2017 ,اپریل 5
لاہور(شفق رپورٹ)بھٹومرحوم کے بارے میں معتبر دستاویزی ثبوت اورآنکھوں دیکھا حال بزرگ سیاستدان ،دانشور سردار شیرباز خان مزاری نے اپنی آپ بیتی
"The Journey to Disillusionment"
میں بیان کیا ہے۔
دوجولائی 1974 کو جے اے رحیم اور پیپلزپارٹی کے بعض دیگر سینئر رہنمائوں کو آٹھ بجے شام عشائیہ کیلئے وزیراعظم ہائوس مدعو کیا گیا لیکن میزبان وزیراعظم بھٹو وقت مقررہ پر اپنے مہمانوں کی تواضع کیلئے نہ پہنچ سکے۔ انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی گئیں جب آدھی رات بیت چلی تو مختلف جسمانی عوارض کاشکار بوڑھے جے اے رحیم کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا۔ اذیت ناک انتظار اوربھوک نے اس بوڑھے مارکسی سیاستدان کا دماغ مائوف کررکھا تھا اوروہ مہمانوں کی اس توہین اوربدتمیزی پر برابھلا کہتے ہوئے آدھی رات کے بعد اپنے گھر واپس چلے گئے ۔
وہاں موجود حاضرین میں سے کسی نے بھٹو مرحوم کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے یہ سارا واقعہ رات گئے انہیں بتادیا جس پر بھٹو صاحب نے انہیں سبق سکھانے کا حکم جاری کردیا جس پر تین جولائی کی صبح سویرے وزیراعظم کے چیف سیکیورٹی افسر سعید احمد خان باوردی غنڈوں کیساتھ جے اے رحیم کے گھر پہنچ گئے۔ وہ دروازے پر آئے تووز یراعظم بھٹو کے چیف سیکیورٹی افسر نے بوڑھے جے اے رحیم کے چہرے پر تھپڑوں کی بارش کردی۔ٹھڈے ،مکے جے اے رحیم اس طرح بہیمانہ تشدد کب تک برداشت کرتے لمحوں میں زمین پر ڈھیر ہوگئے ۔ایک گارڈ نے گرے ہوئے اس بوڑھے شخص کی پشت پر رائفل کے دو تین بٹ ماکر رہی سہی کسر بھی پوری کردی ۔جے اے رحیم کا جواں سال بیٹا سکندر رحیم اپنے بوڑھے باپ کوبچانے کیلئے آگے بڑھا تو سرکاری غنڈوں نے ٹھڈوں ،مکوں اور رائفل کے بٹوں سے سکندر رحیم کو بھی زمین بوس کردیا ۔وزیراعظم بھٹوکاجے اے رحیم کو ’’پیغام‘‘پہنچانے کے بعد انکے صاحبزادے سکندر رحیم سمیت گاڑی میں ڈال کر تھانے کی حوالات میں بند کردیا گیا ۔اس ہولناک واقعہ کے کئی گھنٹے بعد وزیراعظم کے ایک اورمشیر خصوصی رفیع رضا تھانے پہنچے اوربوڑھے جے اے رحیم اورانکے بیٹے سکندر کی جان بخشی کروائی ی