خود مختار کشمیر کے آخری بادشاہ یوسف شاہ چک کی باقیات کی کشمیر واپسی کی مہم

2017 ,جولائی 13



سری نگر(مانیٹرنگ)مقبوضہ جموں وکشمیر حکومت خود مختار کشمیر کے آخری بادشاہ یوسف شاہ چک کی باقیات کی بازیابی پر غور کررہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی وزارت کلچریوسف شاہ چک کی باقیات کی بازیابی کیلئے حکومت بہار سے رجوع کرنے کے منصوبہ پر کام کررہی ہے۔مغل بادشاہ اکبر کی جانب سے1586عیسوی میں کشمیر پر قبضہ کرنے کے بعد یوسف شاہ چک جلاوطنی کے دوران لقمہ اجل بن گئے ۔ان کی قبر نالندہ ضلع کے بسواکگاؤںمیں ہے۔ ریاستی اخبار کے مطابق ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے کہااس عمل کو عملی طور شروع کرنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔حکومت احترام کی علامت کے طور چک کی باقیات کی واپسی کیلئے بے تاب ہے تاکہ انہیں کشمیر میں دفن کیاجاسکے۔یوسف شاہ چک اپنے والد علی شاہ کے بعد خود مختار کشمیر کے آخری شہنشاہ تھے۔معروف تاریخ دان دفا حسنین نے کہاان کا دور حکومت المناک انجام کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کیونکہ مغل بادشاہ اکبر نے دہلی میں دھوکہ سے انہیں ایک میٹنگ کیلئے لاہور کا سفر کروایا۔فدا حسنین نے کہااکبر نے اپنے سفیر بھگوان داس کے ہاتھوں1586میں جنگ بندی کی پیشکش کی تھی ۔عوام کی جانب سے ان خدشات ،کہ اکبر قابل اعتبار نہیں ہیں،یوسف شاہ ،جنہیں کشمیر کے مستقبل کی فکر تھی ،ان سے ملنے کیلئے لاہور روانہ ہوئے جہاں انہیں گرفتار کیاگیا اور بعد ازاں بہار جلا وطن کیاگیا۔فدا حسنین کے مطابق یہ وہ دور تھا جب اکبر پورے شمالی ہندوستان پر حکومت کررہا تھا اور کشمیر پر چڑھائی کررہا تھا۔گوکہ چک کے فرزند یعقوب شاہ ان کے جانشین مقرر ہوئے تاہم اسی وقت کشمیر پر چڑھائی کی ۔یعقوب نے کشتواڑ میں اپنی حکومت قائم کی تھی اور تاریخ دانوں کے مطابق وہ مسلسل تین سال تک اکبر کے خلاف لڑتے رہے لیکن بالآخر ہتھیار ڈالنا پڑے اور شکست سے دوچار ہوئے۔فدا حسنین نے کہایعقوب کو بھی جلا  وطن کرکے بہار بھیج دیا گیا اور وہاں زہر دیکر مارا گیا۔دونوں باپ بیٹے بہار میں ہی دفن ہیں۔کشمیر مصنف بشارت پیر اپنی کتاب کرفیو زدہ راتیں میں لکھتے ہیں کہ چک خود مختار کشمیر کے آخری بادشاہ تھے اور اس کے بعد کشمیر کبھی آزاد نہیں تھا۔پیر لکھتے ہیںیہ ایک المناک کہانی ہے ۔

یوسف شاہ کی قید اور اکبر کے ہاتھوں دھوکہ اب دہلی اور سرینگر کے درمیان تعلقات کیلئے استعارہ بنا ہے۔شاعری اور موسیقی کے ساتھ دیوانہ وار محبت کی وجہ سے چک چندہارہ پانپور کی ایک خوبصورت شادی شدہ خاتون زون کے عشق میں گرفتار ہوئے۔

زون شاعرہ تھی جو بہت اچھا گاتی بھی تھی۔فداحسنین نے کہازون تعلیم یافتہ تھیں اور عربی و فارسی زبان پر عبور تھاتاہم ان کی شادی ایک ناخواندہ کسان سے ہوئی تھی ۔یوسف شاہ نے انہیں وہ مقام دیا جس کی وہ مستحق تھی۔زون بعد میں مشہور شاعرہ حبہ خاتون بنیں جو کشمیر کی تاریخ اور لوک گیتوں کا ناقابل تنسیخ حصہ بن چکی ہیں تاہم اکبر کے حملہ نے اس داستان محبت کو بھی عبرتناک انجام سے دوچار کردیا۔فداحسنین نے کہایہاں ایک عام تاثر یہ ہے کہ یوسف شاہ ہمیشہ موسیقی میں ڈوبے رہتے تھے جو حقیقت نہیں ہے ۔وہ بری طرح پھنس چکے تھے۔وہ کیسے اکبر کا مقابلہ کرسکتے تھے؟۔ان کا کہناتھایوسف شاہ کو کشمیر میں عزت و حترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ہم خود مختار کشمیر کی بات کرتے ہیں تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ کشمیر خود مختار کشمیر کے آخری حکمران کی حیثیت سے یوسف شاہ کی یاد میں ایک دن بھی نہیں مناتا ہے ۔ایسی بھی کچھ تحاریر دستیاب ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ چک کی گرفتاری کے بعد حبہ خاتون کشمیر میں لکھتی اور گایا کرتی تھیں اور وہ اپنے محبوب سے ملن کی منتظر تھیں تاہم معروف تاریخ دان محمد یوسف ٹینگ کہتے ہیں کہ حبہ خاتون بہار بھیجا گیا تاکہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی وہیں یوسف شاہ چک کے ساتھ گزار سکے۔اپنی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے ٹینگ کہتے ہیں اکبر اور یوسف شاہ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت حبہ خاتون کو چک کے ساتھ رہنے کیلئے بہار بھیج دیا گیا۔وہ مزید کہتے ہیں وہ دونوں وہیں فوت ہوگئے اور ایک ہی جگہ دفن ہیں۔میں اس وقت کے وزیراعلی شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ بہار گیا اور ہم نے وہاں یوسف شاہ اور حبہ خاتو ن کی قبروں پر تربت تعمیر کروائی۔یوسف شاہ چک تیسرے کشمیری ہیں جن کے باقیات کی بازیابی کا مطالبہ کیاجارہا ہے ۔ان کے علاوہ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی محمد مقبول بٹ ،جنہیں 1984میں نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں تختہ دار پر چڑھایاگیا،کے علاوہ محمد افضل گورو ،جنہیں بٹ کی طرح فروری2013میں اسی جیل میں سولی چڑھایاگیا ،کی باقیات کی واپسی کا مطالبہ کیاجارہا ہے کیونکہ یہ دونوں کشمیری تہاڑ جیل کے احاطے میں ہی دفن کئے گئے ہیں۔مارچ2013میں بٹ اور گورو کی باقیات کی واپسی کے حق میں احتجاج کے دوران بار ایسو سی ایشن نے یوسف شاہ چک کی باقیات کی بازیابی کا بھی مطالبہ کیاتھا۔

 

متعلقہ خبریں