ون ہنڈرڈ سٹروک آف برش بی فور بیڈ“ وہ کتاب جس نے اٹلی میں فروخت کاریکارڈ قائم کر دیا وہ کتاب جس کے بارے میں جان کر آپ کے ہوش اُڑ جائیں گے

2019 ,ستمبر 12



’پولیس نے جب وینس کے قریب سینٹ ڈونا ڈی پیاو کے ایک لیپ ڈانس کلب پر چھاپہ مارا تو وہاں ڈانس کرنے والی سب کی سب لڑکیاں 18 سال سے کم کی تھیں۔ ہرطرف نشہ کیا جا رہا تھا اور لڑکیوں کا کہنا تھا کہ جنسی لطف اندوزی کے لیے وہ کسی کے ساتھ بھی جا سکتی ہیں، جو بھی ہو ذرا اچھا لگنا چاہیے۔ ’یہ ‘ ہے ’وہ نسل جس کی نمائندہ ہے، ملیسا پی‘۔ اٹلی ہی کے ایک اخبار نے ان الفاظ سے شروع کیا ہے اپنے ہی ملک میں کسی ایک سال میں سب سے زیادہ اور تیز ترفروخت کا ریکارڈ قائم کرنے والی کتاب ’ون ہنڈرڈ سٹروک آف برش بی فور بیڈ‘ پر تبصرے کا۔
ملیسا پی یعنی ملیسا پاناریلو۔ اگر اچانک آپ کے سامنے آجائیں تو آپ کو یقین ہی نہیں آئے گا کہ آپ کسی مصنفہ سے سے مل رہے ہیں۔ دیکھنے میں، روم کے کیفوں میں دکھائی دینے والی کسی بھی طالب علم لڑکی پر ملیسا پی ہونے کا شک کیا جا سکتا ہے۔ درمیانے قد، نیم گداز جسم ، کشادہ آنکھیں اور شہابی رنگت کے ساتھ جدید لباس میں ملبوس اس لڑکی کو دیکھ کر یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اٹھارہ کی ہو چکی ہو گی۔
اٹلی میں ملیسا کا ناول گزشتہ سال شائع ہوا تھا اور سال ختم ہونے تک اس کی ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی تھیں۔اٹلی میں ایسا ہونا ایک انتہائی غیر معمولی بات ہے کیونکہ اٹلی میں پندرہ ہزار کتابیں بِک جائیں تو مصنف کا شمار تیز تر فروخت ہونے والے مصنفوں یا بیسٹ سیلرز میں ہونے لگتا ہے اور ایسے مصنف کو اچھا خاصا کھاتا پیتا تصور کیا جاتا ہے۔ جب کہ پانچ ہزار فروخت ہونے والا بطور مصنف زندگی گزار سکتا ہے۔
ملیسا پاناریلوکا ناول
ناول کے انگریزی ترجمے کے بھی یکے بعد دیگرے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے ہیں
بازار میں کتاب کے آتے ہی مصنفہ کی تلاش شروع ہوئی کیونکہ کتاب پر مصنفہ کی جو تصویر شائع کی گئی تھی اس سے صاف دکھائی دیتا تھا کہ عمر اٹھارہ کی نہیں ہوئی ہوگی۔ مصنفہ دستیاب نہیں تھیں اور ان سے انٹرویو کے لیے ای میل کا کہا جاتا تھا۔ اس بات نے بھی کتاب کی فروخت میں ضرور ایک کردار ادا کیا ہو گا، مارکیٹ میں کتاب کی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہورہی تھی اور مصنفہ کی عدم دستیابی سے تشویش تو بڑھ رہی تھی اور ذرائع ابلاع کی مانگ بھی۔ جنہیں انٹرویو نہ مل سکا انہوں نے یہ بات پھیلا دی کہ تصویر کے پردے میں کوئی اور ہے۔
یہ کتاب سکول میں زیرتعلیم ایک لڑکی کے ایسے جنسی تجربات کا روزنامچہ ہے جو اس نے خود کو تلاش کرنے کے لیے تحریر کیے ہیں۔ اس پر مصنفہ کا یہ دعویٰ کہ جو ہے وہ آپ بیتی ہے۔
ناول کی مرکزی کردار چودہ سال کی عمر میں جنسی زندگی کا آغاز آئینے کے سامنے اپنے جسم کے ساتھ کھیلنے سے کرتی ہے۔ اگلے ہی سال اس کا کنوار پن ایک لاتعلق محبوب کی نذر ہو جاتا ہے اور اس کے بعد کے دو سال میں وہ ہم جنسیت، ٹیلیفونک و انٹرنیٹ سیکس اور نیٹ کے ذریعے طے پانے والے اجنبیوں سے بات چیت اور تجربات اور گروپ سیکس، شادی شدہ مردوں سے جنسی تعلق، غرض کہ جنسی محسوسات و تجربات کا ہر ممکن طریقہ اختیار کرتی ہے۔
کیتھولک اٹلی کو ہیجان میں مبتلا کرنے کے لیے ’ون ہنڈرڈ سٹروک آف برش بی فور بیڈ‘ یا ’سونے سے پہلے سو بار کنگھی‘ میں بہت کچھ ایسا تھا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ اٹلی میں پہلے کبھی کسی اٹھارہ سال سے کم کی لڑکی نے نہیں کیا ہوگا۔ کیا ہو گا تو بتایا یا اعتراف نہیں کیا ہوگا لیکن ملیسا کا دعویٰ کرنے اور بتانے سے زیادہ اس نے لکھ دیا ہے ۔
جب واویلا زوروں پر ہوا تو ملیسا تصویر کے پردے سے باہر آ گئیں اور سب نے دیکھا کہ وہ ویسی ہی ہیں جیسی تصویر میں دکھائی دیتی ہیں۔
ان کی ابتدائی روپوشی کی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ جب کتاب شائع ہوئی تو وہ اٹھارہ کی نہیں ہوئی تھیں اور ناشر کو ڈر تھا کہ کم عمری کوئی اور مصیبت نہ کھڑی کر دے۔
ملیسا پاناریلو
ملیسا کا کہنا ہے کہ انہوں نے ناول خود کو سمجھنے کے لیے لکھا ہے
ملیسا سے جب پوچھا جاتا ہے کہ انہوں نے اس ناول کے ذریعے کیا کرنے کی کوشش کی ہے تو وہ بڑی سادگی سے بتاتی ہیں ’میں نے اس ناول میں اپنے آپ کو سمجھنے کی کوشش کی ہے‘۔
کسی بھی نئے مصنف کا شائع ہونا کہیں بھی آسان نہیں ہوتا لیکن ملیسا کا کہنا ہے کہ ان کے لیے یہ کام انتہائی آسان ثابت ہوا۔ ’میں نے ناول کا ایک حصہ ناشر کو بھیجا اور انہیں لگا کہ جو میں کرنا چاہتی ہوں اس میںکچھ جان ہے اس کے بعد میں نے اپنے تجربات کو دو سال کی ڈائری پر پھیلا دیا‘۔
اور اس الزام پر کہ یہ ناول ان کا نہیں کسی اور کا کام لگتا ہے وہ کہتی ہیں ’کسی لکھنے والے یا والی کی اس سے زیادہ توہین نہیں ہو سکتی کہ اس کے کام کو کسی اور کا قرار دے دیا جائے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی مجھ سے کہے کہ میں، میں نہیں ہوں‘۔
حقیقت اور افسانے کے امتزاج کے بارے میں ان کا کہنا ہے’میں کہتی ہوں کہ آپ بیتی ہے۔ ڈائری کے انداز میں لکھی گئی ہے لیکن اس میں افسانہ بھی ہے لیکن بہت کم‘۔
اور یہ جو اس کتاب کو فحش بھی کہا جاتا ہے ’نہیں میری کتاب فحش نہیں، ہاں اسے شہوت انگیز کہا جا سکتا ہے اور جنہیں شہوت انگیز اور فحش کا فرق پتہ نہیں انہیں کچھ نہیں سمجھایا جا سکتا‘۔
مجھے ملیسا کی بات ٹھیک لگتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں، کوشش اور بناوٹ کے بغیر بھی، ہر عورت کسی نہ کسی مرد کے لیے اور ہر مرد کسی نہ کسی عورت کے لیے شہوت انگیز ہوتا ہے۔ تو کیا ہم فحاشی اور شہوت انگیزی کو ملا سکتے یا ہم معنی قرار دے سکتے ہیں۔ شہوت انگیزی کو کسی تعریف یا ڈیفینیشن کی ضرورت نہیں اور فحاشی کی کوئی تعریف یا ڈیفینیشن کی نہیں جا سکتی۔ اب تک تو ایسی کوئی ڈیفینیشن کی نہیں جا سکی جس کو آخری کہا جا سکے۔
صحافی و مترجم ڈومینک اوغے کی کتاب ’سٹوری آف او‘ پولن ریگے کے فرضی نام سے 1954 میں شائع ہوئی اور اس کی صرف پانچ سو کاپیاں فروخت ہوئیں اور یہ اٹلی کی نہیں فرانس کی بات ہے۔ اس ناول کو شہوانی انگیخت کرنے والے جدید ادب میں عظیم شاہکار قرار دیا جاتا ہے۔ ڈومینک اوغے ایک خاتون تھیں اور یہ ناول انہوں نے لکھا تھا اس کا اعتراف انہوں نے 2 مئی 1998 کو اکیانوے سال کی عمر میں انتقال سے کچھ عرصہ قبل کیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ناول دراصل ناول نہیں ان کا محبت نامہ تھا جو انہوں اپنے عاشق کو لکھا تھا۔
آپ بیتی یا افسانہ
یہ کتاب سکول میں زیرتعلیم ایک لڑکی کے ایسے جنسی تجربات کا روزنامچہ ہے جو اس نے خود کو تلاش کرنے کے لیے تحریر کیے ہیں۔اس پر مصنفہ کا یہ دعویٰ کہ جو ہے وہ آبیتی ہے
اسے بھی فحش کہا گیا تھا اور پچھلے پچاس سال میں اس کی دسیوں لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں اور کچھ ہی زبانیں بچی ہوں گی جن میں اس کا ترجمہ نہ ہوا ہو۔ اس کے باوجود ایسے معصوم اب بھی مل جائیں گے جو اب تک یہ سمجھتے ہیں کے ’سٹوری آف او‘ ایک فحش ناول ہے۔
ملیسا کا ناول کیتھولک اٹلی میں شائع ہوا ہے اور اگر مبصرین اس ناول کے اختتام تک جاتے تو انہیں اندازہ ہو جاتا کہ یہ ناول ’سٹوری آف او‘ کا الٹ ہے۔
’سٹوری آف او‘ میں جنس محبت پر فاتح ہوتی ہے جب کہ اس ناول میں محبت فاتح ہوتی ہے۔
تو کیا ہم ملیسا پی کو اخلاق پسند ناول نگار قرار دے سکتے ہیں لیکن ملیسا کا یہ کہنا ہے کہ ان کے ناول میں افسانویت بھی ہے، تو کہیں ایسا تو نہیں کہ یہی حصہ افسانوی ہو اور اسے پبلشر کی طرف سے احتیاط پسندی کے تقاضے پر تخلیق کیا گیا ہو؟
ناول میں ملیسا کا ایک محبوب انہیں ’چھوٹی لولیتا‘ کے نام سے پکارتا ہے لیکن ملیسا کا کہنا ہے کہ انہوں نے نوبکوف کو نہیں پڑھا۔ نہیں پڑھا ہو گا لیکن کیا لولیتا کے کردار کے بارے میں سنا بھی نہیں ہو گا؟

 

متعلقہ خبریں