سوئے حرمین خوشبوئے حرمین

2017 ,اکتوبر 4



ارض مقدس اور ارض پاک کے مکیں ارضی دوریوں کے باوجود ایک دوسرے کے دلوں کے قریب رہتے ہیں۔ یہی قربت ہے اور قربت سے قرابت ہوتی ہے۔ مسلمانِ کاجسم جہاں بھی ہے اس کا دل حرمین میں اٹکا رہتااور اسکے دل میں حرم بسا رہتا ہے۔ سوئے حرمین جانے کی اور خوشبوئے حرمین پانے کی حسرت ہر اہل ایمان دل میں بسائے بہ دست دعا رہتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات عالمی سیاست اور مصلحتوں سے بالاتر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین اٹوٹ اور مثالی تعلقات قیام پاکستان سے بھی قبل کے ہیں۔ بالکل ایسے ہی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ریاست بہاولپور کے نواب میر محمد صادق خاں نے حج پر جانے کیلئے مکمل بحری جہاز بک کرا لیاجس میں ان کا عملہ اور چھ رولز رائس کاریں بھی تھیں ،نواب محمد صادق نے ہی قائد اعظم محمد علی جناح کوبھی ایک رولز رائس کار تحفے میں دی تھی ،نواب محمد صادق کی حج کے موقع پر سعودی فرمانروا عبدالعزیزبن سعود سے ملاقات کی ،سعودی فرمانروا کی خواہش تھی کہ نواب صادق ایک رولز رائس کار ان کےلئے چھوڑ جائیں ،نواب صادق کو سعودی فرمانروا کی اس خواہش کا کسی طور علم ہوا تو انہوں نے 6کی 6کاریں انہیں بطور تحفہ دے دیں،اس وقت سعودیہ میں تیل اور دولت کی ریل پیل نہ تھی ۔

1930 ءسے قبل صحرا نشینی سے شروع ہونےوالا سفر تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہوا اور آج سعودی عرب دنیا کے امیر ترین ممالک کی صف میں سرفہرست ہے۔ اس میں شاہ سعود اور انکے بعد انکے بیٹے عبدالعزیز اور پھر شاہ عبدالعزیز کے بیٹوں کا کردار محنت‘ لگن اور اہلیت کا کمال ہے۔ آج سعودی عرب ترقی و خوشحالی اور امارت کی معراج پر ہے۔

پاکستان کو سعودی عرب والے اپنا گھر کہتے ہیں۔ پاکستان جب بھی کسی مشکل میں گھرا سعودی عرب کی طرف سے ہمیشہ اسے مشکل سے نکالنے کیلئے باقی دنیا سے پہل کی گئی اور وسائل فراہم کرنے میں ویسی ہی وسیع القلبی کا اظہار کیا گیا جیسی نواب بہاولپور نے کی تھی۔ شاہ سعود نے جس مملکت کی بنیاد 87سال قبل رکھی‘ وہ وسائل کے حوالے سے امیر ترین اور دفاع میں ناقابل تسخیر بن چکی ہے۔ بنیادہی پر عمارت کی مضبوطی کا انحصار ہوتا ہے۔ سعودی حکمران ابتدائی مشکلات کو بخوبی جانتے ہیں۔ سعودی دور کا آغاز 23 ستمبر 1930ءکوہوا۔

سعودی اپنا قومی دن یوم الوطنی بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یوم الوطنی کا بڑا شہرہ و چرچا ہوتا ہے۔ پُر شکوہ تقریب کا اہتمام سعودی سفارتخانے کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ ہر سال برادرم نواز رضا کی ڈائری سے یوم الوطنی کی تقریب کے احوال سے آگاہی ہوتی تھی۔ رواں سال خود یوم الوطنی تقریب سے شرکت کا موقع ملا۔ سعودی سفارتخانہ لاہور میں اپنی سفارتی سرگرمیاں بڑھا رہا ہے۔ جولائی میں قائم مقام سعودی سفیرمروان رضوان لاہور آئے۔ انہوں نے میڈیا کے کچھ لوگوں سے ملاقات کی۔ انہوں نے لاہور میں سعودی قونصلیٹ قائم کرنے کی نوید سنائی تھی۔ سعودی سفارتخانے کی طرف سے اسلام آباد کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں کے میڈیا کے ساتھ انٹر ایکشن کی بھی خواہش ہے۔

رواں سال لاہور سے چند صحافیوں کو اپنے قومی دن کے موقع پر مدعو کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ حبیب اللہ سلفی لاہور سے روزنامہ امت کیلئے کشمیر کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔ سعودی سفارتخانے سے ان کا عموماً رابطہ رہتا ہے۔ سلفی صاحب نے بتایا تھا کہ سعودی سفارتخانہ لاہور سے بھی صحافیوں کو دعوت دے رہا ہے۔ سعودی سفارتخانے سے فون اور وٹس ایپ پر پوسٹل ایڈریس مانگا گیا ۔ اس ایڈریس پر کارڈ موصول ہوا جس کے مطابق 26 ستمبر کو شام سات سے نو بجے تک تقریب کا انعقاد تھا۔ کارڈ میرے ایڈیٹر جناب سعید آسی کوبھی ملا تھا ان کا جانے کا پروگرام نہیں تھا۔ سو میں چلا گیا۔ دعوت نامہ تقریب میں شرکت کا تھا ۔جانے اور ٹھہرنے کا خود بندوبست کرنا تھا۔ لاہور سے سلفی صاحب‘ جاوید ڈسکوی اور مزمل سہروردی اسلام آباد گئے۔

نواز رضا بتاتے ہیں کہ چند سال قبل تک تقریب سفارتخانے میں ہوتی تھی اب کسی فائیو سٹار ہوٹل میں ہوتی ہے‘ رواں سال سیرینا میں ہوئی۔ میں صبح سات بجے والی ٹرین سے پنڈی چلا گیا واپسی رات ساڑھے بارہ بجے والی ٹرین سے تھی۔ چند گھنٹے حبیب اللہ سلفی کے ساتھ اسلام آباد کے جماعت الدعوة کے مرکز میں گزارے۔ یہ مرکز مسجد قباءمیں ہے ۔جماعت الدعوة کے الگ سے کوئی مرکز نہیں۔ مساجد قائم کی جاتی ہیں ان میں ہی فلاحی اور رفاعی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ مسجد و مرکز کے ورکرز کو کھانا ادارے کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ قرب و نواح کے مستحق لوگوںپر بھی کھانے کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔

ہم لوگ مقررہ وقت پر تقریب میں پہنچ گئے۔ ہوٹل میں تین ایک دوسرے سے متصل ہال بُک تھے۔ انٹرنس پر سفیر محترم خود سفارتخانے کے حکام کے ساتھ ہر مہمان کا استقبال کررہے تھے۔ عرب مہمانوں کا استقبال عرب میزبان اپنی روایت کے مطابق گال سے گال لگا کررہے تھے۔ ہالوں کی گیلری میں مہمانوں کیلئے لٹریچر قرآن مجید کے نسخے اور دیگر تحائف سے میزوں پر سجے تھے جو تقریب کے اختتام پر تقسیم ہونے تھے۔ اسی گیلری میں علامتی خیمہ نصب تھا جو عرب کلچر کی نمائندگی کرتا تھا۔ یہیں پر ہر مہمان کو سعودی پرچم پر مشتمل چھوٹے مفلر سے مشابہ تھی شال گلے پہنائی جارہی تھی ۔ پہلے ہال میں کھجوریں رکھی تھیں اور ساتھ قہوہ پیش کیا جارہا تھا۔

دو گھنٹے کی تقریب میں مخصوص عربی لباس میں عربی دھن پر تلواروں سے رقص جاری رہا۔ ایک سائیڈ پر چند تلواریں پڑی تھیں۔شوقیہ افراد بھی اس رقص میں حصہ لے رہے تھے۔ یہ رقص مشکل نہیں ہے محض تلوار اٹھانی ہوتی ہے۔ ٹرمپ یہ رقص کرسکتا ہے تو کسی کیلئے بھی مشکل نہیں ہوسکتا۔ تقریب میں رنگارنگ کی یونیفارم اور زرق برق رینکس کے ساتھ عرب اور غیر عرب ممالک کے سفارتخانوں کے فوجی اتاشی اور افسر موجود تھے‘ خواتین بھی کافی تعداد میں تھیں۔ لاہور سے علامہ زبیر احمد ظہیر اور طاہر اشرفی گئے تھے۔

سٹیج پر تصاویر کی ایک سائیڈ پر شاہ سلمان اور دوسرے پر صدر ممنون حسین کی تصویر تھی۔ پاکستان کے کسی وزیراعظم نے شاید ہی اس عظیم الشان تقریب میں کبھی خواہش کے باوجود شرکت کی ہو کیونکہ یہ تقریب عین ان دنوں ہوتی ہے جب اقوام متحدہ کا اجلاس ہورہا ہوتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان بھی اس میں شرکت کیلئے گئے ہوتے ہیں۔ مذہبی رہنماءبڑی تعداد میں مدعو تھے۔ اب سیاسی و مذہبی رہنماﺅں میں زیادہ فرق نہیں رہ گیا۔ مذہبی رہنماءاب سیاست میں بھی وارد ہوچکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن‘ مولانا سمیع الحق‘ مولانا لدھیانوی‘ مولانا عطا الرحمن‘ عبدالغفور حیدری وہاں رونق کو دوبالا کئے ہوئے تھے سیاستدانوں میں راجہ محمد ظفر الحق، گورنر پنجاب رفیق رجوانہ، سردار محمد یوسف، امین الحسنات ، ، لیاقت بلوچ ، چوہدری شجاعت حسین ،جنرل (ر)احسان الحق،گلگت و بلتستان کے وزیر اعلیٰ عبدالحفیظ، سینیٹر رحمنٰ ملک ، محمد اعجاز الحق ، محمد علی درانی ، مولانا فضل الرحمان خلیل ، مولانا طاہر اشرفی ،فیصل کنڈی ، پروفیسر ساجدمیر ، سینیٹر شیریں رحمان اور شیخ رشید احمد سرفہرست تھے۔ تقریب کا آغازتلاوت اور پاک سعودی قومی ترانوں سے ہوا۔ سفیر نواف سعید المالکی اور مہمان خصوصی ایاز صادق نے کیک کاٹا‘ سٹیج پر مہمان سیٹوں پر تشریف فرما تھے مگر ہال میں کوئی کرسی نہیں تھی۔ مہمان ادھر ادھر گھومتے اور گپ شپ کرتے رہے۔ مہمانوں کیلئے عربی اور پاکستانی کھانوں سے تواضع کی گئی۔ اس تقریب کا کلائمیکس تحائف کی تقسیم تھی یہ مرحلہ زیادہ ہی ”پرامن“ طریقے سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔سعودی واقعی پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ 77ءمیں پی این اے اور بھٹو حکومت ایک دوسرے کے مقابل تھے تو سعودی سفیر ریاض الخطیب نے مذاکرات کیلئے اہم کردار ادا کیا تھا۔ نواف سعید المالکی پاکستان میں ایک عرصہ گزار چکے ہیں۔

وہ پاکستان میں سعودی عرب کے ملٹری ایڈوائزر رہ چکے ہیں اس لئے وہ سیاسی اور عسکری حلقوں میں مقبول سفارت کا ر ہیں انہوں نے پاکستان کی عسکری تربیت گاہوں میں تربیت حاصل کی ہے وہ پاکستان میں ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں انکے مختلف شخصیات سے ذاتی تعلقات ہیں۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات میں در آنےوالی سردمہری کو گرم جوشی میں تبدیل کرکے اپنا نام تاریخ رقم کرنےوالے سفیروں میں درج کروا لیں گے۔

متعلقہ خبریں