اکتوبر27۔ یوم سیاہ کا پس منظر

2017 ,اکتوبر 27



لاہور(جی این بھٹ): یوں تو تاریخ کشمیر میں بے شمار ایسے موڑ آئے جو اس خطہ جنت نظیر کو جنم کدہ بناتے نظر آتے ہیں۔ وہ سب تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ صدیوں پرانی باتیں ہیں۔ مغل، افغان، ڈوگرا راج کے قصے پرانے ہو چکے۔ محمود غزنوی فاتح سومنات نے ہند پر سترہ حملے کئے کئی حملے کشمیر پر بھی کئے مگر البیرونی کے بقول ہزاروں فٹ اونچے برف پوش پہاڑ اس ریاست کے لئے قدرتی فصیلوں کا کام دے کر اسے ناقابل شکست قلعہ بنا دیتے ہیں اس لئے یہ دنیا سے کٹ کر رہ جاتا ہے اور اس کی تسخیر مشکل ہے۔جلال الدین اکبر کا سارا جلال اس وقت لڑکھڑاتا ہے جب وہ پے در پے کئی حملے کرنے کے باوجود ناقابل تسخیر کشمیر کو حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ مغل افواج اس وقت کشمیر میں فتح یاب ہوتی ہیں جب شیعہ چک حکمرانوں سے ناراض سنی کشمیریوں کی اکثریت مغل بادشاہ اکبرکو کشمیر پر حملے کی دعوت دیتی ہے اور سرینگر کے دروازے کھول دیتی ہے۔ اسی طرح افغان حکمران کشمیر میں اپنے حامیوں کے ساتھ مل کر یہاں قابض ہوتے ہیں اور پھر ڈوگرے ہندو کشمیریوں کی مدد سے سکھ حکمرانوں کے بل پر یہاں تخت سنبھالتے ہیں۔یہ توقع ماضی کے قصے کہانیاں اب دور جدید میں 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان اور ہندوستان کے نام سے وجود میں آنے والی دو آزاد ریاستوں کے درمیان یہ خطہ جنت نشان ایک ایسا تنازعہ بن کر ابھرا جو آج 70 برس کے بعد بھی حل نہیں ہو سکا۔ مسلم اکثریت والی یہ ریاست جموں و کشمیر جس میں اس وقت یعنی 1947ء میں جموں، کشمیر، گلگت بلتستان اور لداخ شامل تھے کو تقسیم برصغیر کے اصولوں کی رو سے پاکستان میں شامل ہونا تھا۔ کیوں کہ یہاں کی 79 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ مگر یہاں کا مہاراجہ ہری سنگھ ہندو ڈوگرا تھا۔ کانگریس کی چالاک اور مکار ہندوانہ سیاسی اثر و رسوخ اس پر بہت تھا۔ نہرو اور پٹیل جیسے گھاگ سیاستدانوں نے اسے پوری طرح گھیر کر اپنے چنگل میں پھنسا لیا تھا۔ بدقسمتی سے ایک بار پھر کشمیری مسلمانوں کا ایک ٹولہ جو نیشنل کانفرنس کی شکل میں سیاست کر رہا تھا وہ بھی کانگریس والوں کی زبان بولنے لگا تو بدقسمتی کی نئی داستان رقم ہو گئی اور کشمیریوں کو آزادی حاصل ہوتے ہوتے رہ گئی اور انہیں بھارت کی غلامی کا طوق پہنا دیا گیا۔

27 اکتوبر 1947ء کو جس طرح بھارتی غاضب افواج نے کشمیر میں گھس کر وہاں قبضہ کیا وہاں کے عوام کی حق خود ارادیت کو کچل کر انہیں زبردستی بھارت کا غلام بنایا۔ وہاں ظلم و تشدد کا وہ بازار گرم کیا کہ 70 برس گزرنے کے باوجود کشمیر میں موجود 7 لاکھ بھارتی افواج آج بھی کشمیریوں کے دل نہ جیت سکی۔ کشمیری آج بھی 1947ء والے جذبے کے ساتھ اپنا حق خود ارادیت طلب کر رہے ہیں۔ جس کا وعدہ اقوام متحدہ اور بھارت کر چکا ہے۔ اپنے اس حق کے لئے 27 اکتوبر 1947ء سے لے کر آج تک ڈیڑھ لاکھ کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ اب 2017ء میں تحریک آزادی کشمیر ایک بار پھر جوبن پر ہے۔جو چیخ چیخ کر اقوام عالم کو بتا رہی ہے۔ ابھی کشمیری اپنے حق سے ہٹے نہیں ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس وقت1947ء میں بھی نہتے کشمیری مجاہدین کا مقابلہ بھارت کی مسلح افواج سے تھا۔ جنہوں نے مجاہدین کی پیش قدمی روک دی۔ اس وقت مجاہدین بارہ مولا پر قابض ہو چکے تھے۔ مگر ڈسپلن کی کمی لوٹ مار کے لالچ اور اسلحہ کی قلت کے باعث وہ بھارتی فوج کا مقابلہ نہ کر سکے۔ پاکستان کی نوزائیدہ مملکت اس وقت مہاجرین کی آمد، اثاثوں کی تقسیم اور دیگر مسائل کا شکار تھی۔ قائداعظم کے حکم کے باوجود پاکستان کے برٹش آرمی چیف نے کشمیر میں فوج بھیجنے سے انکار کر دیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان کے لیے عملاً فوجی کارروائی میں مشکلات پیش آئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجاہدین بارہ مولا سے نکل کر واپس اوڑی آ پہنچے ۔

جب مہاراجہ نے پاکستان کے ساتھ الحاق میں پس و پیش کی راہ اپنائی تو کشمیریوں میں مہاراجہ کیخلاف نفرت کا لاوا ابل پڑا۔ کشمیری پہلے ہی مہاراجہ کی ظالمانہ حکومت کے خلاف تھے۔ گلگت بلتستان اور موجودہ آزاد کشمیر میں عوامی بغاوت پھوٹ پڑی۔ باغی تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے سرینگر کے قریب بارہ مولا تک جا پہنچے۔ مہاراجہ بھاگ کر مال و اسباب سمیت جموں پہنچ گیا۔ جہاں اس کو کانگریسی رہنماؤں نے ورغلایا تو اس سے بھارت سے فوجیں بھجوانے کی درخواست کر دی اور اس سے الحاق کا اعلان کر دیا جو سراسر تقسیم و آزادی کے اصولوں کے خلاف تھا۔ چنانچہ 27 اکتوبر 1947ء کو برصغیر کی آزادی کے دو ماہ بعد ہی کشمیر میں بھارتی غاضب افواج بذریعہ طیارہ سرینگر اتریں۔ انہیں فضائیہ کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔ زمینی راستہ بھارت کا کشمیر میں نہایت دشوار گزار اور غیرمحفوظ تھا۔ جبکہ پاکستان کے پاس کشمیر میں داخلے کے بہترین راستے اور ذرائع موجود تھے۔ مگر وہ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکا۔مگر کشمیریوں نے ہمت نہیں ہاری بھارتی قبضے کے باوجود اپنی آزادی اور حق رائے شماری کے لئے جدوجہد کرتے رہے اس دوران کئی موڑ آئے حتیٰ کہ موجود مسلح تحریک آزادی کے ساتھ ہی بھارت کی 7 لاکھ سفاک افواج وہاں جدید ممنوع ہتھیاروں کے استعمال کے باوجود کشمیریوں کی بھارت سے آزادی کی خواہش کو ختم نہ کر سکے۔ کشمیری آج بھی اپنا حق خود ارادیت طلب کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ 27اکتوبر کو پاکستان ہی نہیںبیرون ملک اور آزاد کشمیر میں بھی لاکھوں کشمیری بطوریوم سیاہ مناتے ہیں۔ کشمیر پر بھارتی فوجی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے بھارتی افواج سے کشمیر سے نکل جانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کشمیر کے گلی کوچے بھارتیو واپس جاؤ، انڈیا مردہ باد کے نعروں سے گونج رہے ہیں۔ بھارت جتنی جلدی یہ مطالبہ تسلیم کرے اتنا ہی اس کے لئے بھی بہتر ہے اور عالمی امن کے لئے بھی کیونکہ اس مسئلہ کشمیر کی وجہ سے آج دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان حالات جنگ تک پہنچ گئے ہیں۔ جس سے بچنا ضروری ہے۔ اب یہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ جنوبی ایشیا کو ایٹمی جنگ میں بھسم ہونے سے بچانے کے لئے مسئلہ کشمیر حل کرائے۔

متعلقہ خبریں