ووٹ کا تقدس

2017 ,اگست 17



جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت توڑی تو میاں محمد نوازشریف کو وزیراعلیٰ پنجاب برقرار رکھا۔ جنرل ضیاء الحق کے اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاگیا۔ سماعت کے دوران جنرل ضیاء الحق کا جہاز کریش ہو گیاتھا۔ اسکے بعد کی سماعت کے دوران جونیجو حکومت کی بحالی کے امکانات واضح نظر آ رہے تھے۔ اندر کی باتیں باہر بھی آ جاتی ہیں۔ یہ فیصلے کا دن تھا ۔محمد خان جونیجو سپریم کورٹ میں موجود تھے، باہر جونیجو کی گاڑی پر وزیراعظم کا فلیگ لگ چکا تھا۔ فیصلے سنائے جانے سے چند لمحے قبل چیئرمین سینٹ وسیم سجاد وہاں تشریف لائے۔ ججوں سے ملے، آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کا مسیج دیا جس پر فیصلہ بدل گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے اسمبلیاں توڑنے کے اقدام کو ماورائے آئین قرار دیتے ہوئے جونیجو حکومت کی بحالی کا آرڈر جاری ہونیوالا تھا۔فیصلے میں جنرل ضیاء الحق کا اقدام تو ماورائے آئین قرار دیا گیا مگر حکومت کی بحالی کے بجائے کہا گیا کہ اب چونکہ انتخابات کے انتظامات مکمل ہیں اس لئے انتخابات کرائے جائیں۔ وسیم سجاد پیغام رسانی کی تردید کرتے ہیں جبکہ جنرل بیگ پیغام بھجوانے کا متعدد بار دعویٰ کر چکے ہیں۔وہ فیصلہ محمد خان جونیجو اور ساتھیوں پر یقیناً بجلی بن کر گراہوگا مگر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے اقدام کو آئین سے تجاوز کہنے پر اعجاز الحق کا بیان اخبارات میں شائع ہوا کہ جنرل صاحب زندہ ہوتے تو میں دیکھتا کہ انکے اقدام کو کیسے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا۔

جس صحافی نے عمران خان اور ریحام میں طلاق کی خبر بریک کی ۔ وہ صحافی کہتے ہیں کہ 27اپریل کو وزیراعظم نوازشریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے کہا کہ کل سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمارے خلاف آ رہا ہے آپ کچھ کریں۔ جنرل باجوہ پہلے ہی باور کرا چکے تھے کہ جو بھی فیصلہ آیا اس پر عمل کیاجائیگا۔

میاں نوازشریف اس حقیقت سے اختلاف نہیں کرتے کہ اب تک جتنے فوجی سربراہان کیساتھ ان کا واسطہ پڑا، سب سے زیادہ جنرل قمر باجوہ کے ساتھ کمفر ٹیبل ہیں۔ ڈان لیکس کے معاملے میں اس وقت بدمزگی ہوئی جب میجر جنرل آصف غفور نے نوٹیفیکیشن کو مسترد کرنے کا ٹویٹ کیا۔ نوازشریف نے جنرل قمر سے جنرل آصف غفور کو برطرف کرنے اور معافی مانگنے کیلئے اصرار کیا۔ اس معاملے کو جنرل قمر باجوہ نے بڑی صفائی اور فراست سے ڈیل اور حکومت کیساتھ غلط فہمی کو ر دکیا۔

پانا ما کیس میں وزیراعظم کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ ن نے فوج کو آگے لگایا ہوا ہے، عدلیہ کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے‘ اسکے خود میاں نوازشریف سرخیل اور متعدد لیڈر انکی تال سے تال ملا رہے ہیں تاہم شہبازشریف اور چودھری نثار جیسے مفاہمت پر زور دینے والوں کی رائے کو اہمیت نہیں دی جا رہی۔ میاں نواز شریف کے گرد مشرف پسندوں کا حصار ہے۔ دانیال عزیز، امیر مقام، زاہد حامد، طلال چودھری اور ماروی میمن کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نوازشریف کے فدا کار ہیں یا مشرف کے فدائی ہیں۔ بہرحال میاں صاحب پوری طرح ہاکس کی رائے کے یرغمالی بنے نظر آتے ہیں اور کچھ میڈیا کامراعات یافتہ طبقہ یہ کہہ کر بھی ’’ پھوک‘‘ دے رہا ہے کہ نوازشریف نے اداروں کے ساتھ ٹکر لینے کا حتمی اور اصولی فیصلہ کر لیا۔

جے آئی ٹی میں دو فوجی شامل تھے، انہیں دو کی وجہ سے ن لیگ کے جوشیلے لیڈر فوج پر تنقید کرتے ہیں۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ممبران کو جے آئی ٹی میں شامل کرنے کا فیصلہ سامنے آیا تو جنرل باجوہ اس پر ڈسٹرب تھے وہ ایسے معاملات میں فوج کو دور رکھنا چاہتے تھے،مگر سپریم کورٹ کے آرڈر کے احترام میں خاموش رہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ جو بھی ہوتی ایک فریق نے تنازعہ کھڑا کرنا ہی تھا، انکوائری سے قبل ہی، ڈی جی آئی ایس آئی ،جنرل نوید مختار پر پی ٹی آئی کی طرف سے مریم نوازشریف کے ساتھ عزیز داری کی باتیں ہونے لگی تھیں۔ جے آئی ٹی کی انکوائری اصول اور میرٹ پر ہوئی تو حکومتی حلقے بلبلانے لگے اور توپوں کا رخ فوج کی طرف بھی کر لیا۔ پاناما جے آئی ٹی میں وہی دوفوجی تھے جو ڈان لیکس کمیشن میں تھے اور انہوں نے بھی مریم نواز کو ڈان لیکس میں کلیئر قرار دیاتھا۔ وہ فیصلہ قبول اور جو خلاف آیا وہ نامنظور، آخر یہ کلچر کب تک؟ جو بلا امتیاز ہر پارٹی نے بشمول پی پی پی اور پی ٹی آئی نے اپنا رکھا ہے۔میاں نوازشریف 28جولائی کے بعد سے ایک ہی سوال دہرا رہے ہیں کہ مجھے نااہل کیوں کیا گیا، میرا جرم کیا تھا۔، میاں صاحب کے سوالوں کے جواب تحریک انصاف نے پمفلٹ گراکے دیئے ہیں حالانکہ یہ سوال پی ٹی آئی سے نہیں کئے گئے تھے۔

ایسے پمفلٹ جماں جنج نال اور چچا خواہمخواہ کے زمرے میں آتے ہیں۔تاہم معنی خیز ضرور ہیں،ملاحظہ کیجیے۔ ٭ آپ نے کرپشن اور اپنے منصب کے غلط استعمال کے ذریعے قومی خزانے سے مال لوٹا۔٭ آپ نے چوری شدہ مال کو بچانے کیلئے اپنے بچوں کے نام پر جائیدادیں اور آف شور کمپنیاں بنائیں۔٭ آپ نے الیکشن کمیشن، ایف بی آر، ایس ای سی پی اور دیگر اداروں کے ساتھ قوم کو اپنے حقیقی ذرائع آمدن اور اثاثوں کی تفصیلات سے مکمل طور پر گمراہ رکھا اور اپنے گوشواروں میں غلط معلومات درج کر کے اپنی سیاہ دولت چھپانے کی کوشش کی۔٭ آپ نے اپنے سمدھی اسحٰق ڈار اور دیگر بددیانت سرکاری ملازمین کی معاونت سے منی لانڈرنگ کی۔٭ آپ نے گذشتہ تیس برس کے دوران ٹیکس اکٹھا کرنیوالے ریاستی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکی۔ ٭آپ نے پاناما لیکس منظر عام پر آنے کے بعد پارلیمان اور قوم سے اپنے خطاب میں صریحاً جھوٹ بولا اور عدالت کے روبرو سچ بولنے کی بجائے اسے گمراہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ٭ آپ اور آپکے بچوں نے عدالت کی کارروائی اور جے آئی ٹی کی تحقیقات میں ہر ممکن طریقے سے رکاوٹ ڈالی اور پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں جعلی طور پر تیار شدہ دستاویزجمع کروا کے سچ کو چھپانے اور انصاف کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی۔٭ آپ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی رو سے کسی بھی طرح صداقت اور امانت کے پیمانے پر پورا نہیں اترتے۔٭آپ سے پندرہ ماہ عوام اور سپریم کورٹ جواب طلب کرتے رہے لیکن آپکے پاس جھوٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ٭ آپکے بارے میں پانچ لوگوں نے نہیں، پانچ سپریم کورٹ کے ججز نے کہا کہ آپ صادق اور امین نہیں۔

میاں نوازشریف آج کل ووٹ کے تقدس کی بات کرتے ہیں۔یوم آزادی پر قوم جشن منا رہی تھی جبکہ جاتی امراء میں نااہلیت کا سوگ منایا جا رہا تھا۔ میاں صاحب مزار اقبال پر حاضر ہوئے تو وہاں بھی موقع کی مناسبت کو نظر انداز کرگئے۔ ووٹ کے تقدس کا پرچار کرتے رہے حالانکہ یہ ووٹ ہی کا تقدس ہے کہ محض ان کو نااہل قرار دیا گیا جبکہ انکی پارٹی کی حکومت برقرار اور وزراء کرام اپنے دفتر میں فرائض ادا کرنے کے بجائے جی ٹی روڈ ریلی اور دیگر تقریبات میں ان کا سایہ بنے ہوتے ہیں۔

آج پورا زور آئین کے آرٹیکل 62ایف ون کے خاتمے پر ہے جو 18ویں ترمیم میں پیپلزپارٹی اور اسکے اتحادیوں نے ختم کرانے کی کوشش کی۔ حامد میر کہتے ہیں کہ میں نے آئین کے اس آرٹیکل کے خاتمے کیلئے اپنے کالموں میں بات کی۔ اس پر رضا ربانی صاحب نے مجھے میاں نوازشریف سے بات کرنے پر آمادہ کیا، میں نے پنجاب ہائوس میں میاں صاحب سے ملاقات کی۔ میاں صاحب سے بات کی تو انکا رویہ بھی مثبت تھا۔ انہوں نے پوچھ لیا کہ یہ ترمیم ہوئی کب تھی؟ ان کو بتایا کہ جنرل ضیاء الحق نے کی تھی تومیاں صاحب نے حمایت سے گریز کیا اور پھر معاملہ یہیں پررک گیا۔

اب آصف علی زرداری اس ترمیم کے خاتمے پر تیار نہیں ہیں۔ ن لیگ کے ذمہ دار زرداری سے ترمیم کے خاتمے کی بات کر چکے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میرے وزیراعظم کی نااہلی پر کچھ لوگ خوش ہوئے اور کچھ خاموش رہے تھے۔ ہم لاہور کے وزیراعظم کیلئے کیوں انکا ساتھ دیں۔ ویسے بھی مولانا فضل الرحمن ، عمران خان اور سراج الحق سخت مخالفت کر رہے ہیں اور عام آدمی بھی اس شق کو معقول سمجھتا ہے۔اس آرٹیکل کی موجودگی میں پارلیمان میں آنے کی خواہش رکھنے والے اس کو کوالیفائی کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرینگے۔مگر پی پی پی کا دہرا معیار حیران کن ہے ‘ کل کی زہر ترمیم آج قند اس لئے ہو گئی کہ نوازشریف اسکی زد میں ہیں۔

متعلقہ خبریں