انڈیا میں مسلمان طالب علم کو داڑھی رکھنے پر کالج سے نکال دیا گیا
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع دسمبر 29, 2016 | 17:46 شام

بڑھوانی(مانیٹرنگ ڈیسک):انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع بڑھوانی میں میڈیکل کالج کے ایک مسلمان طالب علم نے الزام عائد کیا ہے کہ داڑھی رکھنے کی وجہ سے کالج کی انتظامیہ نے اس پر اتنا دباؤ ڈالا کہ اسے اپنی تعلیم سے محروم ہونا پڑا۔اسد خان بڑھوانی کے ’ارہنت ہومیو پیتھک میڈیکل کالج‘ میں زیر تعلیم تھے۔ انھوں نے اسی کالج پر یہ الزامات عائد کیے ہیں۔لیکن کالج کے پرنسپل ایم کے جین نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کہنا ہے کہ مذکورہ طالب علم نے کالج سے ٹرانسفر لینے کی درخواست دی تھی اوران
ھیں ٹرانسفر سرٹیفیکیٹ جاری کیا جا چکا ہے۔ضلع بڑھوانی کے مجسٹریٹ تیجسوی ایس نائیک نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس سلسلے میں طالب علم نے شکایت درج کراوئی تھی کہ داڑھی رکھنے کی وجہ سے اس کے ساتھ امتیازی سلوک ہوا اور اب اس معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے۔اسد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے دسمبر 2013 میں کالج میں داخلہ لیا تھا اور اس وقت انھوں نے داڑھی نہیں رکھی ہوئی تھیانھوں نے کہا کہ متعلقہ کالج میں سکالرشپ سے منسلک ایک معاملے کی تحقیقات پہلے سے ہی چل رہی تھی اور اسی کے ساتھ اس معاملے کی جانچ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔مذکورہ طالب علم اسد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے دسمبر 2013 میں اس کالج میں داخلہ لیا تھا اور اس وقت انھوں نے داڑھی نہیں رکھی ہوئی تھی۔اسد کا کہنا ہے کہ کالج کے پرنسپل ایم کے جین نے ان پر بار بار داڑھی کٹوانے کا دباؤ ڈالا تھا۔اسد خان نے بی بی سی سے بات کرتے کہا ’میں نے تین ماہ تک اسے نظر انداز کیا۔ وہ دباؤ ڈالتے رہے، مجھے کلاس سے باہر بھی نکال دیا جاتا تھا۔ جب میں نے کہا کہ داڑھی رکھنا میرا حق ہے اور میں نہیں كٹواؤں گا تو میرے کالج میں داخلے پر ہی پابندی لگا دی گئی۔‘لیکن کالج کے پرنسپل ایم کے جین نے کہا کہ ’ہم نے کبھی داڑھی کٹوانے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا۔ ہمارے کالج میں اور طالب علم بھی داڑھی رکھتے ہیں۔‘اسد نے اپنی شکایت کے ساتھ ضلع انتظامیہ کو فون کالز کے ریکارڈ اور پرنسپل کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی ویڈيو سی ڈیز ثبوت کے طور پر پیش کی ہیں۔اگست2016 میں کالج نے اسد کو ٹرانسفر سرٹیفیکیٹ جاری کیا تھا تاہم اسد نے الزام لگايا ہے کہ ’کالج نے دوسرے سال کی میری حاضری صفر دکھا دی ہے جس کی وجہ سے میں کہیں داخلہ نہیں لے سکتا۔ یہ سراسر غلط ہے اس کی تفتیش ہونی چاہیے۔‘اس بارے میں جب میڈیا میں خبریں شائع ہوئیں تو اس معاملے پر سوشل میڈیا پر بھی تبصرے کیے جا رہے ہیں۔دلی کے سماجی کارکن ندیم خان کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو عدالت تک لے کر جائیں گے اور اندور کی ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔