عدل فاروقی اور ہم

حضرت عمر فاروقؓ کے سامنے ایک چوری کا مقدمہ آگیا۔ آپ نے چور کے ہاتھ کاٹ دینے کا حکم صادر فرمایا کہ اتنے میں عدالت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نمودارہوئے۔ انہوں نے پوچھا کہ ”اے خلیفة المسلمین! کیا آپ نے چوری کی وجہ پوچھی؟“ اس پر حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا ”نہیں“ جواباً حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ”پہلے چوری کی وجہ پوچھی جائے کیونکہ نان و نفقہ کا بندوبست کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔“ جب چورسے وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ اس نے فاقوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر چوری کی ہے۔ اس جواب کے بعد اسکی سزا کو معاف کردیا گیا۔
حضرت عمرؓ کے بیٹے عبداللہ اور عبیداللہ میدان جنگ سے واپس آرہے تھے، یہ دونوں ا±س وقت روئے زمین کے سب سے بڑے حکمران کے بیٹے تھے،راستے میں بصرہ کے گورنر سے ملے، بصرہ کے گورنر نے انہیں کہا کہ ”میں نے کچھ رقم خزانے میں جمع کرانے کیلئے دارالخلافہ بھجوانی ہے، وہ لیتے جاﺅ، میں وہ رقم تمہیں بطور قرض دئیے دیتا ہوں، تم اس سے کچھ عراقی مال خرید لو اور دارالخلافہ جاکر بیچ دینا، اصل رقم خزانے میں جمع کرادینا اور منافع خود رکھ لینا“ عبداللہ اور عبیداللہ نے ایسا ہی کیا۔ فارق ِاعظم کو خبر ہوگئی۔ آپ نے ان سے پوچھا ”کیا بصرہ کے گورنر نے لشکر کے تمام فوجیوں کو اِسی طرح اُدھار دیا تھایا صرف تم دونوں کو؟“ بیٹوں نے جواب دیا کہ ”گورنر نے سارے لشکر کو تواُدھار نہیں دیا تھا“۔ آپ نے کہا کہ ”پھر ا±س نے تمہارے ساتھ یہ ترجیحی سلوک صرف اس لیے کیا کہ تم امیرالمومنین کے بیٹے ہو، جاﺅ! مال اور نفع دونوں بیت المال میں جمع کرادو“۔ایک دفعہ شاہِ روم کا قاصد آیا تو ملکہ روم کی طرف سے ”فرماں روائے مملکت اسلامیہ کی بیگم“ کیلئے ہدیہ سلام لایا، خلیفہ دوم کی اہلیہ نے ایک دینا رقرض لیا، اس کا عطر خریدا اور اسے شیشیوں میں بند کرکے ملکہ روم کو بھیج دیا، ملکہ روم نے ”تحفہ“ موصول ہونے پر انہی شیشیوں کو جواہرات سے بھر کر واپس بھیج دیا۔ حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو آپ نے سارے جواہرات فروخت کرکے ایک دیناربیوی کو دیا اور باقی رقم بیت المال میں جمع کرادی اور بیوی کو آئندہ محتاط رہنے کی تلقین کی۔
ایک دفعہ آپکے خادم حضرت اسلمؓ نے بتایا کہ ” بیت المال میں ایک اونٹنی آئی ہے جو اندھی ہے، اس کا کیا کیا جائے؟“ آپ نے جب دیکھا کہ اس اونٹنی کا کوئی مصرف نہیں تو اسے ذبح کراکے گوشت ازدواج مطہراتؓ اور صحابہ کبارؓ کے ہاں تحفہ بھیج دیا، گوشت ملنے پر حضرت عباسؓ آئے اور کہا ”امیر المونین! آپ ہمارے لیے ہر روز اسی طرح کیا کرتے تو کیا ہی اچھا ہوتا!“ جس پر حضرت عمرؓنے فرمایا ”عباسؓ! ریاست میں بہت سی بھوکی عورتیں ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں، ان کا بھی تو خیال رکھنا ہوتا ہے!“ ایک دفعہ فرمایا کہ ”اگر میں زندہ رہا تو(مدینہ تو ایک طرف) عراق (ریاست کی سرحد) تک کی بیواﺅں کو ایسا بنادوں گا کہ وہ میرے بعد بھی کسی کی محتاج نہ رہیں گی“۔
قرون اولیٰ میں حجاز سے فارس اور اندلس و روم تک سرحدوں میں توسیع ہوئی تو اسکی بنیادی وجہ انصاف کی کار فرمائی تھی۔عدل چراغ ابتدائے شب بن کر ظلمت کے اندھیرے اور تاریکیوں کو نور سحر میں بدلتا چلا گیا ۔ ان حکمرانوں نے جہاں انصاف کا اجالا پھیلایا وہیں اپنے گھوڑے ہوا کے دوش پر دوڑانے بلکہ اڑانے کا بھی پورا اہتمام کیا ۔ فاتح عالم بننے کےلئے یہی رخت سفر لازم ہے۔ مسلمانوں کی پسپائی عدل کی کارفرمائی اور گھوڑے تیار رکھنے کے باوجود ہوئی تو اس میں حکمرانوں میں جاہ پرستی کا در آنا اور غداروں کا کردار تھا اوربدستور ہے۔
ہمارا دفاع نا قابل تسخیر ہے۔ ہمارے کسی کیخلاف کوئی جارحانہ عزائم ہیں نہ کوئی توسیع پسندی کی خواہش ہے۔ اندر سے ہم کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ ہم نے کسی کیخلاف جارحیت کیا کرنی ہے ایٹمی قوت ہونے اور دفاع کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعووں اور لوازمات کے باوجود اپنی بقا اور دفاع کی فکر ہے۔ اندر سے کھوکھلے ہم انصاف و عدل کے تقاضوں سے دور ہونے کے باعث ہوئے ہیں۔ دفاع کی فکر کی وجہ ملک کے اندر وطن سے بے وفاﺅں کی بہتات ہے اور ان بے وفاﺅں کی رسائی اورپہنچ پالیسی سازی اور خارجہ و داخلہ امور پر اثر انداز ہونے تک ہے۔چوروں اور وطن فروشوں میں گٹھ جوڑ ہو چکا ہے۔
ملک اور معاشرے میں بے چینی ہی نہیں بلکہ افراتفری اور انارکی بھی ہے جس کا سبب وہ نظام عدل ہے جس کو مفلوج کر کے رکھا گیا تھا اب وہ فالج زدہ کیفیت سے توانگی کی طرف آرہا ہے تو اس کا گلا دبانے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ ہمارے ہاں عدل وہی جوہمیں سوٹ کرے کا عمومی رویہ ہے۔ وہ کتنے فیصد ہیں جن کو سزا ملی اور انہوں نے جرم قبول کیا ۔ مجرم پھانسی کے پھندے پر جھولنے تک بے گناہی کا واویلا کرتا ہے ۔
ہمارے ہاں آج بہت کچھ عدل پر منحصر ہے۔ انصاف کے گرد بہت کچھ گھوم رہا ہے جبکہ انصاف آج تیزی اور تندہی سے مجرموں کے گرد گھومنے لگا ہے۔ کل تک ہم کہتے تھے چھوٹے چوروں ہی کو پکڑا جاتا ہے۔ آج بڑوں پر ہاتھ پڑا ہے تو ہم سیاست، سیاسی وابستگی اور شخصیت پرستی میں کھو گئے ۔ اسحق ڈار کے شاید 15 سال میں اثاثے سو گنا ہوگئے۔ بمبی نو والوں کے اسی مدت میں ایک ہزار گنا بڑھ گئے۔ وہ بھی کہتے ہیں، نوازشریف نے ملک کو لوٹا ،نواز شریف انتشار پھیلانا اور سب کچھ فوج و عدلیہ پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ کل فوج کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے تھے‘ آج وفاداری جتا رہے ہیں۔ ایسی بات اپنا دامن اجلا ہو تو سجتی ہے۔
میاں نواز شریف اور انکے خاندان کو بے لاگ احتساب کا سامنا ہے جس پر نظام عدل ہی کا جنازہ نکالنے اور اسے ہاتھی کے بوجھ تلے دبانے کی ہر ممکن اور ناممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک سو سے زائد بار آج کی حکمران پارٹی کے وزیروں اور کل کے وزیر اعظم نے عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کیا۔ جب کوئی الزام لگا تو کہا گیا عدالت جاﺅ۔ اب عدالت فعال ہوئی تو اسے گالیاں ، فوج کے عدلیہ کے پیچھے کھڑا ہونے کی کہانیاں سنائی جا رہی ہیں۔ میاں نواز شریف کو پارٹی سربراہ بنانے کیلئے قانون سازی چھانگا مانگا سیاست کی طرز پر کی گئی۔ اس میں حلف نامہ بھی تبدیل کر دیا گیا۔ سخت رد عمل آیا تو میاں نواز شریف نے راجہ ظفرالحق ، احسن اقبال اور مشاہد اللہ پر مشتمل کمیٹی بنادی ۔ کمیٹی ہفتہ سات اکتوبر کو بنی جس کو 24 گھنٹے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی مگر اس کا پہلااجلاس تیسرے روز پیر کو ہوا ۔ ایسا کیوں؟ کیانیت صاف اور نیک ہے؟ میاں صاحب کے تحفظ کےلئے آئین میں مزید تبدیلیاں بھی کی جا رہی ہیں۔ عموماً ایسی ترمیمیں وبال جان بن جاتی ہیں جیسا کہ پارٹی سربراہی کی ترمیم بن چکی ہے۔
عدالتیں آخر کیوں ایک خاندان سے تعصب رکھیں گی؟ دامن بے داغ، کردار صاف و شفاف اور حب وطنی کا اٹل یقین ہوتا تو این اے 120 میں اول تو مقابلے میں کوئی امیدوار ہی نہ ہوتا ۔اگر ہوتا تو اتنے ہی ووٹ لیتا جتنے صدر پاکستان کےلئے سابق امیدوار امبر شہزادہ نے لیے۔ نیب پر ایک جج نگران ہے، قمر چودھری جیسا فرمانبردار جس ادارے کا سربراہ ہو اس پر غیر جانبدار جج ہی نگران ہو سکتا ہے ۔ میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں کہا کہ آپ جج کو واپس بلا لیں تو ایک دن میں ریفرنس فارغ ہو جائیں گے ۔قمر چودھری کی جگہ اب جسٹس جاوید اقبال کے ہاتھ میں نیب کی زمام کار آئی ہے ۔ وہ بڑے قابل احترام اور اچھی شہرت کے مالک ہیں۔ یہ بجا مگر اس سے زیادہ ضرورت انکی طرف سے کرپشن کے خاتمے میں اپنی تمام صلاحتیں برﺅے کار لانے کی ہے۔ 150میگا کرپشن کیسز پر سابق سربراہ نیب دھرنا دے کر بیٹھے رہے۔
ان میں پیشرفت کیلئے سپریم کورٹ برہم ہوئی، سخت سست کہانی کو مردہ قرار دیا مگر مردے کب سنتے ہیں! اس لئے مقدمات جہاں تھے وہیں رہے۔ جاوید اقبال قوم کےلئے تبھی محترم اور اچھی شہرت کے درجے پر رہ سکیں گے، جب غیر جانبداری سے احتساب کا عمل یقینی بنائینگے۔ ہمارے آئین میں تبدیلیاں بھی کیا کیا اورہمارے حاکم بھی کیا کیا ۔ احتساب کے سب سے بڑے ادارے کے سربراہ کی تقرری جناب خورشید شاہ اور شاہد خاقان عباسی نے کی۔ قمر چودھری کی تقرری نواز شریف اور خورشید شاہ نے کی تھی‘ ان ہر تین پراربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ فوج کا سربراہ ، کسی جج کو نہیں لگایا جاسکتا۔چیف جسٹس کسی بیوروکریٹ اور آئی جی کسی سیاستدان کو کیوں نہیں لگایا جاتا۔نیب اتنا ہی بانجھ ہے کہ اسے اپنے اندر سے اپنا سربراہ بھی نہیں ملتا؟آج پاکستان میں عدل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ انصاف غیر جانبداری سے ہونے کی امید ہے جس پر اتنا واویلا ہے قیامت برپا ہے۔ ہیجان اور ہذیان کی کیفیت ہے اگر عدل فاروقی کا نفاذ ہو تو کیا ہو؟
کل 12 اکتوبر ہے‘ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ 12 اکتوبر1999ءکو مشرف نے میاں صاحب کا تختہ الٹ کر ظلم کیا تھا‘ اب وہی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ جسے ہم مشرف کی غلطی سمجھتے رہے‘ دراصل وہ اسکی بصیرت تھی۔