پندرہ سال کی عمر میں جسم فروشی پر لگائی جانے والی بچی کی درد بھری داستان

2017 ,مارچ 23



ممبئی (مانیٹرنگ ڈیسک) نوعمر لڑکیوں کی زندگی حسین خوابوں سے مزین ہوتی ہے۔ ماں باپ کی شفقت اور حفاظت کے حصار میں رہتے ہوئے انہیں دنیا کے کسی غم کی پرواہ نہیں ہوتی، لیکن جس بدقسمت کے سر پر ماں باپ کا سایہ ہو نہ دیکھ بھال کرنے والا کوئی عزیز رشتہ دار، وہ ایک آسودہ زندگی کا خواب کیونکر دیکھ سکتی ہے۔ زندگی کے ابتدائی سال نیپال کے ایک مندرمیں گزارنے والی نیلو بھی ایک ایسی ہی مثال ہے، جسے بچپن میں مندر کے پروہت بتایا کرتے تھے کہ اس کے ماں باپ مرچکے تھے۔ نیلو کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شب و روز مندر میں ہی گزارتی تھی۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق جب وہ 15 سال کی تھی تو مندر میں ہی اسے جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہوگئی۔ تقریباً 16 سال کی عمر میں اس نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔پہلے وہ زندگی کی صعوبتوں کا سامنا اکیلی کررہی تھی لیکن اب ایک اور ننھی جان اس کے ساتھ ان دکھوں کا سامنا کرنے کے لئے شامل ہوچکی تھی۔ نیلو کا کہنا ہے کہ اسے اپنا اور بچی کا پیٹ پالنے کے لئے بھیک مانگنا پڑتی تھی اور لوگوں کے دئیے ہوئے کپڑے اور جوتے پہننا پڑتے تھے۔ ایک دن مندر میں پرستش کے لئے آنے والے ایک شخص نے اس پر رحم کھانے کا ڈرامہ کیا اور مدد کے بہانے اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ نیلو کو معلوم نہیں تھا کہ اب اس کی زندگی کا دردناک ترین دور شروع ہونے والا تھا۔ 
بدبخت شخص نے اسے ایک قحبہ خانے میں لے جاکر ایک لاکھ بھارتی روپے میں بیچ دیا۔ نیلو کا کہنا ہے کہ پہلے پہل تو وہ جسم فروشی پر کسی طور تیار نہ تھی اور مار پیٹ سہنے کے باوجود مزاحمت کرتی تھی لیکن اس کے انکار کی سزا اس کی ننھی بچی کو دی جارہی تھی۔ جب اس نے اپنی بیٹی کو بھوک سے بلکتے دیکھا تو بالآخر خود ہی وہ کام کرنے کے لئے تیار ہوگئی جس سے وہ اب تک انکار کرتی چلی آئی تھی۔ 
زندگی کی ٹھوکریں کھاتی نیلو کی قسمت نے بالآخر زور مارا اور وہ خوش قسمتی سے ممبئی پہنچنے میں کامیاب ہوگئی جہاں بے سہارا خواتین کے لئے قائم کئے گئے ادارے پرناتا میں اسے پناہ مل گئی۔ اب اس کی ننھی بیٹی ایک خصوصی ہاسٹل میں رہتی ہے اور وہ اس کی زندگی بہتر بنانے کے لئے شب و روز کام کرتی ہے۔ 
نیلو کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی نوعمری میں پہاڑ جیسے دکھ دیکھے اور ہر روز اسے لگتا تھا کہ وہ زندہ نہیں رہ پائے گی، مگر اب اپنی ننھی بیٹی کی خاطر زندہ رہنا چاہتی ہے۔ وہ کہتی ہے ”بیٹی نے مجھے زندہ رہنے کا حوصلہ دیا ہے اور میں ایک نئی توانائی کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی ہوں تا کہ میری بیٹی کو وہ دکھ نہ دیکھنے پڑیں جو میرا مقدر بنے۔“اور نہ ہی وہ زندگی میں کبھی کسی پریشانی کا  سامنا کرے۔۔۔

متعلقہ خبریں