یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی کام کرئے گا؟
پاکستان تحریکِ انصاف کے سیکریٹری اطلاعات نعیم الحق نے اِس سات رکنی کمیٹی کو اپنی جماعت کی طرف سے مسترد کیا ہے اور کمیٹی سربراہ جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا خان اور دیگر ممبران پر مفادات کے تصادم کا الزام عائد کیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیرِ اطلاعات قمرزمان کائرہ اِس کمیٹی کے قیام کو معاملے کو مبہم کرنے اور دبانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ 'یہ کمیٹی حکومت نے اپنے پسندیدہ لوگوں پر مشتمل افراد پر بنائی ہے جس کے ضابطہ کار اور اختیارات بھی واضع نہیں ہیں کہ یہ کیسے وزرا، وزیرِ اعظم اور مسلح افواج کے نمائندوں سے پوچھ گچھ کرے گی۔ میرا خیال ہے کہ یہ معاملے کو مبہم بنانے اور ایک لمبی لائن میں لگانے کی کوشش ہے اِس کے علاوہ اِس میں سے کچھ نہیں نکلے گا'۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی کا کہنا ہے کہ اِس کمیٹی کی تشکیل سے پہلے مشاروت کی جانی ضروری تھی جو نہیں کی گئی اور پیپلزپارٹی کو اِس پر تحفظات ہیں جن کا اظہار قائد حزبِ اختلاف متعلقہ فورم پر کریں گے۔ اُن کا کہنا تھا 'ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا اگر مذید اعتراضات آتے ہیں تو مشاروت کے بعد کمیٹی کی تشکیل نو کی جا سکتی ہے۔ ‘
حکمراں جماعت کے سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کا کہناہے کہ اِس معاملے پر خود حکومت کو تشویش ہے اور اِس کی تحقیق بھی حکومت ہی کرانا چاہتی ہے تاکہ اصل محرکات کا پتہ چل سکے اِس معاملے پر تمام جماعتوں کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ 'سیاسی جماعتوں کا کام سیاست کرنا ہے اور وہ ہر چیز میں کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں'۔
'قومی سلامتی کے منافی' ایک خبر چھ اکتوبر کو انگریزی اخبار ڈان میں شائع ہوئی تھی جس میں غیر ریاستی عناصر یا غیر قانونی تنظیموں کے معاملے پر فوج اور سول حکومت میں اختلاف کا ذکر کیا گیا تھا تاہم حکومت اور فوج دونوں نے اس خبر کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیا تھا۔
پاکستان کی وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کیئے جانے والے نوٹیفکیشن کے مطابق اعلیٰ سطح کی اس سات رکنی کمیٹی کی سربراہی ریٹائرڈ جج جسٹس عامر رضا خان کو سونپی گئی ہے۔ کمیٹی کے ممبران میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز، محتسبِ اعلیٰ پنجاب نجم سعید اور وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان انور شامل ہیں۔ اُن کے علاوہ اس تحقیقاتی کمیٹی میں پاکستانی خفیہ اداروں آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کا بھی ایک ایک نمائندہ شامل ہوگا۔
کمیٹی کو ایک ماہ کے اندر اپنی رپورٹ جمع کرانے کا ہدف دیا گیا ہے اس کے علاوہ خبر کی اشاعت کے پیچھے کارفرما مقصاد کا تعین کرنا بھی کمیٹی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
واضح رہے کہ رواں ماہ کے آخر تک فوجی سربراہ کی ریٹائرمنٹ اور نئے سربراہ کی تقرری کے ساتھ ہی عسکری سیادت میں بڑی تبدیلیاں آنے کا امکان ہے۔
یہ خبر چھ اکتوبر کو شائع ہوئی تھی۔ جس کے بعد 29 اکتوبر کو وزیرِ اعظم نے اپنی کابینہ کے رُکن اور وزیرِ اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو بھی اُن کے عہدے سے اِس بات پر ہٹا دیا تھا کہ اُنھوں نے اِس خبر کو رکوانے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا۔