نام نہاد آپریشن فیئر پلے کی کہانی

2017 ,جولائی 5



لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک / جی آر اعوان):5 جولائی 1977ء کا دن تھا صبح 6 بجے کی خبر یں معمولات کے مطابق آتی آتی رک گئیں۔ قدرے توقف کے بعد نیوز ریڈر نے کہا پاکستان کی مسلح افواج نے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت برطرف کر دی گئی اور انہیں حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔ یہ نام نہاد آپریشن فیئر پلے کی کہانی کا آغاز تھا۔ اس کے حوالے سے زیر نظر تحریر میں حقائق کا جائزہ لیا گیا ہے۔

حفیظ پیرزادہ اور پروفیسر عبدالغفور حکومت اور پی این اے کی مذاکراتی ٹیم کے اہم رکن تھے۔ دونوں متحارب رہنمائوں نے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ چار اور پانچ جولائی کو پاکستان قومی اتحاد اور حکومت کے درمیان ایک مکمل معاہدہ طے پا گیا تھا۔ جب پروفیسر غفور یہ معاہدہ لے کر تحریک استقلال کے ایک اہم رہنما رفیع بٹ کے پاس پہنچے تو ائر مارشل اصغر خان اور بیگم نسیم ولی خان کا رد عمل یہ تھا کہ آپ کون ہوتے ہیں معاہدے کو حتمی قرار دینے والے۔

5 جولائی 1977ء کی رات اڑھائی بجے وزیراعظم کے فون کی گھنٹی بجی اور جنرل ضیاء نے انہیں اطلاع دی کہ آپ کی حکومت ختم ہو چکی ہے اور اقتدار مسلح افواج نے سنبھال لیا ہے۔ سر ! ہم نوے روز کے لئے آئے ہیں۔ الیکشن کرانے کا کام فوج کرے گی۔ اگر آپ دوبارہ منتخب ہوئے تو ہم آپ کو سلیوٹ کریں گے۔ آپ ہماری حفاظت میں ہیں پارلیمنٹ توڑ دی گئی ہے۔ اور ملک میں مارشل لاء نافذ ہے۔ اسلام کے خود ساختہ سپاہی ضیاء الحق کا تاریخی پس منظر ناقابل فراموش ہے۔ فلسطینیوں نے جب اسرائیل کو فوجی شکست سے دو چار کیا تو اس وقت کے بریگیڈیئر ضیاء الحق نے 20 ہزار سے زائد فلسطینیوں کا قتل عام کر کے اسرائیل کی شکست فتح اور فلسطینیوں کو شکست میں بدل دیا۔ اس قتل عام کو تاریخ میں ’’بلیک ستمبر‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس قتل عام کے بعد فلسطینی قیادت کو اردن سے دھکیل کر باہر کر دیا گیا۔ امریکہ کے چہیتے مرحوم شاہ حسین نے بریگیڈیئر ضیاء الحق کو ’’اردن کے اعلیٰ اعزاز کو کب استقلال‘‘ سے نوازا جو جنرل ضیاء الحق نے مرتے دم تک سینے پر سجائے رکھا اور ان کی فائل پر اعلیٰ خدمات کے لئے تعریفی کلمات ثبت کئے گئے جسے بعد میں دنیا کے اعلیٰ حکام نے سفارش تسلیم کرتے ہوئے قبول کیا۔

5 جولائی 1977ء کے نام نہاد آپریشن فیئر پلے کو امریکی اور برطانوی ماہرین کے اس اجلاس کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جو 3 ستمبر 1976 کو سی آئی اے کے سربراہ جارج بش کی زیر ہدایت لندن میں ہوا۔ یاد رہے یہی جارج بش پہلے امریکہ کے نائب اور بعد میں صدر بنے۔ اس اجلاس میں بھٹو حکومت کے خاتمے کی حکمت عملی طے کی گئی۔ جس کے تحت پہلے مرحلے پر دیر اور چترال کے قبائل میں ہنگامے برپا کر کے پاک افغان ڈپلومیسی کو سبوتاژ کرنا شامل تھا تا کہ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ دوبارہ کھٹائی میں پڑ جائے۔ حالانکہ جون6 197 کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے افغانستان کے صدر سردار دائود کے ساتھ مذاکرات میں اسے تیار کر لیا تھا کہ آئندہ ایک معاہدہ کے تحت ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کر لیا جائے گا۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان صرف ڈیورنڈ لائن اور نیپ کے گرفتار رہنمائوں کی رہائی کے وقت پر اختلاف تھا۔

ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو دوبارہ کھٹائی میں ڈالنے کے لئے قبائلی سرداروں اور مذہبی رہنمائوں پر ڈالروں کی بارش کر دی گئی۔ پاکستان میں امریکی سازش کی حکمت عملی پر عمل کے لئے اسلام آباد میں یورپ کے ایک چھوٹے ملک کے سفارت خانے کو مرکز بنایا گیا۔ جبکہ تہران میں امریکی سفارتخانے سے نکلنے والے جاسوسی کے کاغذات یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ سی آئی اے نے خصوصی طور پر ایک سیل تشکیل دیا۔ جس کا نام ’’ڈیپارٹمنٹ آف ہائر انٹیلی جنس پاکستان پراسسنگ ڈویژن‘‘ رکھا گیا ۔جس کا مقصد پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو سبوتاژ کرنا تھا۔ مارچ 1976 کو جنرل ضیاء کوبری فوج کا چیف آف آرمی سٹاف بنایا گیا۔ ستمبر 1976ء میں ایک طویل پلان کے تحت غیر ملکی سازش نے پاکستان میں اپنا کام شروع کر دیا۔

شاہ ایران کے ذریعے بھٹو حکومت کو وقت سے پہلے الیکشن کرانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کامیاب کرائی گئی۔ یوں 1977ء میں عام انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی پورا ملک بھرپور سیاسی فضا میں داخل ہو گیا۔ منصوبے کے تحت مذہبی اور سیکولر بھٹو مخالف سیاسی قوتوں کو اکٹھا کرنے کا اہتمام کیا گیا اور جس میں امریکی ڈالرز نے نمایاں کردار ادا کیا۔ عوام کو سڑکوں پر لانے کے لئے مذہبی، تاجر اور صنعت کار بھی مذہبی حلقوں کے اتحادی بنا دیئے گئے۔

بھٹو انتخابی مہم میں اپنے اقتصادی پروگرام، اسلامی دنیا،تیسری دنیا کے نعرے کے ساتھ ساتھ اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے میدان میں اترے جب کہ قومی اتحاد نے الیکشن سے پہلے مہنگائی اور اسلامی نظام کو اپنا انتخابی نعرہ بنایا۔ پی این اے کے بانی اور جنرل سیکرٹری رفیق باجوہ کے مطابق ’’پاکستان قومی اتحاد کا بننا خود پاکستان کے خلاف ایک سازش تھا جس کے لئے بائیں بازو کی جماعت کام کر رہی تھی۔ غیر ملکی حکومت کے اشارے پر اس جماعت نے ان جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جو کسی نہ کسی طرح حکومت کے خلاف تھیں اس اتحاد کی کوشش تھی کہ حکومت ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔

آپریشن فیئر پلے کے تحت امریکیوں نے کوڈ جملے بھی طے کر لئے تھے۔ 28ء اپریل 1977ء کو بھٹو نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں غیر ملکی سازش پر اظہار خیال کیا۔ ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی امریکی وزیر خارجہ سائرس وانس نے بھٹو کو مذاکرات کے لئے خط لکھا۔ وزیر خارجہ عزیز احمد مذاکرات کے لئے امریکہ گئے۔جب 30 اپریل کو پی این اے نے پہیہ جام کر دیا تو اس کے بعد 9 مئی سے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے امریکیوںکو بھی ان کی حکومت نے کام کرنے سے روک دیا۔ اس فیصلہ کن موڑ پر بھٹو نے پاک سوویت تعلقات کو از سر نو استوار کرنے کے لئے حکمت عملی اختیار کی۔اس دوران امریکی صدر جمی کارٹر سات ترقی یافتہ ممالک کی قیادت سے ملاقات کر کے پاکستان کے ساتھ ایٹمی پلانٹ کا معاہدہ منسوخ کروانے کی کوشش کرتے رہے۔جمی کارٹر نے پاکستان کا دورہ منسوخ کر کے بھارتی وزیراعظم مرار جی ڈیسائی کو بتایا کہ وہ جلد پاکستان کے بجائے بھارت کا دورہ کریں گے۔ 20 جون کو ذوالفقار علی بھٹو نے تیسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کا اعادہ کیا۔ 21 جون کو امریکی صدر کے ایک اہم رکن نے ایک خط شائع کیا جس میں ناجائز منشیات کے امور اور صحت کے ڈائریکٹر پیٹر بورن کو مخاطب کر کے آگاہ کیاگیا کہ وزیراعظم بھٹو کی حکومت چند دن کی مہمان ہے۔ اس خط میں یہ بھی لکھا کہ بھٹو حکومت کے بعد پاکستان سے آنیوالی منشیات کی روک تھام کے منصوبوں کو سخت نقصان پہنچے گا۔ جون کے وسط میں حکومت اور پی این اے کے درمیان اصولی معاہدہ ہو رہا تھا۔ اس دوران امریکہ نے پاکستان کی اقتصادی امداد روک دی اور امداد دینے والے کنسورشیم نے بھی امداد دینے کا فیصلہ 24 جولائی تک ملتوی کر دیا۔ وزیراعظم بھٹو اپنی سفارتی مہم کیلئے عرب ممالک دورے پر بھی روانہ ہوئے تا کہ دوست ممالک کو امریکی سازش سے آگاہ کیا جائے۔ مگر نام نہاد آپریشن فیئر پلے نے ساری بساط الٹ کے رکھ دی۔

متعلقہ خبریں