ایک واقعے کی وجہ سے پوری وزارتِ داخلہ کو نظرانداز کرنا غیر منصفانہ ہے
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع دسمبر 17, 2016 | 15:12 شام
اسلام آباد: (مانیٹرنگ رپورٹ)وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ 8 اگست کو کوئٹہ ہسپتال پر ہونے والے حملے کی وجہ سے وزارتِ داخلہ کو ناکام قرار دینا ’غیر منصفانہ‘ ہے۔سپریم کورٹ کے قائم کردہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے استعفے کے مطالبات پر جیو ٹیلی ویڑن کے ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اتنے مختصر وقت میں حکومت کوئی پالیسی وضع کرکے اس پر عملدرآمد کرے اور اس کے نتائج بھی سامنے آجائیں۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ حکومتی پالیسی کے نتائج سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں لیکن ایک واقعے کی وجہ سے پوری وزارت کی صلاحیت کو نظرانداز کرنا ناانصافی ہے۔
وزیراطلاعات و نشریات کا کہنا تھا کہ جن شعبوں میں بہتری کی ضرورت ہے انہیں وقت کے ساتھ درست کردیا جائے گا اور وزارت سسٹم میں موجود خلا سے اچھی طرح واقف ہے۔
مریم اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ وزارت داخلہ نواز شریف کے وڑن کو حقیقت بنانے کے لیے دن رات مصروف عمل ہے اور وزیر داخلہ اس رپورٹ پر خود بھی جواب دیں گے۔
وزیر اطلاعات و نشریات کے مطابق اس طرح کی رپورٹس سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں اور معاملات کی اہمیت بڑھاتی ہیں۔
واضح رہے کہ 8 اگست کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بار کونسل کے صدر بلال انور کاسی کے قتل کے بعد سول ہسپتال کے گیٹ پر ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے علیحدگی اختیار کرنے والے دہشت گرد گروپ جماعت الاحرار نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل ایک رکنی انکوائری کمیشن کی رپورٹ جاری کی جس میں وزارت داخلہ کو کالعدم جماعتوں کے سربراہان سے ملانقات نہ کرنے اور ان کے مطالبات نظرانداز کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
کمیشن کی رپورٹ میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کو فی الفور نافذ کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیموں پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ ایک روز قبل قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی( پی پی پی) نے نیشنل ایکشن پلان(نیپ) پر عمل درآمد میں ناکامی پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
پی پی پی نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے فوری استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے سانحہ کوئٹہ کی انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں تحریک التوا جمع کرائی تھی۔
تحریک التوا میں کہا گیا تھا کہ 'وزیر داخلہ کی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی ناقابلیت کی تصدیق ہوتی ہے اس لیے مطالبہ کیا جاتا ہے وہ فوری طورپر استعفیٰ دے دیں'
کوئٹہ انکوائری رپورٹ کی اہم سفارشات
نیشنل ایکشن پلان(نیپ) کو واضح، مکمل طور پر اور جامع نظام بنانا چاہئیے اور اس کا مسلسل جائزہ لیا جانا چاہئیے۔
نیشنل کاو¿نٹر ٹیرارزم اتھارٹی(نیکٹا) کو فعال بنایا جائے۔
عوامی مقامات کو نفرت انگیزی، دہشت گردوں اور پروپیگنڈا سے بچانے کے لیے قانونسازی کرنے کی ضرورت ہے۔
انسداد دہشت گردی ایکٹ کو نافذ کرنے اور دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کو تاخیر کیے بغیر کالعدم قرار دینے کی ضرورت ہے۔
وفاقی اور بلوچستان حکومت کو ملزمان، مشکوک افراد، مجرموں اور دہشت گرد تنظیموں کی معلومات کا تبادلہ کرنا چاہئیے۔
فرانزک لیبارٹریز کو پولیس کے دائرہ اختیار کے بجائے ماہرین کے دائرہ اختیار لایا جائے اور ٹیسٹ کے نتائج کو مرکزی ڈیٹا بینک میں رکھا جائے جہاں سے تمام صوبائی حکومتیں نتائج حاصل کر سکیں۔
جائے وقوع کو ماہرانہ بنیادوں پر محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ جتنا جلدی ممکن ہوسکے وہاں سے ثبوت حاصل کرکے تصاویر حاصل کی جائیں۔
پروٹوکول یا اسٹینڈرڈ آپریٹنگ کے طریقہ کار کو ماہرین کی مدد سے تیار کیا جائے۔
اسپتال انتظامیہ، بلوچستان حکومت اور پولیس کی کوتاہیوں کو ختم کیا جائے۔
مدارس سمیت تمام تعلیمی اداروں کو رجسٹرڈ کیا جائے۔
پاکستان سے بیرون ملک جانے والے افراد کی مکمل مانیٹرنگ کی جائے۔
کسٹم حکام کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ کوئی بھی غیر ممنوعہ چیز ملک کے اندر داخل نہ ہوسکے۔
اگر میڈیا دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کے لیے نشریات چلائے تو قانون کے تحت اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
ہلاک ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کو جلد از جلد معاوضے کی رقم ادا کی جائے۔وزارتِ داخلہ کو ناکام قرار دینا غیر منصفانہ ہے‘
اسلام آباد: وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ 8 اگست کو کوئٹہ ہسپتال پر ہونے والے حملے کی وجہ سے وزارتِ داخلہ کو ناکام قرار دینا ’غیر منصفانہ‘ ہے۔
سپریم کورٹ کے قائم کردہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے استعفے کے مطالبات پر جیو ٹیلی ویڑن کے ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اتنے مختصر وقت میں حکومت کوئی پالیسی وضع کرکے اس پر عملدرآمد کرے اور اس کے نتائج بھی سامنے آجائیں۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ حکومتی پالیسی کے نتائج سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں لیکن ایک واقعے کی وجہ سے پوری وزارت کی صلاحیت کو نظرانداز کرنا ناانصافی ہے۔
وزیراطلاعات و نشریات کا کہنا تھا کہ جن شعبوں میں بہتری کی ضرورت ہے انہیں وقت کے ساتھ درست کردیا جائے گا اور وزارت سسٹم میں موجود خلا سے اچھی طرح واقف ہے۔
مریم اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ وزارت داخلہ نواز شریف کے وڑن کو حقیقت بنانے کے لیے دن رات مصروف عمل ہے اور وزیر داخلہ اس رپورٹ پر خود بھی جواب دیں گے۔
وزیر اطلاعات و نشریات کے مطابق اس طرح کی رپورٹس سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں اور معاملات کی اہمیت بڑھاتی ہیں۔
واضح رہے کہ 8 اگست کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بار کونسل کے صدر بلال انور کاسی کے قتل کے بعد سول ہسپتال کے گیٹ پر ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے علیحدگی اختیار کرنے والے دہشت گرد گروپ جماعت الاحرار نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل ایک رکنی انکوائری کمیشن کی رپورٹ جاری کی جس میں وزارت داخلہ کو کالعدم جماعتوں کے سربراہان سے ملانقات نہ کرنے اور ان کے مطالبات نظرانداز کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
کمیشن کی رپورٹ میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کو فی الفور نافذ کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیموں پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ ایک روز قبل قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی( پی پی پی) نے نیشنل ایکشن پلان(نیپ) پر عمل درا?مد میں ناکامی پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
پی پی پی نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے فوری استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے سانحہ کوئٹہ کی انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں تحریک التوا جمع کرائی تھی۔
تحریک التوا میں کہا گیا تھا کہ 'وزیر داخلہ کی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی ناقابلیت کی تصدیق ہوتی ہے اس لیے مطالبہ کیا جاتا ہے وہ فوری طورپر استعفیٰ دے دیں'
کوئٹہ انکوائری رپورٹ کی اہم سفارشات
نیشنل ایکشن پلان(نیپ) کو واضح، مکمل طور پر اور جامع نظام بنانا چاہئیے اور اس کا مسلسل جائزہ لیا جانا چاہئیے۔
نیشنل کاو¿نٹر ٹیرارزم اتھارٹی(نیکٹا) کو فعال بنایا جائے۔
عوامی مقامات کو نفرت انگیزی، دہشت گردوں اور پروپیگنڈا سے بچانے کے لیے قانونسازی کرنے کی ضرورت ہے۔
انسداد دہشت گردی ایکٹ کو نافذ کرنے اور دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کو تاخیر کیے بغیر کالعدم قرار دینے کی ضرورت ہے۔
وفاقی اور بلوچستان حکومت کو ملزمان، مشکوک افراد، مجرموں اور دہشت گرد تنظیموں کی معلومات کا تبادلہ کرنا چاہئیے۔
فرانزک لیبارٹریز کو پولیس کے دائرہ اختیار کے بجائے ماہرین کے دائرہ اختیار لایا جائے اور ٹیسٹ کے نتائج کو مرکزی ڈیٹا بینک میں رکھا جائے جہاں سے تمام صوبائی حکومتیں نتائج حاصل کر سکیں۔
جائے وقوع کو ماہرانہ بنیادوں پر محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ جتنا جلدی ممکن ہوسکے وہاں سے ثبوت حاصل کرکے تصاویر حاصل کی جائیں۔
پروٹوکول یا اسٹینڈرڈ اپریٹنگ کے طریقہ کار کو ماہرین کی مدد سے تیار کیا جائے۔
اسپتال انتظامیہ، بلوچستان حکومت اور پولیس کی کوتاہیوں کو ختم کیا جائے۔
مدارس سمیت تمام تعلیمی اداروں کو رجسٹرڈ کیا جائے۔
پاکستان سے بیرون ملک جانے والے افراد کی مکمل مانیٹرنگ کی جائے۔
کسٹم حکام کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ کوئی بھی غیر ممنوعہ چیز ملک کے اندر داخل نہ ہوسکے۔
اگر میڈیا دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کے لیے نشریات چلائے تو قانون کے تحت اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
ہلاک ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کو جلد از جلد معاوضے کی رقم ادا کی جائے۔وزارتِ داخلہ کو ناکام قرار دینا غیر منصفانہ ہے‘
اسلام آباد: وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ 8 اگست کو کوئٹہ ہسپتال پر ہونے والے حملے کی وجہ سے وزارتِ داخلہ کو ناکام قرار دینا ’غیر منصفانہ‘ ہے۔
سپریم کورٹ کے قائم کردہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے استعفے کے مطالبات پر جیو ٹیلی ویڑن کے ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اتنے مختصر وقت میں حکومت کوئی پالیسی وضع کرکے اس پر عملدرآمد کرے اور اس کے نتائج بھی سامنے آجائیں۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ حکومتی پالیسی کے نتائج سامنے ا?نا شروع ہوچکے ہیں لیکن ایک واقعے کی وجہ سے پوری وزارت کی صلاحیت کو نظرانداز کرنا ناانصافی ہے۔
وزیراطلاعات و نشریات کا کہنا تھا کہ جن شعبوں میں بہتری کی ضرورت ہے انہیں وقت کے ساتھ درست کردیا جائے گا اور وزارت سسٹم میں موجود خلا سے اچھی طرح واقف ہے۔
مریم اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ وزارت داخلہ نواز شریف کے وڑن کو حقیقت بنانے کے لیے دن رات مصروف عمل ہے اور وزیر داخلہ اس رپورٹ پر خود بھی جواب دیں گے۔
وزیر اطلاعات و نشریات کے مطابق اس طرح کی رپورٹس سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں اور معاملات کی اہمیت بڑھاتی ہیں۔
واضح رہے کہ 8 اگست کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بار کونسل کے صدر بلال انور کاسی کے قتل کے بعد سول ہسپتال کے گیٹ پر ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے علیحدگی اختیار کرنے والے دہشت گرد گروپ جماعت الاحرار نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل ایک رکنی انکوائری کمیشن کی رپورٹ جاری کی جس میں وزارت داخلہ کو کالعدم جماعتوں کے سربراہان سے ملانقات نہ کرنے اور ان کے مطالبات نظرانداز کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
کمیشن کی رپورٹ میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کو فی الفور نافذ کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیموں پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ ایک روز قبل قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی( پی پی پی) نے نیشنل ایکشن پلان(نیپ) پر عمل درامد میں ناکامی پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
پی پی پی نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے فوری استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے سانحہ کوئٹہ کی انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں تحریک التوا جمع کرائی تھی۔
تحریک التوا میں کہا گیا تھا کہ 'وزیر داخلہ کی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی ناقابلیت کی تصدیق ہوتی ہے اس لیے مطالبہ کیا جاتا ہے وہ فوری طورپر استعفیٰ دے دیں'
کوئٹہ انکوائری رپورٹ کی اہم سفارشات
نیشنل ایکشن پلان(نیپ) کو واضح، مکمل طور پر اور جامع نظام بنانا چاہئیے اور اس کا مسلسل جائزہ لیا جانا چاہئیے۔
نیشنل کاو¿نٹر ٹیرارزم اتھارٹی(نیکٹا) کو فعال بنایا جائے۔
عوامی مقامات کو نفرت انگیزی، دہشت گردوں اور پروپیگنڈا سے بچانے کے لیے قانونسازی کرنے کی ضرورت ہے۔
انسداد دہشت گردی ایکٹ کو نافذ کرنے اور دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کو تاخیر کیے بغیر کالعدم قرار دینے کی ضرورت ہے۔
وفاقی اور بلوچستان حکومت کو ملزمان، مشکوک افراد، مجرموں اور دہشت گرد تنظیموں کی معلومات کا تبادلہ کرنا چاہئیے۔
فرانزک لیبارٹریز کو پولیس کے دائرہ اختیار کے بجائے ماہرین کے دائرہ اختیار لایا جائے اور ٹیسٹ کے نتائج کو مرکزی ڈیٹا بینک میں رکھا جائے جہاں سے تمام صوبائی حکومتیں نتائج حاصل کر سکیں۔
جائے وقوع کو ماہرانہ بنیادوں پر محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ جتنا جلدی ممکن ہوسکے وہاں سے ثبوت حاصل کرکے تصاویر حاصل کی جائیں۔
پروٹوکول یا اسٹینڈرڈ اپریٹنگ کے طریقہ کار کو ماہرین کی مدد سے تیار کیا جائے۔
اسپتال انتظامیہ، بلوچستان حکومت اور پولیس کی کوتاہیوں کو ختم کیا جائے۔
مدارس سمیت تمام تعلیمی اداروں کو رجسٹرڈ کیا جائے۔
پاکستان سے بیرون ملک جانے والے افراد کی مکمل مانیٹرنگ کی جائے۔
کسٹم حکام کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ کوئی بھی غیر ممنوعہ چیز ملک کے اندر داخل نہ ہوسکے۔
اگر میڈیا دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کے لیے نشریات چلائے تو قانون کے تحت اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
ہلاک ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کو جلد از جلد معاوضے کی رقم ادا کی جائے۔