افغانستان کی مکروہ روایت دنیا میں اس کا تعارف بن گئی
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع دسمبر 15, 2016 | 19:23 شام
کابل (شفق ڈیسک) برادر اسلامی ملک افغانستان کو قدیم اور عظیم روایات کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ ایک ایسی مکروہ روایت دنیا میں اس کا تعارف بن گئی کہ جس کا تذکرہ کرنا بھی ناممکن ہو گیا افغانستان میں اس روایت کو بچہ بازی کا نام دیا جاتا ہے اور معاشرے کے کچھ مخصوص طبقات اسے اپنے تمدن کا حصہ قرار دے کر بلا روک ٹوک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دراصل یہ روایت ان شیطان صفت لوگوں کی وجہ سے زندہ ہے اور پھل پھول بھی رہی ہے کہ جو نوعمر لڑکوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی لت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ انکا تعلق عموماً مالدار طبقے سے ہوتا ہے اور یہ نوعمر لڑکوں کو اپنے جنسی غلام بناکررکھتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عموماً اس کام کیلئے 12 سال سے لے کر 15 یا 16 سال عمر کے خوبرو لڑکے ڈھونڈے جاتے ہیں۔ ان لڑکوں کے مالک انہیں اپنے پاس رکھتے ہیں اور ان کی روزمرہ ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ ان کیلئے رنگ برنگے لباس خریدتے ہیں۔ انہیں بناؤ سنگھار کا سامان خرید کر دیتے ہیں اور انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ عموماً لڑکوں کے مالک انہیں اپنی ہوس پرستی کیلئے وقف رکھتے ہیں لیکن گاہے بگاہے پارٹیاں منعقد کی جاتی ہیں جن میں شامل ہونیوالے مہمانوں کی تفریح طبع کیلئے بھی انہیں پیش کیا جاتا ہے۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ جن طبقات میں یہ رواج پایا جاتا ہے وہاں اسے شرمندگی کی بجائے فخر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جس مالدار شخص کے پاس جتنے زیادہ خوبرو لڑکے ہوں اسے اسی قدر صاحب حیثیت سمجھا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ایک مدت سے اس شرمناک روایت کے خاتمے کیلئے کوشاں ہیں لیکن بتایا جاتا ہے کہ طاقتور ترین عہدوں پر بھی اس بدعادت کے شوقین لوگ بیٹھے ہیں، جو اس کے خاتمے کی بجائے اسے تحفظ دیتے ہیں۔