بلاول کے مطالبات کی حیثیت کھلنڈرے پن سے زیادہ نہیں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 03, 2016 | 07:57 صبح

لاہور(خصوصی رپورٹ) بلاول بھٹو زرداری اپنے مطالبات کی بڑے زور شور سے بات کرتے ہیں،یہ مطالبات سرے سے مجہول اور فضول ہیں،ان کو زیاہ سے زیادہ حکومت کے لئے تجاویز قرار دیا جاسکتا ہے،یہ ایسے مطالبات ہیں روٹھنے والا دوسرے کا بازو پکڑ کے کہے مجھے چھوڑ دے،بلاول نے پھر دھمکی دی ہے کہ ہمارے مطالبات نے مانے تو اب گو نثار گو ہورہا ہے پھر گو نواز گو ہوگا۔سابق بیرو کریٹ سید شوکت علی شاہ نے ان مطالبات پر درست تجزیہ کیا ہے،وہ کہتے ہیں کہ

یہ چار مطالبات پیش کرنے کی ضرروت کیوں پیش آئی ؟ عمران کو جتنا عر

صہ الجھا سکتے تھے الجھا لیا ۔ شاہ صاحب جہاں تک اسکے کندھے پر دست شفقت رکھ سکتے تھے ، رکھ لیا ! سادہ لوح خان کو چھ ماہ بعد معلوم ہوا کہ پردے کے پیچھے کیا ہے! جسکو وہ شاخ بنات سمجھتا تھا وہ برگ حشیش نکلا ۔ جب اس نے سولو فلایٹ کا اعلان کیا تو انہوں نے اس کا تمسخر اڑایا ۔ جب دیکھا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا ہے اور فیصلہ کچھ بھی ہو سکتا ہے تو اسکی گھمبیرتا کو دیکھتے ہوئے اپنے چار مطالبات پیش کر دیئے ۔ الٹی میٹم کی تاریخ 27 دسمبر دی ۔ تاریخ بڑی سوچ سمجھ کر دی گئی ہے ۔ پیپلز پارٹی کو علم ہے کہ اس وقت تک عدالتی فیصلہ آ چکا ہو گا ۔ اگر فیصلہ عمران کے حق میں آ گیا تو یہ بھی سیاسی مال غنیمت میں حصہ مانگیں گے ۔ اگر اسے شکست ہوتی ہے تو انکے دونوں ہاتھ حکومت کی جیب میں ہونگے ۔ پھر جس قسم کے مطالبات پیش کئے گئے ہیں انہیں پڑھ کر ہنسی آتی ہے ۔ فارن پالیسی ناکام ہو چکی ہے ۔ اس لئے کُل وقتی وزیر خارجہ مقرر کیا جائے ۔ NAP پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے ۔ بل کی صورت میں پیپلز پارٹی نے جو TORS د یئے ہیں انہیں منظور کیا جائے ۔ زرداری نے میاں نواز شریف کو کہا ہو گا ۔ آپ کا بھتیجا سیاست میں نووارد ہے ، نوجوان خون ہے ۔ اسکی ہمت اور حوصلہ بڑھانے کیلئے کچھ معصوم مطالبے مان لیں ۔ آپکا کیا بگڑتا ہے ! اسکی واہ ، واہ ہو جائیگی ۔ TORS کا مطالبہ نہ ماننے میں جو رکاوٹ ہے اس سے آگاہ کر دیں ۔ جب معاملہ عدالت عظمےٰ میں چلا گیا ہے تو TORS کی اہمیت کچھ نہیں رہتی۔