بھٹو عید کے ڈوبتے سورج کے ساتھ

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/ نعیم الحسن):1977ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے خلاف 9جماعتیں قومی اتحاد کی جماعتوں کی جانب سے انتخابی دھاندلیوں کے جواب میں احتجاجی تحریک جاری تھی کہ اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق نے نتیجہ خیزمذاکرات کے موقع پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔مارچ میں عام انتخابات کے انقاد اور تحریک چلنے کے بعدسے لے کر 2جولائی تک مذاکرات کا عمل معمول کے مطابق جاری رہا۔ ایجی ٹیشن میں اپوزیشن کا مبینہ دھاندلی والی نشستوں پر دوبارہ انتخابات کروانے کا سر فہرست مطالبہ بھی مان لیا گیا۔ لیکن وزیر اعظم اور ان کے حکومت کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے باوجود حکومت اور سیاسی قیادت سے بالا بالا بری فوج کے سر براہ جنرل ضیاء الحق نے اس دوران اپنا ہدف مکمل کر لیا۔
ملکی سیاست میں فوج کے ممکنہ عزائم کے بارے میں کیونکہ پہلے سے تجربات موجود تھے ، اس نازک مرحلے پر جب حکومت نے کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں نظم و نسق فوج کے حوالے کیا تو پی این اے کے اہم رکن تحریک استقلال کے سر براہ ایئر مارشل اصغر خان نے مسلح افواج کے نام ایک خط میں فوجی قیادت پرواضح کر دیا کہ انہیں صرف آئین کی پاسداری کا ثبوت دینا ہو گا بصورت دیگر حکومت بھی غیر آئینی اقدامات کیلئے کہے تو اسے انکارکردینا چاہئے۔ مگر حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کے دوران حقائق اس کے برعکس دکھائی دیتے رہے۔ ایک طرف جنرل ضیاء الحق سینے سپر ہاتھ رکھے حکومت وقت سے اس بات کا اعادہ کرتے رہے کہ وہ آخری حد تک ان کے ساتھ ہیں،'' وی شیل سپوٹ یو اپ ٹو دی ہٹ'' دوسری جانب انہوں نے مذاکرات کو کامیاب ہوتا دیکھ کر پورے ملک کی سیاسی قیادت کو مفاہمی عمل سے نکال باہر کیا اور مارشل کے ذریعے خود اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
ملک میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ زور پکڑ رہا تھا اس دوران حکومتکو غیر ملکی مداخلت کے شواہد بھی مل رہے تھے ۔ایجی ٹیشن کے دوران امریکی سفارتکار کو اپنے اعلیٰ عہدیدار کوٹیلیفون پر یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا '' پارٹی از اور'' ۔ مگر اس کے جواب میں انہی دنوں پارلیمنٹ سے خطاب میں وزیر اعظم بھٹو نے واضح کیا کہ حضرات پارٹی ہرگز ختم نہیں ہوئی الحمد اللہ یہ قائم دائم ہے۔ پھر اسی دوران امریکی وزیر خارجہ سائرس وانس کا حکومت کے نام مکتوب موصول ہوا جس میں انہوںنے رازداری سے معاملات طے کرنے کی خواہش ظاہر کی، لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے راجہ بازار میں جیپ پر کھڑے ہو کراس مکتوب کو لہراتے ہوئے ساز باز کی اس خواہش کوبے نقاب کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنے سینئر پارٹی رہنمائوں حفیظ پیر زادہ اور مولانا کوثر نیازی کے ساتھ مل کراپوزیشن سے مفاہمت اور سیاسی حل کی جانب قدم بڑھاتے رہے۔2 اور3 جون کو اسی جذبے کے تحت انہوں نے اپوزیشن کے تقریباً تمام قائدین کو رہا کر دیا اور خواتین کی نظر بندی بھی ختم کر دی گئی۔ یکے بعد دیگر اقدامات کے تحت دونوں بڑے شہروں میں مارشل لاء کا دائرہ کار بھی محدود کر دیا گیا ساتھ ہی 6جون کو قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کا اعلان کر کے مذاکراتی عمل کا آغاز ہوگیا۔ مگر اس دوران پیش آنے والے واقعات اور مارشل کے نفاذ نے گویا ثابت کر دیا کہ فوج کے سر براہ سوچی سمجھی سکیم پر عمل پیرا تھے ۔اس دوغلی پالیسی کا ثبوت اس وقت مہیا ہوا جب جنرل ضیاء الحق ایک جانب سیاسی قیادت کو بریفنگ دیتے ہوئے بتا رہے تھے کہ بلوچستان سے فوج اس لئے واپس نہیں بلائی جا سکتی کہ لوگ وہاں ہمسایہ ملک کے تربیتی کیمپوں سے ٹریننگ لے کر آ رہے ہیں، دوسری جانب اقتدار پر قبضہ کرنے کے ساتھ ہی انہوں نے خود نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف حیدر آباد ٹربیونل ختم کر کے اس کی قیادت کو رہا کر دیا۔
ملک کی تعمیر وترقی، آزاد خارجہ پالیسی ، امریکی فوجی اڈوں کے مخالفت، عرب ممالک کی طرف سے 1974ء میں یورپ کوتیل کی سپلائی کا پہلی مرتبہ بائیکاٹ ، خود مختار معیشت اور طرز حکمرانی کے نتیجے میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات کو ان کی حکومت کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصانات کے علاوہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھٹو عہد کے وہ فیصلہ کن اقدامات تھے جسے وجہ تنازع بنا کر عالمی سطح پر حکومت کے مخالف حلقوں نے ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کو ہوا دینے میں بڑھ چڑھ کرکردار ادا کیا۔ بھٹو حکومت سے نجات کیلئے یہ کھیل غیر محسوس طریقے سے بہت پہلے رچایا جا چکا تھا۔ مارشل لاء بظاہر 90دنوں میں عام انتخابات کروانے کے اعلان کے ساتھ نافذ ہوا۔ مگر اس کی بنیاد بہت پہلے اس وقت رکھ دی گئی تھی جب اگست 1976ء میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے لاہور میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات میں یہ دھمکی دی تھی کہ ایٹمی پروگرام پر عمل کرنے کے نتیجے میں ہم تمہیں خوفناک مثال بنا دیں گے۔ بلکہ اس سے بھی قبل جب فوج کے سربراہ جنرل ٹکا خان کی ریٹائرمنٹ ابھی متوقع تھی ایک امریکی سفارت کار نے جنرل ضیاء الحق کے آئندہ چیف آف آرمی سٹاف ہونے کے بارے میں پیش گوئی کردی تھی۔ ایران میں امریکی سفارت خانہ سے پکڑی جانے والی خفیہ دستاویزات کی بنیاد پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ شاہ ایران کے دور میں ایران میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ ہیلمز 1977ء کے مارشل لاء کی سازش میں شریک تھے۔ جو اس سے قبل امریکی سی آئی اے کے سربراہ رہ چکے تھے اور چلی کے صدر الاندے کی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں ایک مقدمے میں انہیں دو سال قید کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔ اسی طرح 1977ء کے عام انتخابات کے بعد رسوائے زمانہ امریکی سفیر فارلینڈ بھی پاکستان کے دورے پر رہا جو اس سے قبل انڈونیشیا میں سوئیکارنو کی حکومت کے خاتمے کے وقت انڈونیشیا میں امریکی سفیر تعینات رہاتھا۔ پاکستان کے معروضی حالات اور بعد میں اس موضوع پر ہونے والی تحقیق و تجزیوں نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ جنرل ضیاء الحق 11برسوں تک امریکی مفادات کے تابع کام کرتے رہے۔ بقول پروفیسر مائیکل چوسوڈ ووسکی اس کے دور حکومت میں امریکی انٹیلیجنس کی حکمت عملی کے تحت یہاں اسلامی بنیاد پرستی کو متعارف کروایا گیا۔ پھر بعد کے حالات نے یہ بھی واضح کر دیا کہ بھٹو عہد کے ڈوبتے سورج کے ساتھ جن خدشات کو جذباتیت قرار دے کررد کیا جاتا رہا ملک کے امریکی اماجگاہ بنائے جانے پر وہ خدشات حرف با حرف درست ثابت ہو گئے ۔ کیونکہ 4اور5جولائی کی درمیانی شب ملک میں مارشل لاء نافذ کر کے اسے اگلی کئی دہائیوںکے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔