انصاف کا ٹھیکہ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 21, 2016 | 07:57 صبح

گاﺅں سے دو نوجوان گھر آئے، چائے پانی کے بعد انہوں نے مدعا بیان کرنے سے قبل پوچھا کہ کیا میری صدیق الفاروق سے جان پہچان ہے۔ میں نے کہا ۔” کیوں نہیں، اچھی خاصی جان پہچان ہے یہاں تک کہ وہ نوائے وقت میں کسی دور میں کام بھی کرتے رہے ہیں، آج کل وہ محکمہ اوقاف کے چیئرمین ہیں اور۔۔۔“ میں بات کر رہا تھا ایک نے بات کاٹتے ہوئے کہا ۔”بس اتنا کافی ہے۔ اب ہمارا کام ہو جائے گا“۔ کام کی نوعیت انہوں نے بتائی۔” گاﺅں کے ساتھ بابا گورو نانک کے نام رقبہ پلاٹوں کی صورت میں لیز
پر دیا گیا ہے۔ آٹھ ایکڑ پر مشتمل پلاٹ کا سالانہ ٹھیکہ 40 ہزارروپے ہے۔ ان کا پلاٹ متنازعہ ہو گیا۔ اس کے دو فریق ملکیت کے دعویدار ہیں۔ معاملہ کورٹ میں گیا تو فیصلہ دوسرے فریق کے حق میں ہو گیا۔ آپ صدیق الفاروق سے کہہ کر انصاف کے مطابق فیصلہ کرا دیں“۔
میرا سوال تھا کہ کیا کورٹ نے انصاف کے مطابق فیصلہ نہیں کیا؟
ان کے جواب نے مخمصے میں ڈال دیا کہ کورٹ نے پیش کردہ شواہد کے مطابق فیصلہ دیا لیکن اگلی عدالت سے فیصلہ ہمارے حق میں آئے گا۔
وہ کیسے؟
اس لئے کہ ہمارا مو¿قف درست ہے۔
پھر کورٹ نے آپ کے خلاف فیصلہ کیوں دیا؟ اس کا جواب بھی دلچسپ تھا۔
یہ کیس ہارنے کے بعد ہمارا وکیل حج کرنے چلا گیا، اس نے واپسی پر ہمیں کجھوریں، جائے نماز، ٹوپی اور آبِ زم زم کا تحفہ دیا اور ساتھ ہی کہا کہ وہ دل میں ایک خلش لئے پھرتا ہوں، چونکہ حج کر کے آیا ہوں اس لئے سچائی بیان کرنا چاہتا ہوں۔ سچائی! وکیل نے سچائی بیان کی کہ ہمارا کیس اس نے جان بوجھ کر ہارا۔
جب آپ کو منہ مانگی فیس دیدی تو کیوں کیس جان بوجھ کر کیسے ہارا تو وکیل کا جواب تھا ”آپ نے پچاس ہزار فیس دی، دوسرے فریق نے پانچ لاکھ دے دئیے تھے!“ وکیل کے بجائے لوگ جج کر لیتے ہیں اور بعض صورتوں میں مدعی کا وکیل بھی کر لیا جاتا ہے۔ عمران خان اپنے وکیل تبدیل کر رہے ہیں مبادا مخالف فریق نے یہ وکیل بھی نہ کر لئے ہوں؟
نوجوان نے پھر وہ فقرہ دُہرایا کہ اب ہمارا کام ہو جائے گا۔ کیسے؟ جواب تھا کہ آپ کی صدیق الفاروق سے جان پہچان جو ہے انہیں کہہ کے انصاف کے مطابق فیصلہ کرا دیں۔ میں نے کہا ”بھائی! میری ان سے جان پہچان ہے ان کی تو مجھ سے نہیں ہے۔ میں ان کے لئے ایسے ہی ہوں جیسے باقی 18 کروڑپاکستانی ہیں۔ آپ کا کیس مضبوط ہے، عدالت میں جا کر ثابت کریں۔“ ان کا جواب تھا عدالت میں فیصلہ ہونے تک شاید کئی نسلیں گزر جائیں۔
ہمارے گاﺅں میں ایک ایکڑ 45 ہزار روپے ٹھیکے پر چڑھتا ہے۔ زمین گویا سونا اُگلنے والی ہے۔ ان کا تنازعہ آٹھ سال سے جاری ہے اور اتنے ہی سال سے زمین خالی پڑی ہے۔ نجانے کب تک خالی پڑی رہے۔ مدعی اور ملزم جتنے بھی تگڑے ہوں زمین کا خالی پڑے رہنا ظلم ہے اور ظلم انصاف کی ضد ہے۔ ایسے ایک دو نہیں لاتعداد کیس ہونگے اور ہر کیس کے مدعی اور ملزم تگڑے نہیں ہوتے۔
پانامہ لیکس میں شیخ محمد اکرم کی بطور وکیل انٹری نے تہلکہ مچایا۔ شیخ صاحب الحاج بھی ہیں۔ حامد خان بھی نیک سیرت ہیں۔ وہ نماز جمعہ نوائے وقت کے پرانے آفس کی ٹاپ پر بنی خوبصورت مسجد میں ادا کیا کرتے تھے۔ پاکستان کی تاریخ کے بڑے اور اہم کیس کے وکلا کو ذرے ذرے کا علم ہے کہ وہ جس کی وکالت کر رہے ہیں وہ کتنا سچا ہے۔ ایک تو جھوٹ کا ساتھ دے رہا ہے اور ان حضرات نے حج بھی کر رکھے ہیں مگر ضمیر پر خلش شاید محسوس نہیں ہوتی۔ شیخ صاحب کے ساتھ کئی جسمانی عوارض بھی چمٹے ہوئے ہیں۔ وکالت پروفیشن ہے اگر سچے کا ساتھ دیں تو عبادت بھی ہے۔ ججوں نے کیس کا دنوں میں فیصلہ کرنے کا تاثر دیا۔ اب اگلی تاریخ 30 نومبر دی گئی ہے اور کیس ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
میاں نواز شریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے ان کے خلاف یوسف رضا گیلانی جیسے فیصلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میاں نواز شریف کو فیصلے تک منصب چھوڑنے پرکوئی آمادہ نہیں کر سکتا۔ پانامہ لیکس میں مدعی پارٹی شام سے پہلے میاں نواز شریف کو گھر بھجوانے کی خواہش پالے ہوئے ہے ۔ایسے میں بہتر ہوتا کہ یہ کیس اس حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد چلتا اور فیصلے پر کسی کو اعتراض بھی نہ ہوتا‘ درست بھی سہی فیصلہ میاں نواز شریف کے حق میں آتا ہے تو بھی تنقید کا نشانہ ضرور بنے گا۔ حکومتی مخالف نواز شریف اور انکے بچوں کے جائیدادوں کے حوالے سے ایک دوسرے سے متضاد بیانات کا پوسٹمارٹم کر رہے ہیں۔ وہ ان کے حق میں فیصلے پر کیا کیااودھم نہ مچائیں گے۔
گورننس کا معیار اگر میٹرو، موٹر ویز، پُل اور انڈر پاسز ہے تو مسلم لیگ ن کی حکومت لاثانی ہے۔ اگر چادر اور چار دیواری کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی کو گورننس کا معیار بنایا جائے تو صورتحال اس کے برعکس ہے۔ روزانہ ظلم و زیادتی کی خبروں سے اخبارات بھرے پڑے ہوتے ہیں۔
چند روز قبل میو ہسپتال لاہور میں ایک خاتون دم توڑ گئی۔ اس نے خود سوزی کی تھی۔ اس خاتون نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا تھا کہ اس کے والدین گجرات کے گاﺅں ڈھلو غربی میں رہتے ہیں۔ اس کی شادی بھمبر آزاد کشمیر میں ہوئی۔ خاوند بیرون ملک چلا گیا تو یہ لڑکی والدین کے پاس آ گئی۔ چند ماہ قبل لڑکی کے والد نے ایک کمسن لڑکی سے دست درازی کی۔ معاملہ پنچایت تک گیا تو اس کے فیصلے پردست درازی کا شکار ہونے والی لڑکی کے باپ نے اسکے ساتھ ریپ کیا جس سے وہ بچے کی ماں بننے والی ہو گئی۔ اس دوران خاوند کی واپسی پر سسرال گئی اور خود کو آگ لگا لی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ خاوند کا سامنا نہیں کر سکتی تھی۔ جاں جانِ آفرین کے حوالے کرنے سے قبل اس نے مردہ بچے کو جنم دیا جس کی لاش کا غائب ہونا بھی ایک معمہ ہے۔
جب سے یہ واقعہ پڑھا ہے اس کے عموماً تصورمیں آتے ہی ذہن ماﺅف ہونے لگتا ہے۔ چادر اور چار دیواری کا تحفظ کس نے کرنا ہے۔ ان حکمرانوں نے جو خود کئی مقدمات میں عدالتوں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا تھانے بکتے ہیںلگتا ہے انصاف بھی بکتا ہے۔۔ جن کا نیب سے واہ پڑا وہ کہتے ہیں نیب ٹھیکے پر چڑھتا ہے۔ کچھ بھی ٹھیکے پر چڑھ سکتا ہے۔ کیا انصاف کا ٹھیکہ بھی ہو سکتا ہے اور ہوسکتا ہے تو ٹھیکے پر دے ہی دینا چاہیے۔انصاف کا ٹھیکہ ان کو دیا جائے جن کے دل پتھر اورہاتھ فولاد کے ہوں۔