2017 ,اپریل 9
لاہور(شفق رپورٹ)دھماکے کی آواز آئی تو اے ڈی سی پلک جھپکتے میں دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا۔ صدر ذوالفقار علی بھٹو کا چہرہ غصے سے سرخ اور وہ سامنے کھڑے کارکن پر برس رہے تھے۔ اے ڈی سی نے کارکن کو اپنے تئیں دونوں ہاتھوں سے قابو کر لیا اور اسی ایکشن میں باہر لے جانے لگا۔ بھٹو صاحب نے کہا ”چھوڑ دیں، انہیں بیٹھنے دیں“۔ اے ڈی سی نے کہا ”سر انہیں ابھی لاتا ہوں“۔ باہر لا کر جیالے سے بھٹو صاحب کے اشتعال میں آنے کی وجہ پوچھی اور پھر اندر لے جا کر بٹھا دیا۔ یہ جیالا نوجوان قیوم نظامی تھا۔
قیوم نظامی بتاتے ہیں کہ وہ سمن آباد لاہور میں پیپلزپارٹی کے پرائمری یونٹ کے انچارج تھے۔ انہوں نے بھٹو صاحب سے ملاقات کی خواہش کا اظہار ایک خط کے ذریعے کیا جس کی پذیرائی کا زیادہ امکان نہیں تھا۔ کہاں صدر اور کہاں ایک کارکن! بہرحال ایک موہوم سی امید ضرور تھی۔ میری حیرانی کی انتہا ہو گئی جب فون آیا کہ بھٹو صاحب سے لاہور گورنر ہاﺅس میں آپکی فلاں دن اتنے بجے 5 منٹ کی ملاقات طے ہے۔ مقررہ روز میرے ساتھ تین چار کارکن بھی ہو لئے۔ گورنر ہاﺅس گیٹ پر کہا گیا کہ صرف قیوم نظامی اندر جا سکتے ہیں۔ میں نے پراعتماد لہجے میں کہا کہ یہ بھی بھٹو صاحب سے ملیں گے۔ اے ڈی سی کو بھی یہی کہا مگر اس نے ان ساتھیوں کو باہر بیٹھ کر انتظار کرنے کو کہا۔ اے ڈی سی کیساتھ میں اندر چلا گیا۔ بھٹو صاحب کھڑے ہو کر ملے۔ مجھے بیٹھنے کو کہا۔ میں نے عرض کی ساتھ تین کارکن بھی ہیں، ان کو بھی اندر آنے دیں۔ بھٹو صاحب نے کہا آپ بیٹھیں۔ میں نے پھر کہہ دیا‘ سر وہ مایوس ہونگے۔ اس پر بھٹو صاحب کو غصہ آگیا۔ شاید یہ جاگیردارانہ مزاج سے لگا نہیں کھاتا تھا۔ بھٹو صاحب کو غصہ آتا تو وہ زور سے زمین پر پاﺅں مارتے تھے۔ وہ عموماً انکلٹ شوز پہنتے تھے۔ یہ گورنر ہاﺅس کا فسٹ فلور تھا جس کا فرش لکڑی کا بنا ہوا ہے۔ بھٹو صاحب کا زوردار پاﺅں لکڑی کے پھٹے پر پڑا‘ دھماکہ تو ہونا ہی تھا۔اے ڈی سی نے کمرے سے باہر لا کر میری بات سننے کے بعد کہا ”آپ صدر سے مل رہے ہیں۔ ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی“۔ میں نے کہا ”مجھے نہیں پتہ تھا وہ خفا ہو جائینگے۔ میں سوری کر لیتا ہوں“۔ اس پر اے ڈی سی مجھے دوبارہ کمرے میں لے گئے۔ بھٹو صاحب نے مجھے بیٹھنے کو کہا۔ میں نے معذرت کی۔ انہوں نے کہا ”صدر کے سامنے اس طرح بات کرتے ہیں! میں نے پھر عرض کی ”میں صدر سے ملنے نہیں آیا، پارٹی کے چیئرمین کے روبرو ہوں“۔ جس پر بھٹو صاحب نے تحسین آمیز نظروں سے مجھے دیکھا اور ملاقات کیلئے آنے کا مقصد پوچھا۔ میں نے جو پارٹی کے معاملات تھے انکے گوش گزار کئے۔ 5 منٹ کی ملاقات طے تھی۔ بھٹو صاحب نے آدھا گھنٹہ بات کی۔