2022 ,فروری 3
تقریب کے اختتام پر کوئی کتاب لے کر اٹھا،کسی نے خوبصورت خیالات کو سمیٹا، کسی کے لیے وہاں کا ماحول اور سرد موسم یادگار رہا۔ میرے حصے میں دو الجھنیں آئیں۔ دربار ہال میں ”ایک پیج پر“ کتاب کی تقریب پذیرائی کے دوران نظامت، یعنی سٹیج سیکرٹری کی ذمہ داری خود صاحبِ کتاب اسد اللہ غالب نے ادا کی۔ یہ ایک منفرد تجربہ تھا، مگر کامیاب اور سہانا رہا۔ سوشل میڈیا پر غالب صاحب نے دوستوں کو15دسمبر کی اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی۔گورنر ہاؤس جانے والوں کی لسٹ میں 92لوگوں کے نام شامل تھے، ان میں سے 60کے قریب تقریب میں تشریف لائے۔ مقررین صرف4 تھے۔ گورنر چودھری محمد سرور، جنرل(ر)غلام مصطفےٰ، مجیب الرحمن شامی اور افتخار احمد سندھو، عفان بن عمار چودھری کی تلاوت کے بعد سرور حسین نقشبندی نے نعت پیش کی۔ عفان غالب صاحب کے پوتے ہیں۔انہیں تلاوت کے لیے سٹیج پر بلایا گیا اور غالب صاحب نے پوتے کے طور پر تعارف کرایا تو عمار کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے، جو عمار کے ساتھ کافی فرینک تھے کہا: ”تقریب گھر میں ہی کرا لیتے“…… اس فقرے کو سننے والوں نے انجوائے کیا۔مذکورہ تقریب کے حوالے سے کئی آرٹیکل لکھے گئے ہیں۔ ہم نے اس پر ویڈیو بھی بنائی۔اس پر غالب صاحب کا فون آیا تو مَیں نے اپنی الجھنیں دو سوالوں کی صورت میں ان کے گوش گزار کیں۔ میرے سوال کرنے سے پہلے انہوں نے کہا ایک سوال کا جواب ابھی دے دیتا ہوں دوسرے کا پھر سہی۔ مَیں نے سوال بتائے تو انہوں نے دونوں کے جواب دے دیئے۔جواب کیا دیئے ایک سیل رواں تھا، معلومات کا سمندر اور یادوں کا قلزم تھا۔ غالب صاحب نے نظامت کے دوران اپنے دوست کرنل سفیر تارڑ کا ذکر کیا۔ سفیر تارڑ صاحب نے بھی تقریب میں آنا تھا، مگر ان کی ہمشیرہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ وہ امیرسلطان تارڑ(کرنل امام) کی بھی ہمشیرہ تھیں۔ ان سب کا تذکرہ غالب صاحب نے کیااور اس موقع پر وہ بڑے جذباتی ہو گئے۔ انہوں نے کہا، مَیں اس خاندان کے ساتھ ہوں، ہر قیمت پر کچھ بھی ہو جائے خواہ جان چلی جائے۔مَیں نے ان سے اس طرح جذباتی ہونے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ کرنل امام کو طالبان نے دھوکے سے اپنے پاس بلایا اور شہید کر دیا۔ظالموں نے بے رحمی و بے دردی سے ذبح کردیا۔ اس بہیمانہ اور سفاکانہ اقدام کی ویڈیو بنا کر وائرل کی گئی۔ یہ لوگ اپنے دشمنوں کے دوستوں کے بھی دشمن بن جاتے ہیں۔ مَیں اس خاندان کا دوست ہوں اور ہر قیمت پر رہوں گا۔ میرا دوسرا سوال گورنر صاحب کی طرف سے یہ کہنا تھا: ”مَیں شدید مشکلات،کرب اور ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔ زندگی مایوسیوں میں گھر چکی تھی۔بر منگھم کی مسجد میں بچوں سے میرے لیے دعا کرائی گئی، مسجد اقصیٰ میں نمازیوں نے ہاتھ اٹھائے، غالب صاحب نے جنگ اخبار میں کالم لکھا۔ اُن دنوں سوشل میڈیا نہیں تھا۔ مجھے دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں کالم کی کاپیوں سمیت خط موصول ہوئے“۔ مَیں غالب صاحب سے یہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ کیا مشکل تھی جس کو لے کر چودھری سرور صاحب اتنے ڈپریس تھے۔ غالب صاحب نے بتایا کہ جب چودھری صاحب یوکے میں ممبر پارلیمنٹ(ایم پی) منتخب ہوئے تو وہ پہلے پاکستانی تھے۔ ایسا ہونا اس دور میں ناممکنات میں سے تھا۔ مغربی دنیا میں اس پر بھونچال آ گیا۔ بگولے اٹھ کر طوفان بننے لگے، بے بنیاد اور لغو الزامات کی آندھیاں چلنے لگیں۔ اس سب نے چودری محمد سرور کولرزا کر رکھ دیا۔ دن کا سکون اور رات کی نیندیں حرام ہو گئیں۔الزامات یہ تھے کہ چودھری سرور اسی طرح جھرلو سے جیتے ہیں جس طرح پاکستان میں کرپٹ سیاستدان جیتتے ہیں۔انہوں نے وہاں پاکستانیوں کے کام کرائے ہوں گے، ان کو رشوت کے زمرے میں شامل کر دیا گیا۔کہا گیا کہ فلاں فلاں نے سرمایہ کاری کی ہے۔ان حالات میں پریشان ہونا فطری امر تھا۔غالب صاحب کہتے ہیں کہ مَیں ان لوگوں سے ملا تو یہ واقعی بہت پریشان اور بے چین تھے۔ ہم لوگ کچن میں ہی بیٹھ گئے۔ بھابی چپاتیاں بنانے لگیں۔ مَیں نے ان سے اس معاملے کے بارے پوچھا تو انہوں نے کہا: ”اللہ خیر کرے گا“۔ اگلے روز میرے کالم کا عنوان یہی تھاجو اس دور میں لاکھوں کی تعداد میں پڑھا گیا۔ جلد ہی اللہ تعالیٰ نے خیر کر دی اور ان کے خلاف اٹھنے والی الزامات کی دھول بیٹھتی چلی گئی۔ان کے خلاف مہم کے پیچھے ایک پاکستانی اخبار نویس کا فرزندِ نامراد تھا۔چودھری سرور بلاشبہ میرٹ اوراپنی اہلیت کی بنا پر جیتے تھے۔جس”کھوبے“ میں ان کو دھکیلا گیا، اس سے اللہ کی مہربانی سے نکلے اور سرخرو ہونے میں پاکستانیت ممد ومعاون ہوئی۔اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے یہ بڑے جمہوریت دان کبھی دل و دماغ کے چوہے دان ثابت ہوتے ہیں۔برطانوی رکن پارلیمنٹ نصرت غنی کا کہنا ہے کہ انہیں 2020ء میں وزارت سے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہٹایا گیا تھا۔ غالب صاحب ماضی کی یادوں کو حال کی دہلیز پر لانے لگے۔ چودھری صاحب نے اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ وہ برطانیہ سے پاکستان آئے تو غالب صاحب نے صحافیوں سے ملوایا تھا۔ غالب صاحب نے اس حوالے سے بتایا کہ وہ پاکستان آئے تو ان کے ساتھ ایم پیز کا وفدبھی تھا، جسے کشمیر کی صورت حال سے آگاہ کرنا تھا۔ مَیں نے ان کو لاہور، اسلام آباد، پشاور، کراچی لے جا کر اخبار نویسوں سے ملوایا۔ کراچی میں وزیر اعلیٰ غوث شاہ سے ملے۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ اسلام آباد میں ان سے ملنا تھا، مگر وہ ٹائم نہیں دے رہے تھے۔ میری ملاقات مشاہد حسین سید سے ہوئی۔ مَیں نے انہیں کہا کہ یہ لوگ کشمیر پر بات کرنا چاہتے ہیں، وزیر اعظم مل نہیں رہے، کل جنگ اخبار میں خبر کی صورت میں یہ حقیقت سامنے آجائے گی۔ یہ سن کر مشاہد کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ انہوں نے ہکلاتے ہوئے کہا…… کل ناشتہ وزیر اعظم کے ساتھ کریں گے۔ اگلے روزچودھری سرورکی وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی۔ یہ خبریں باہر نکلیں تو آئی ایس پی آرکے جنرل راشد قریشی کافون آگیااور تھوڑی دیر میں جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کے لیے گاڑی آگئی۔ یہ وہ دور تھا جب کارگل کا معاملہ شدت سے اٹھا ہوا تھا۔پرویز مشرف، نواز شریف اختلافات بڑھ رہے تھے۔پرویز مشرف سے ملاقات کے بعد چودھری سرور واپس آئے۔ اس سے قبل وزیر اعظم نواز شریف سے مل چکے تھے۔ مَیں نے احوالِ ملاقات پوچھا تو انہوں نے گردن پر چھری کے انداز میں انگلی پھیری، جیسے کہہ رہے ہوں کہ: ”اب آپ نئیں یا گاہک نئیں“۔ گویا دونوں میں سے ایک ہی رہے گا۔ دونوں بدست شمشیر ہیں۔ غالب صاحب بتا رہے تھے کہ چودھری سرور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے بہت قریب تھے۔2013ء کے انتخابات میں تو اپنے علاقے کے انتخابی ٹکٹ بھی انہوں نے ہی تقسیم کئے اور ان کے نامزد کردہ امیدوار کامیاب بھی ہوگئے۔ انتخابات کے بعد نواز شریف وزیر اعظم بنے توان کو برطانیہ میں ہائی کمشنر بنایا جا رہا تھا۔ انہوں نے مجھ سے مشاورت کی، مَیں نے کہا کہ آپ کی دُہری شہریت ہے، کل کسی معاملے میں کوئی اختلاف سامنے آتا ہے تو آپ ملکہ اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ وفاداری نبھائیں گے؟ میری رائے کو انہوں نے صائب جانا اور ہائی کمشنر بننے سے معذرت کر لی، جبکہ پنجاب کی گورنر شپ ضرور قبول کر لی اور جلد ہی شریف زادوں کے ساتھ اختلافات کے بعد مستعفی ہو کر منیرنیازی کے مصداق: اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو مَیں ایک دریا کے پار اترا تو مَیں نے دیکھا تحریک انصاف کی حکومت میں بھی گورنر بن گئے۔ غالب صاحب نے بتایا کہ چودھری صاحب کی طبیعت میں ٹھہراؤہے، نہ رویوں میں احتیاط،مگر قسمت کے دھنی ہیں ……بات کہاں سے شروع ہوئی تو جہاں تک پہنچی۔”ایک پیج پر“ کتاب بہرحال پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، اسی کی بدولت یہ انکشافات نما معلومات سامنے آئیں۔