حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کا پہلا یوم شہادت

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/غلام نبی بٹ):8 جولائی 2017ء کو مقبوضہ کشمیر میں حزب المجاہدین کے نوجوان کمانڈر برہان الدین وانی کا پہلا یوم شہادت ہے۔ شہید برہان وانی شریف آباد ترال میں 19 ستمبر 1994کو مظفر احمد وانی کے گھر پیدا ہوئے ۔ 2010ء میں برہان شریف نے صرف 15سال کی عمر میں گھر سے بھاگ کر تحریک آزادی کشمیر میں شرکت کا فیصلہ کیا اور ایک مسلح تنظیم میں شامل ہوئے جسکے ایک سال بعد 2011ء میں حزب المجاہدین میں شامل ہو گئے۔ ان کی غیر موجودگی میں ان کے گھر والوں پر بھارتی فوج نے مظالم کے پہاڑ توڑے ۔ 2015ء میں ان کے بڑے بھائی خالد وانی کو اس وقت بھارتی فوجیوں نے شہید کیا جب وہ اپنے تین دوستوں کے ہمراہ اپنے بھائی سے ملنے آ رہے تھے۔ بھارتی فوج نے انہیں مسلح مجاہدین میں شمولیت کا الزام لگا کر بے دردی سے شہید کر دیا۔ جس کے بعد برہان وانی نے کھل کر سوشل میڈیا کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کو بندوق اٹھانے اور بھارت کیخلاف مسلح جدوجہد کی راہ اپنانے کی بھرپور مہم چلائی جس کے جواب درجنوں نوجوان بھارتی فوج اور کشمیر پولیس سے اسلحہ چھین کر مجاہدین کی صفوں میں شامل ہونے لگے۔ اسطرح برہان وانی کا نام بھارتی سامراج کے لئے ایک بڑا خطرہ بن گیا۔ ان مجاہدین نے وادی کشمیر میں حملوں کا آغاز اسطرح سے کیا کہ بھارتی فوج ہی نہیں حکومت بھی چیخ اٹھی ۔ بھارتی میڈیا میں برہان وانی کو ’’شو بوائے‘‘قرار دیا جانے لگا بھارتی حکومت نے 21 سالہ اس مجاہد کی گرفتاری پر اس کی اطلاع دینے پر 10لاکھ روپے انعام بھی رکھا تھا۔ مگر برہان وانی نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ مجاہدین اسے جی جان سے چاہتے تھے۔ ان کے گروپ کو وہی مقبولیت اور عوامی حمایت حاصل ہونے لگی جو کبھی 1990 ء میں تحریک آزادی کے ابتدا میں جے کے ایل ایف کے حاجی گروپ کو حاصل تھی ۔ بھارتی فوجیوں نے کئی مرتبہ برہان کو ٹریپ میں لے کر مارنے کی کوشش کی مگر وہ چھلاوے کی طرح غائب ہو جاتا اور کسی کے ہاتھ نہ آتا۔ 8 جولائی 2016ء کو کرناگ کے قریب بھارتی فوج کے ساتھ ایک طویل جھڑپ میں کشمیر کا یہ عظیم شہ سوار اپنے وطن کی آزادی کی قسم نبھاتے ہوئے اپنی مادر وطن پر قربان ہو گیا۔ جیسے ہی ان کی شہادت کی اطلاع پھیلی پوری وادی کشمیر سوگ میں ڈوب گئی۔
لوگ جوق در جوق ان کے جنازے میں شرکت کے لئے ترال کی طرف روانہ ہوئے جہاں لاکھوں افراد نے شہید کی نماز جنازہ میں شرکت کی ۔ یہ دن کشمیریوں کی تحریک آزادی میں نیا موڑ لایا۔ 1990تا 1995کے بعد ایک بار پھر وادی کشمیر کے گلی کوچے اور مساجد آزادی کے ترانوں سے گونج اٹھے موت کا خوف فتح کی سرشاری کے سامنے سرنگوں ہو گیا اور آج 8 جولائی 2017 تک مزید سینکڑوں کشمیری برہان وانی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مادر وطن کی آزادی پر قربان ہو چکے تحریک آزادی کی شدت سے گھبرا کر بھارت کشمیر میں ممنوع خطرناک اسلحہ اور کیمیائی اسلحہ استعمال کر رہا ہے جس سے ہزاروں کشمیری معذور ہو گئے، نابینا ہو گئے مگر کروڑوں کی املاک تباہ ہو گئی ،اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غاضب افواج کا ظلم وستم عروج پر پہنچ چکا ہے۔ عملاً پوری وادی کشمیر کو محصور کر دیا گیا ہے۔ شہروں اور دیہات میں مجاہدین کی تلاشی کے نام پر کریک ڈائون جاری ہے۔ 1990والی صورتحال پھر سامنے آ رہی ہے۔ کئی مقامات پر مٹھی بھر مجاہدین نے بھارتی مسلح افواج کو ناکوں چنے چبوائے 2 یا3 مجاہدین نے ترال، پلوامہ، کیوڑہ، شویباں میں بھارتی افواج کو یکے بعد دیگرے وہ سبق سکھایا کہ بھارتی مسلح افواج کے سربراہ ہی نہیں وزیر داخلہ تک تلملا اٹھے۔ کشمیرکی لہورنگ وادی آرمی کیمپ بن چکی ہے جہاں کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال نہ عزت نہ آبرو ۔ خود مختار کشمیر کے حامی ہوں یا کشمیر بنے گا پاکستان کے حامی سب اس وقت صرف اور صرف بھارت سے علیحدگی کے نکتہ پر متفق ہیں۔1990ء کے برعکس اس بار تحریک آزادی کو بیرون ملک کوئی مدد نہیں مل رہی کشمیری خود پتھروں سے بندوقوں کا ٹینکوں کا ٹینکوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ تحریک مکمل طور پر نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے ۔اس صورتحال میں بھارت کی طرف سے کشمیری رہنمائوں پر پر دہشت گردی کے الزامات صرف دنیا کو دھوکا دینے کے اور کچھ نہیں۔ ہیں۔ کہ مقبول بٹ شہید سے لے کر برہان وانی تک سبزار بٹ سے لے کر جہانگیر کھانڈے تک شہیدوںکا مقدس لہو کشمیر کی آزادی کی راہ ہموار کر رہا ہے۔