2019 ,نومبر 8
مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد پہنچنے پر عمران خان کو استعفے کیلئے تین دن کی مہلت دی اور اپنے دو دن قبل کے اعلان ’’ ہم نے کبھی دھرنے بات کی نہ دھرنا لفظ استعمال کیا‘‘ کے برعکس دھرنا دیدیا۔ آج اس دھرنے کو 9دن ہوگئے ہیں مگر ہنوز دھرنے ،لانگ مارچ اور مولانا کے مطالبات کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھا۔اب مولانا فضل الرحمن نے 12 ربیع الاول کو آزادی مارچ سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔یہ لوگ اپنوں کی سالگرہ نہیں مناتے شکر ہے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کامیلاد اور یوم ولادت اس مرتبہ پہلی بار منائیں گے۔میلاد مصطفی ﷺ کیلئے ماحول کا پاکیزہ معطر اور مطہر ہونا نہایت ضروری ہے۔دھرنے کے شرکاء اس روز اردگرد کے تعفن کو دور کرلیں۔درود و سلام کی اس محفل کو چار چاند لگانے‘ پر وقار اور یادگار بنانے کیلئے دوسرے لوگ بھی وہاں ضرور جائیں۔
رہبرکمیٹی اور اپوزیشن کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ اکرم درانی سے پوچھا گیا، دھرنے کے لوگ ڈی چوک کیوں نہیں جاتے تو ان کا کہنا تھا ، عمران خان کے 2014 کے دھرنے سے وہ جگہ غلیظ ہوگئی تھی ، دھوئے جانے کے بعد ہی ہم ڈی چوک جا سکتے ہیں۔ قدرت کی طرف سے دو دن اسلام آباد میں شدید بارش ہوئی جس سے ڈی چوک بھی دھل گیا۔اب درانی صاحب کیلئے ڈی چوک جانے میں آسانی ہو گئی ہے مگر مولانا فضل الرحمن ڈی چو ک اب نام سن کے لال بھبوکاہو جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے جلسے میں کہا کہ ڈی چوک جانے کی باتیں باہر سے آئے لوگ ہمارے جلسے میں کرتے ہیں۔ خبردار ہم ڈی چوک نہیں جائیں۔ قبل ازیںکہا تھا ڈی چوک میں جگہ کم ہے۔لوگ زیادہ ہیں۔ مولانا بی بی سی کا حوالہ دیتے ہیں‘‘ جمعہ کے روز 17 لاکھ تھے۔ 17 لاکھ! ہو سکتا ہے مدد کو فرشتے آ گئے ہوں قطار اندر قطار۔کرشماتی آزادی مارچ کی طرح کرشماتی دھرنا!بہرحال اب یہ تعدادکم ہوکر کچھ بارش کچھ دھرنے کی طوالت کی وجہ سے شاید چند ہزار تک آگئی ہے۔ مگر مولانا کا یہ دانشمندانہ فیصلہ ہے کہ وہ ڈی چوک نہیں گئے جاتے توتصادم کا خطرہ موجود تھا۔دھرنے کے شرکاء کو اچانک اور شدید بارش کے باعث مسائل و مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پر عمران خان نے سی ڈی اے کو حکم جاری کیا کہ انکی ہر ممکن مدد کی جائے۔ یہی ایک ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے ایسی ہی ریاست کو ماں جیسی ریاست کہتے ہیں جو یہ دیکھے بغیر کہ مشکل میں گرفتار ہونیوالے لوگوں کی سیاسی حمایت کس کیساتھ ہے‘ انکی مدد کو پہنچے۔ڈیڑھ دو گھنٹے دھرنے میں گزارنے کے بعد باقی وقت محلات اور ملاقاتوں میں گزارنے والی قیادت نے وزیراعظم کی اس پیشکش کو لات مار دی ۔
دوسری طرف نواز شریف کی آٹھ ہفتے کی صحت کی بنیاد پر ضمانت کے بعد مریم نواز کی انسانی ہمدردی پر ضمانت ہو چکی ہے۔ ایسے موقع پر ڈیل کی افواہیں گردش کر رہی تھیں۔ میاں نواز شریف ڈیل کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔انکی صحت واقعی ایسی نہیں کہ وہ جہاز کا سفر بھی کر سکیں البتہ ڈیل کے ساتھ میاں نواز شریف کی بیماری کو ڈرامہ قرار دینے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ وہ بھی دلیل سے بات کرتے ہیں مگر سیاسی مخالفت کی بنا پر ڈیل اور ڈرامے کی باتیں سفاکانہ سوچ کی عکاس ہیں۔
عمران خان سکھوں کے دلوں میں بھی پاکستان کے ساتھ پاکستان سے محبت کے دیپ جلا رہے ہیں۔ کرتار پور راہداری کل9 نومبر کو کھل رہی ہے۔ فی یاتری 20 ڈالر فیس رکھی گئی تھی جس پر مودی حکومت اور بھارتی میڈیا واویلا کر رہا تھاجبکہ سکھ کمیونٹی اسے کم قرار دے رہی تھی۔ 20 ڈالر بھارتی کرنسی میں 2 ہزار روپے سے بھی کم بنتے ہیں۔ اگر ’’مودیان‘‘ کو یہ زیادہ لگتے تھے تو وہ سبسڈی دے دیتے۔ سکھ تو کرتارپور اور ننکانہ صاحب کی زیارت پر ایک ہزار ڈالر فیس کو بھی زیادہ نہیں سمجھتے۔ پاکستان کو بہرحال 20 ڈالر فی کس کی فیس سے 5 ہزار یاتریوں کی آمد سے 15 کروڑ کی آمدن ہونا تھی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے سکھوں پر ریشہ خطمی ہوتے ہوئے انٹری فری کردی۔ سکھوں کیلئے اس مقام کی مٹی بھی امرت ہے۔ کرتارپور میں پانچ ہزار زائرین آئینگے تو کھانا یہیں سے کھائیں گے۔تحفے تحائف بھی خریدیں گے‘ پاکستان کی معیشت میں یہ راہداری ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔سکھوں کیلئے بہترین تحفہ کرتارپور اور ننکانہ کے پانی کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا ۔
آج پوری دنیا کی توجہ خصوصی طور پر پاکستان میں میڈیا کا فوکس راہداری کا افتتاح ہونا چاہئے تھا مگر مولانا کا دھرنا ہی میڈیا سے نہیں سنبھل رہا اور مولانا بھی چاند ماری اور اس میں رنگ بھرنے میں مصروف ہیں۔ کشمیر ایشو کہیں نظر نہیں آتا، منی پورہ ریاست نے آزادی کا اعلان کیا لندن میں جلاوطن حکومت تشکیل پائی۔ پاکستان کیلئے اسے دنیا میں اجاگر کرنے کا بہترین موقع تھا مگر یہ سب کچھ ہمارے میڈیا میں اوجھل رہا، حکومت بھی دھرنے میں کھوئی ہوئی اور اہم ایشوز کے حوالے سے سوئی ہوئی ہے۔ کشمیر میں بدترین کرفیو کو 100 دن ہو گئے۔ انسانی المیہ بدترین شکل اختیار کر چکا ہے مگر سب کچھ مولانا کے مارچ اور دھرنے کے تلے دب کے رہ گیا جو کسر کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے رہ گئی تھی وہ حضرت مولانا اب پوری کر رہے ہیں دانستہ! یا دانستہ!