رُتھ فاﺅ ۔۔۔اور ہمارے کوڑھ

2017 ,اگست 13



 

ڈاکٹررُتھ فائو انتقال کر گئیں‘ اس عظیم خاتون کا جب بھی تذکرہ آیا‘ ان کے نام کی مناسبت سے رُتھ بوریل کا تصور دماغ میں کہیں نہ کہیں ضرور جاگزیں ہوا۔ رُتھ بوریل پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل غلام محمد کی پرائیویٹ سیکرٹری تھی۔ملک غلام محمد اسے واشنگٹن سے ساتھ لائے تھے۔ ان کابنیادی تعلق سوئٹزرلینڈ سے تھا۔ غلام محمد کو مردِ بیمار بھی کہا جاتا ہے۔ وہ جسمانی طور پر بیمار تو تھے ہی شاید دماغی علاج کی بھی ان کو ضرورت تھی‘ ان کے بارے میں بڑی عجیب و غریب داستانیںمشہور ہیں۔ رُتھ بوریل ان کی نہ صرف سیکرٹری تھی بلکہ آیا ، نرس‘ ٹرانسلیٹر اور ترجمان سمیت بہت کچھ تھی۔ ملک غلام محمد فالج زدہ جسم کے ساتھ گورنر جنرل کے عہدے پر متمکن رہے۔ وہ جو کہتے اس کی کم ہی لوگوں کو سمجھ آتی۔ رُتھ بوریل ملاقاتیوں کو گورنر جنرل کا مدعا سمجھا دیتی ۔ گورنر صاحب غصے بولتے تو منہ سے جھاگ اور رالیں ٹھوڑی بہہ کر کوٹ تک آجاتیں۔ رُتھ فوری طورنیپکن صاف کر دیتی۔ انہوںنے ہی وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا۔ اپنی برطرفی پر خواجہ ناظم الدین نے کوئی جلوس نہیں نکالا‘ لانگ مارچ نہیں کیا، آنسو ضرور بہائے اور اپنے گھر چلے گئے۔ غلام محمد کو ایوان اقتدار سے نکال باہر لیا گیا تو رُتھ بوریل بھی آنسو بہاتے ہوئے اپنے وطن چلی گئی تھی۔رتھ بوریل کی والدہ بھی ان کے ساتھ رہتی تھی یہ خواتین گورنر کے لئے ٹو ان ون تھیں۔غلام محمد نے 1954ءمیں اسمبلی توڑ دی تھی۔ سپیکرمولوی تمیز الدین سپریم کورٹ گئے جہاں جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت متعارف کرایا تھا۔

فحاشی کے کئی قصے  بھی ان سے منسوب ہیں۔ غلام محمد کی موت ایک عبرت کا سامان بھی تھی۔29 اگست 1956ءکو فوت ہوئے۔ وصیت کے مطابق انہیں سعودی عرب میں دفنایا جانا تھا لہٰذا انہیں امانتاً کراچی میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد وصیت کے مطابق ان کی لاش کو قبر سے نکال کر سعودی عرب روانہ کرنے لگے تو ایک ڈاکٹر، فوج کے کیپٹن، پولیس اہلکا ر، دو گورکن اور غلام محمد کے قریبی رشتہ دار قبرکشائی کے لئے قبرستان پہنچے۔گورکن نے جیسے ہی قبر کھولی، تابوت کے گرد ایک سانپ چکر لگاتا دکھائی دیا، گورکن نے لاٹھی سے اس سانپ کو مارنے کی کوشش کی، مگر وہ ہر وار سے بچ گیا۔ انسپکٹر نے اپنی پستول سے چھ گولیاں داغ دیں، مگر سانپ کو ایک بھی گولی نہ لگی۔ ڈاکٹر کی ہدایت پر ایک زہریلے سپرے کا چھڑکاو¿ کر کے قبر عارضی طور پر بند کر دی گئی۔ دو گھنٹے کے بعد جب دوبارہ قبر کھولی گئی تو سانپ اسی تیزی سے قبر میں چکر لگا رہا تھا چنانچہ قبر کو بند کر دیا گیا

بات ہماری ڈاکٹر روتھ فاﺅسے شروع ہوئی تھی۔ پاکستان میں 1960ءتک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے‘ یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا‘ ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے‘ ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔

ڈاکٹر روتھ فاﺅ اس وقت تیس سال کی جوان،خوبرو اور جاذب نظر عورت تھی۔ یہ یورپ کے شاندار ترین ملک جرمنی کی شہری بھی تھی‘ زندگی کی رنگینیاں،رعنائیاں اور خوبصورتیاں اس کے راستے میں بکھری ہوئی تھیں لیکن اس نے اس وقت ایک عجیب فیصلہ کیا‘ ڈاکٹر روتھ جرمنی سے کراچی آئی اور اس نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا اور یہ اس کے بعد واپس نہیں گئی‘ اس نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک‘ اپنی جوانی‘ اپنا خاندان اور اپنی زندگی تیاگ دی۔

کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو اللہ کا عذاب سمجھا جاتا تھا‘ لوگوں کا خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے۔ ڈاکٹر روتھ اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔ ڈاکٹر روتھ پاکستان میںجزام کے سینٹر بناتی چلی گئی یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی‘ ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔ عالمی ادارہ صحت نے 1996ءمیں پاکستان کو ”لپریسی کنٹرولڈ“ ملک قرار دے دیا‘ پاکستان ایشیاءکا پہلا ملک تھا جس میں جزام کنٹرول ہوا تھا۔

ہم سےاسی اور معاشرتی طور پر بھی کوڑھ کا شکار ہیں۔ ہمارے عمومی رویوں کے عکاس ہمارے حکمران ہی ہیں۔ ہم ان کو منتخب کس لئے کرتے ہیں اور وہ کرتے کیا ہیں!۔ لوٹ مار کا ایک بازار گرم ہے۔ قومی وسائل کا اجاڑا کیا جاتا ہے۔ پانچ سال کےلئے منتخب ہونے والے اپنے پہلے ہی سال میں اپنا اصل روپ دکھاتے ہیں۔ مراعات یافتہ تو ان کے گن گاتے ہیں، ووٹ دینے والے پچھتاتے ہیں۔ دعویٰ کیا جاتا ہے عوام نے پانچ سال کا مینڈیٹ دیا ہے‘ پانچ سال بعد پوچھا جائے۔ پیپلز پارٹی اپنے مینڈیٹ سے منحرف تویقیناً ہوئی،اسی لئے اگلے الیکشن میں نشان عبرت بن گئی۔ کب منحرف ہوئی؟ اگر عوام کے پاس مینیڈیٹ واپس لےنے کا کوئی طریقہ ہوتا اور وہ استعمال بھی کرتے تو قوم پر ان کھربوں روپے کے کرائے کے پاور پلانٹس کا بوجھ نہ پڑتا جن کی ادائیگی قومی خزانے سے ہوئی۔یہ پلانٹس کہیں تھے اور کہیں نہیں تھے مگر اب کہیں نہیں ہیں۔ تاہم اس کے اثرات قومی خزانے پر موجود اور عوام ہنوز تاریکیوں سے نہیں نکل سکے۔ وزیراعظم خاقان عباسی کہتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 62 تریسٹھ (باریسٹھ)پر کوئی پاکستانی پورا نہیں اتر سکتا۔ کیوں پورا نہیں اتر سکتا؟ اگر پارلیمنٹ

میں آنا ہے تو اس پر پورا اتریں۔ جنرل ضیا لحق کے دور میں باریسٹھ آئین کا حصہ بنا۔ پارلیمان سے منظور ہوا جس میں راجہ ظفرالحق جیسے جہاندیدہ لوگ تھے۔ ان سے پوچھیں، اس میں ایسا کیا ہی جو انسان کو لڑ جاتا ہے جس کا زہرچڑھ ہے۔ باریسٹھ انسان کو فرشتہ بنانے کا تقاضہ نہیں کرتا، اچھا انسان بننے کی طرف مائل کرتا ہے۔ یہ صرف پارلیمان ہی تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا اطلاق بشمول جرنیلوں،ججوں کے ہرسٹیک ہولڈر پر بھی ہوتوبہتری آ سکتی ہے۔ مگر معاشرہ برائیوں اور بیماریوں سے اسی وقت پاک ہو سکتا ہے جب ہم خود احتسابی پر تیار ہوں۔ جھوٹ، رشوت، دھوکہ دہی، ملاوٹ کلچر ہم لوگوں کی سرشت میں شامل ہو چکا ہے۔ اس معاشرتی کوڑھ کا خود احتسابی کے سوا کوئی علاج نہیں، البتہ ڈنڈے سے سیدھا ہونا بھی مجرب ہے۔ ایوب اور ضیائ دور اس کی درخشاں مثالیں ہیں۔ورنہ انجام .... خدا خیر کرے۔ غلام محمد کا انجام سامنے رکھیں۔ اسی طرح کی معذور سوچ ہو گی تو انجام بخیر کیسے ہو سکتا ہے؟؟۔

 

حرف آخر:نواز شریف کا درد سمجھ میں آتا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا مگر ریلی میں اس کے الٹ اعلان کردیا۔کہتے ہیں”ججوں سے پوچھو مجھے نااہل کیوں کیا ہے؟ ڈکٹیٹر اور جج ووٹ کی پرچی پھاڑ دیتے ہیں“۔ وزارت عظمیٰ کا منصب ہوتوآمی چیف سمیت جرنیل لائن لگ کرسلیوٹ کرتے ہیں۔معزولی کے دوسرے لمحے پولیس کانسٹیبل بھی سلام نہیں کرتا،ملکوں ملک دورے ،گارڈ آف آنر،شان وشوکت سب اسی عہدے کے مرہون ہیں۔اس منصب سے فارغ ہونا تو دکھ ہے ہی، تاحیات نااہلی نے درد کو روگ بنا دیا۔ رنج کی شدت میں انسان جو کچھ کہتا اور کرتا ہے اس کی اسے سمجھ نہیں آتی مگر شدت جذبات اور صدمات میں دیوار سے سر پٹخنے کا سب سے زیادہ نقصان خود کو ہوتا ہے۔ ججوں کے خلاف جذبات کا اظہار دیوار سے سر پٹخنے کے مترادف ہے۔اس کے علاوہ میاں صاحب جو کہتے ہیں وہ انہیں کہہ لینے دیںکیونکہ ان کو جو چوٹ لگی وہ وہی جانے ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کی وابستگی کسی شخصیت سے ہے اور نہ ہی پاکستان کسی شخصیت کا نام ہے۔

 

متعلقہ خبریں